سدرہ افضل۔ دیپالپور
ابی جان کے پاس میرا اکثر آنا جانا لگا رہتا تھا۔ جب بھی ملاقات ہوتی، موضوع سخن اچھی اچھی باتیں ہوتیں ۔۔ بات بات پر قرآن مجید کی آیات پڑھ دیناابی جان کی خصوصیت تھی۔ آپ کو دینی علوم پر مکمل عبور حاصل تھا۔ اکثر آنے جانے والے آپ. سےبچوں کی تربیت کے حوالے سے پوچھتے؟ تو ان کا جواب ہوتا، بچوں کو حلال کھلاؤ، حرام سے بچاؤ، اپنے بچوں کو دوسروں کا حق مت کھلاؤ کہ کھا کھا کر وبال جان بن جائیں۔
وقت گزرتا چلاگیا۔  قدرت نے مجھے جہاں بہت سے نئے رشتے عطاء کئے۔. وہاں کچھ رشتے داغ مفارقت بھی دے گئے.۔ ان میں سے ایک ابی جان کی شخصیت تھی ۔ابی جان میرے دادا جان کے ہم عمر اور ہم جماعت تھے.۔ داداجان کی زندگی میں ان کی طرف آنا جانا لگا رہتا۔. بعد میں بھی یہ سلسلہ ابی جان کی وفات تک جاری رہا۔..پھر بس باتیں اور یادیں ہی رہ گئیں۔.
آج ایک واقعہ نے مجھے پھر سے ماضی میں دھکیل دیا.۔ اور ابی جان کی یاد تازہ ہو گئی۔
بات کچھ یوں ہے کہ میرے پڑوس میں راشد صاحب رہتے ہیں.۔. اللہ رب العزت نے بڑھاپے میں انہیں اولاد نرینہ سے نوازا۔ اتنے انتظار کے بعد بیٹا پیدا ہوا تھا، اس لیےراشد صاحب کی اس سے محبت غیر معمولی تھی۔.
سب ملنے جلنے والے راشد صاحب کو اس بات سے روکتے کہ بچے سے اتنی زیادہ محبت نہ کیا کرو… اور یہ تو طے ہے کہ حد سے زیادہ محبت، حد سے زیادہ نفرت، حد سے بڑی جنونیت، رشتوں کو ابنارمل کردیتی ہے۔
خیر جیسے جیسے بیٹا بڑا ہوتا گیا،  ویسے ویسے راشد صاحب خواب بنتے گئے.۔ آج بیٹا باپ کے خوابوں کے سامنے کھڑا ہو چکا تھا، باپ مشرق کہتا، تو بیٹا مغرب.
صورتحال ایسی بن چکی تھی، کہ گھر میں لڑائ جھگڑے ہونا روز کا معمول بن چکا تھا.۔راشد صاحب چاہتے تھے کہ بیٹا  پڑھ لکھ کر کسی قابل ہوجائے، اور بیٹا آسائشیں چاہتا تھا۔پڑھائی سے باغی ہوچکا تھا۔
بیٹے اور شوہر کی بیچ گھر کی عورت پس رہی تھی۔
آج نماز عصر کے بعد راشد صاحب کسی غیر معمولی سوچ میں بیٹھے تھے.۔ میں ان کے پاس جاکر بیٹھ گیا، تاکہ پریشانی کی وجہ جان سکوں۔
راشد صاحب نے صورتحال بتائ جو بہت گھمبیر تھی..۔۔. اس سے سارا قصور بیٹے کا ظاہر ہورہا جبکہ صورتحال مختلف تھی۔.
راشد صاحب بولے، کاش میں میں اس کو سونے کا نوالہ کھلا کر شیر کی نگاہ سے دیکھتا.۔ ساتھ ساتھ اس کی مار کٹائی ہوتی رہتی تو یہ صحیح رہتا یہ بے جا نرمی کا نتیجہ ہے…. میں نے کہا راشد صاحب اگر آپ یوں کرتے تو آج یہ بچہ آپ کو شیر کی طرح چیر پھاڑ کر رک دیتا۔
دیکھیے راشد صاحب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ آپ سے کہاں کہاں غلطی ہوئ۔..

سب سے پہلے جان لو کہ جو  اللہ کی نافرمانی کرتا ہے، اللہ اس کے ماتحت لوگوں کو اس کے خلاف کردیتا ہے۔.حضرت فضیل بن عیاض رحمۃاللہ فرماتے ہیں کہ جب میں خدا کی نافرمانی کرتا ہوں تو اس کا اثر اپنے بیوی، بچوں، خادم، یہانتک کہ سواری کہ خچر میں بھی دیکھتا ہوں
راشد صاحب آپ چند سال سے سودی لین دین کررہے ہیں….. اور باوجود سمجھانے کے آپ نے یہ نہیں چھوڑا، بلکہ سمجھانے پر الٹا ہم سے خفا ہوتے، اور کہتے سود بھی تجارت کی طرح ہے۔
سنیے! اللہ رب العزت قرآن پاک میں ارشاد فرماتے ہیں.. اور جو لوگ سود کھاتے ہیں نہیں کھڑے ہوں گے (قیامت میں قبروں سے) مگر جس طرح کھڑا ہوتا ہے ایسا شحص جس کو شیطان خبطی بنا دے لپٹ کر (یعنی حیران و مدہوش)، یہ سزا اس لیے ہوگی کہ ان لوگوں نے کہا تھا کہ بیع بھی تو مثل سود کے ہے، حال آں کہ اللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال فرمایا ہے اور سود کو حرام کردیا ہے۔ پھر جس شخص کو اس کے پروردگار کی طرف سے نصیحت پہنچی اور وہ باز آگیا تو جو کچھ پہلے (لینا) ہوچکا ہے وہ اسی کا رہا اور (باطنی) معاملہ اس کا خدا کے حوالہ رہا اور جو شخص پھر عود کرے تو یہ لوگ دوزخ میں جاویں گے اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔”

(سورۃ البقرۃ، رقم الآیۃ:275،)
کبھی آپ کہتے کہ سود تو مال کو بڑھا دیتا ہے.۔ جبکہ قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتے ہیں اور صدقات کو بڑھاتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتے کسی کفر کرنے والے کو ( اور) کسی گناہ کے کام کرنے والے کو۔”
(سورۃ البقرۃ، رقم الآیۃ:276،)
راشد صاحب اسی بیٹے کو آپ نے حلال، حرام سب کھلایا، اسی کی خوشیوں کے لئے ناجائز معاملات کئے۔ کتنے حقداروں کو آپ نے حق دینا ہے، کتنے مزدوروں کی مزدوری تب سے رہتی ہے،، جب کبھی آپ کھیتی باڑی کیا کرتے تھے.۔ پھر آپ کا بیٹا نافرمان نہیں ہوگا تو کیا ہوگا.
اور حرام کمائی کے متعلق یہ احادیث مبارکہ میں نے کل ہی پڑھیں ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بے شک اللہ تعالیٰ پاک ہے، پاک ہی قبول کرتا ہے، اور بے شک اللہ تعالیٰ نے جو حکم اپنے پیغمبروں کو دیا ہے کہ اے رسولو! پاکیزہ چیزیں کھاوٴ اور نیک عمل کرو! وہی حکم اُس نے پیغمبروں کے علاوہ اپنے موٴمن بندوں کو دیا ہے کہ اے ایمان والو! جو ہم نے تمہیں رزق دیا ہے اُس میں سے پاکیزہ چیزیں کھاوٴ! اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کا ذکر فرمایا جو لمبے سفر میں ہو، بال بکھرے ہوئے ہوں، بدن پر غبار لگا ہوا ہو، آسمان کی طرف ہاتھ اُٹھا کر یارب یارب کہتا ہو، اُس کا کھانا حرام ہو، اُس کا پینا حرام ہو، اُس کا پہننا حرام ہو، تو ان سب چیزوں کے باوجود اُس کی دعا کیسے قبول ہوسکتی ہے؟ (صحیح مسلم:۱۰۱۵، جامع ترمذی:۲۹۸۹)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ”ایک مرتبہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ”یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) میرے لیے دُعا کیجیے کہ میں ”مستجاب الدعوات“ ہوجاوٴں!“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ”اپنے کھانے کو پاک کرو!“ اللہ کی قسم! جب کوئی شخص حرام کا لقمہ پیٹ میں ڈالتا ہے تو چالیس دن تک اللہ تعالیٰ اُس کا عمل قبول نہیں کرتا۔ جس شخص کا بدن حرام مال سے بڑھا تو اُس کا بدلہ سوائے جہنم کے اورکچھ بھی نہیں ہے۔“ (المعجم الاوسط للطبرانی: ۶۴۹۵)
استغفراللہ یہ ہے حرام مال کی نحوست.

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact