از حنانور
نبوت ختم ہے تجھ پر، رسالت ختم ہے تجھ پر
ترا دیں ارفع و اعلی، شریعت ختم ہے تجھ پر
ختم نبوت کا مطلب
اللہ رب العزت نے سلسلۂ نبوت کی ابتداء سیدنا آدم علیہ السلام سے فرمائی اور اس کی انتہا محمد عربیﷺ کی ذات اقدس پر فرمائی۔ آنحضرتﷺ پر نبوت ختم ہوگئی۔ رب کائنات نے قصر نبوت کی تعمیر کی تو اس کا اختتام آنحضرتﷺ کی ذات باری پر فرمایا۔ آپﷺ آخرالانبیاء ہیں۔ آپﷺ کے بعد کسی کو نبی نہ بنایا جائے گا۔ اس عقیدہ کو شریعت کی اصطلاح میں عقیدۂ ختم نبوت کہا جاتا ہے۔
عقیدۂ ختم نبوت کی اہمیت
ختم نبوت کا عقیدہ ان اجماعی عقائد میں سے ہے۔ جو اسلام کے اصول اور ضروریات دین میں شمار کئے گئے ہیں اور عہد نبوت سے لے کر اس وقت تک ہر مسلمان اس پر ایمان رکھتا آیا ہے کہ آنحضرتﷺ بلا کسی تاویل اور تخصیص کے خاتم النبیین ہیں۔
عقیدہ ختم نبوت اتنا مضبوط عقیدہ ہے جس کے بارے میں امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں: “مَنْ طَلَبَ مِنْهُ عَلَامَةً فَقَدْ كَفَرَ”
ترجمہ: اس عقیدے میں دلیل طلب کرنے والا کافر ہے۔
ملا علی قاری فرماتے ہیں: “دعویٰ النبوۃ بعد نبیناﷺ کفر بالاجماع”
ترجمہ: اور ہمارے نبیﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کرنا بالاجماع کفر ہے۔
(شرح الفقہ الأکبر، ص 380)
ملا علی قاری اور ابن حجر مکی اپنے فتاویٰ میں لکھتے ہیں: “من اعتقد وحیا من بعد محمدﷺ کان کفرا باجماع المسلمین”
ترجمہ: جس نے نبیﷺ کے بعد وحی کا اعتقاد رکھا وہ کافر ہے۔
(احتساب قادیانیت)
ختم نبوت پر دلائل
آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی پیدا نہ ہوگا چاہے ظلی ہو یا بروزی، تشریعی ہو یا غیر تشریعی، حقیقی یا غیر حقیقی، لغوی یا مجازی ہو۔
قرآن پاک کی سو آیات، دو سو احادیث، اجماع صحابہ وتابعین،اجماع فقھاء و محدثین ختم نبوت کی عکاسی کرتے ہیں۔
آیت سے دلیل
”الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا“ (سورہ مائدہ: آیت نمبر:3)
ترجمہ: ”آج میں پورا کرچکا تمہارے لئے دین تمہارا، اور پورا کیا تم پر میں نے احسان اپنا‘ اور پسند کیا میں نے تمہارے واسطے اسلام کو دین۔“
حدیث سے دلیل
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَثَلِي وَمَثَلُ الْأَنْبِيَائِ مِنْ قَبْلِي کَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَی بُنْيَانًا فَأَحْسَنَهُ وَأَجْمَلَهُ إِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ مِنْ زَاوِيَةٍ مِنْ زَوَايَاهُ فَجَعَلَ النَّاسُ يَطُوفُونَ بِهِ وَيَعْجَبُونَ لَهُ وَيَقُولُونَ هَلَّا وُضِعَتْ هَذِهِ اللَّبِنَةُ قَالَ فَأَنَا اللَّبِنَةُ وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میری مثال اور ان تمام انبیاء کرام (علیہم السلام) کی مثال جو مجھ سے پہلے آچکے ہیں اس آدمی کی طرح ہے کہ جس نے مکان بنایا اور بہت اچھا اور خوبصورت بنایا لیکن مکان کے ایک کونے میں سے ایک اینٹ کی جگہ خالی رہ گئی لوگ اس کے مکان کے چاروں طرف گھومے وہ مکان ان کو بڑا اچھا لگا اور وہ مکان بنانے والے سے کہنے لگے کہ آپ نے اس جگہ ایک اینٹ کیوں نہ رکھ دی آپ ﷺ نے فرمایا وہ اینٹ میں ہی ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔
(صحیح مسلم حدیث نمبر: 5961)
اجماع امت
… آنحضرتﷺ کی امت کا سب سے پہلا اجماع اسی مسئلہ پر منعقد ہوا۔ چنانچہ امام العصر حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کشمیری ؒ اپنی آخری کتاب خاتم النبیین میں لکھتے فرماتے ہیں:
سب سے پہلا اجماع جو اس امت میں منعقد ہوا۔ وہ مسیلمہ کذاب کے قتل پر اجماع تھا۔ جس کا سبب صرف اس کا دعویٰ نبوت تھا۔ اس کی دیگر گھنائونی حرکات کا علم صحابہ کرامؓ کو اس کے قتل کے بعد ہوا تھا۔
جھوٹی نبوت
آپ ﷺ نے جھوٹے نبوت کی پیشنگوئی کی تھی:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَقْتَتِلَ فِئَتَانِ فَيَكُونَ بَيْنَهُمَا مَقْتَلَةٌ عَظِيمَةٌ دَعْوَاهُمَا وَاحِدَةٌ، وَلَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يُبْعَثَ دَجَّالُونَ كَذَّابُونَ قَرِيبًا مِنْ ثَلَاثِينَ كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ.
ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک دو جماعتیں آپس میں جنگ نہ کرلیں۔ دونوں میں بڑی بھاری جنگ ہوگی۔ حالانکہ دونوں کا دعویٰ ایک ہی ہوگا اور قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک تقریباً تیس جھوٹے دجال پیدا نہ ہو لیں۔ ان میں ہر ایک کا یہی گمان ہوگا کہ وہ اللہ کا نبی ہے۔
(صحیح البخاری حدیث نمبر 3609)
صحابہ کرام کی جانثاری
امت مسلمہ نے ہر دور میں ختم نبوت کے لییے اپنی جان تک قربان کرنے سے دریغ نہیں کیا۔
آنحضرتﷺ کے زمانہ حیات میں اسلام کے تحفظ و دفاع کے لئے جتنی جنگیں لڑی گئیں۔ ان میں شہید ہونے والے صحابہ کرامؓ کی کل تعداد ۲۵۹ ہے۔
اور عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ و دفاع کے لئے اسلام کی تاریخ میں پہلی جنگ جو سیدنا صدیق اکبرؓ کے عہد خلافت میں مسیلمہ کذاب کے خلاف یمامہ کے میدان میں لڑی گئی۔ اس ایک جنگ میں شہید ہونے والے صحابہؓ اور تابعینؒ کی تعداد بارہ سو ہے۔جن میں سے سات سو قرآن مجید کے حافظ اور عالم تھے۔
چوہتر کی طلبہ تحریک اور تحفظ ختم نبوت
جناب ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں 22 مئی 1974ء کو نشتر میڈیکل کالج ملتان کے کچھ طلبہ معلوماتی و تفریحی سفر کیلئے چناب نگر کے راستے پشاور جا رہے تھے کہ چناب نگر ریلوے سٹیشن پر قادیانیوں نے اپنا کفریہ لٹریچر تقسیم کرنے کی کوشش کی، جس پر طلبہ نے اس لٹریچر کو لینے سے انکار کیا۔
29 مئی 1974ء کو طلبہ کا یہ قافلہ واپس ہونے لگا تو نشتر آباد اسٹیشن پر خلافِ ضابطہ چناب نگر ریلوے سٹیشن پر گاڑی روک لی گئی اور لاٹھیوں، سریوں، ہاکیوں، کلہاڑیوں اور برچھیوں کے ساتھ ان پر حملہ کر کے 30 نہتے طلبہ کو شدید زخمی کر دیا۔
آئین پاکستان اور قانون
چوہتر میں احمدیوں جن کوقادیانی بھی کہا جاتا ہےان کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا۔
سات ستمبر 1974 میں مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا۔
مشہور ادیب علامہ اقبال نے فارسی شعر میں لکھا ہے:
لا نبي بعدي زاحسان خدا است
پردۂ ناموس دين مصطفیﷺ است۔
ترجمہ: آپﷺ کا آخری نبی ہونا ہم پر اللہ تعالیٰ کے احساسات میں سے ایک عظیم احسان ہے اور آپ ﷺ کا خاتم النبیینﷺ ہونا دین مصطفی کے لیے ایک اعزاز ہے۔
ہمارا فرض
ہمارے ملک میں ختم نبوت کے معاملے میں کوتاہی ہے، حالانکہ ختم نبوت ایک اہم عقیدہ ہے۔ ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اس عقیدے کے بارے میں سب کو آگاہ کرتے رہیں۔ خصوصاً خواتین کو چاہیے کہ وقتاً فوقتاً اپنے بچوں کو اس کی تعلیم دیتی رہیں ۔۔ موجود دور میں سوشل میڈیا پر عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے