تحریر: قانتہ رابعہ
بسمہ تعالٰی
مجھے صحیح طرح سے یاد نہیں میں نے کلاس ششم سے لکھنا شروع کیا یا ہفتم سے لیکن یہ بہت اچھی طرح یاد ہے میرے نانا کا انتقال 2، دسمبر 1974ء کو ہوا۔
اس کے چند ماہ بعد میرے والد صاحب نے ان کی یاد میں چھوٹی سی بحر والی نظم لکھی۔ وہ بہت اچھا ادبی ذوق رکھتے تھے لیکن شاعر نہیں تھے یہ نظم دراصل اپنے سسر جو کہ ان کے سگے اور اکلوتے ماموں بھی تھے کے لئے ان کے جذبات تھے۔ چونکہ چھوٹی بحر اور پہلی کاوش تھی تو یہ نظم انہوں نے بچوں کے رسالہ نور میں بھیجی یہ رسالہ رامپور انڈیا سے شائع ہونا شروع ہوا اور آج بھی پوری آب و تاب سے لاہور سے شائع ہوتا ہے۔ اب اس کا نام “بقعہ نور” ہے۔
میں نے ہجے جمع کر کے پڑھنا رسالوں سے ہی شروع کیا جب نور آیا تو اس میں میرے نام سے ایک نظم شامل تھی
کیسے تھے اچھے نانا
کیسے تھے پیارے نانا
جنت میں ان کو یارب اچھا ملے ٹھکانہ
اپنے نام کو رسالے میں دیکھنا میرے لئے اس قدر دل خوش کن تھا کہ مجھے اس سے خود سے لکھنے کی تحریک ملی اور گمان غالب ہے میں نے 1977ء تک لکھنے کا آغاز کردیا ہوگا۔ یوں کم و بیش 47 سال سے قلم میرا ساتھی ہے لیکن کتاب کی اشاعت بالکل دوسرا میدان تھا میکہ میں الحمد للہ لکھنے پڑھنے سے متعلق سب نزاکتوں کا علم تھا۔ سسرال میں اس طرح کا شروع میں نقطہ برابر تعاون نہیں تھا اس لئے اس خواہش کو دل میں ہی دبائے رکھا۔
پھر حالات نے پلٹاکھایا کم و بیش چار سال کے وقفے سے لکھنے کا سلسلہ پھر شروع کیا تو دماغ صفا چٹ تھا ۔چونکہ دو بچیاں بھی میری زندگی میں آچکی تھیں ان کو بہلانے کے لئے خود سے کہانی بنا بنا کر سنانا کار دشوار تھا لیکن سر انجام دینا پڑتا ۔روز روز بھلا کہاں سے نئی کہانی کی فرمائش پوری کی جائے ؟آج بھی مجھے کیرل، بابا موٹا کے فرضی کردار یاد ہیں جن کو ذہن میں رکھ کر میں فی البدیہہ کہانی بناتی اور سناتی تھی۔
میری پہلی کتاب
ماہنامہ “نور “میں بھی کہانیاں لکھنے کا کام شروع ہوا ۔کچھ کہانیاں شادی سے قبل کی موجود تھیں ۔اللہ مغفرت فرمائے اور ان سے راضی ہو ، نور کی مدیرہ سعیدہ احسن نے پہلی کتاب کی اشاعت اور ترغیب میں بہت ساتھ دیا۔
انہوں نے لمحہ بہ لمحہ مجھے راہنمائی دی اور ادارہ بتول سے میری پہلی کتاب” شکریہ میاں مرغے :مجھے کتب کی دنیا میں لائی۔
یہ بہت خوشگوار تجربہ تھا۔ میری اپنی تخلیق میرے ہاتھوں میں تھی۔
بچوں سے محبت تھی تو کتابوں میں بھی جان اٹکی تھی۔ یعنی میں صاحبہ کتاب تھی۔
مجھے رائلٹی میں سو کتب ملیں میں نے سب تحفوں میں دیں۔
کوئی پوچھے نہ پوچھے میں گفتگو میں اپنی کتاب کا ذکر لے آتی اور کتاب ہاتھ میں تھما دیتی۔
پہلا افسانوی مجموعہ
اس کے بعد میری افسانوں کی پہلی کتاب”راہ وفا میں”شائع ہوئی۔ یہ میرے خواب کی تعبیر تھی گو اس کی اشاعت کے لیے مجھے ناشر سےپوری سو کتب خریدنا لازم تھیں لیکن میں نے بخوشی آمادگی ظاہر کی ۔میری مرحومہ ماں نے اس کی ادائیگی میں حصہ لیا ۔ہمارے ہاں یعنی میکے میں کپڑوں سے زیادہ کتاب خریدنے کا رجحان تھا۔
“راہ وفا “میں 29افسانے شامل ہیں اور یہ اب تک افسانوں کی میری سب سے ضخیم کتاب ہے لیکن اس کی بھی میں نے سو کی سو کتب مانگنے والوں کے علاوہ بن مانگے بھی دیں یہاں تک کہ میرے پاس اپنی لائبریری کے لیے ایک کتاب بھی باقی نہ رہی۔
میں گاہے بگاہے کبھی دس کبھی بیس کبھی پانچ کتب خرید کر لوگوں کو تحفے کے طور پر دیتی رہی اور خوش ہوتی رہی۔
یہ میری غلطی تھی ۔مجھے اس بات کی بہت دیر سے سمجھ آئی کہ بہت سے لوگ کتاب پر پیسہ خرچ کرنے والے نہیں ہوتے۔
ان کے بعد میری کتب کی اشاعت میں کچھ وقفہ آیا ۔میں نے یہ بات نوٹ کی جنہیں کتاب مانگے سے دی وہ بھی خاموش اور جنہوں نے مانگی ہی نہیں تھی ان سے تو گلہ ہی کیا مطلب ۔کبھی بھی میری کتاب یا اس میں شامل تحریر پر کوئی بھولے سے بھی تبصرہ نہیں کرتا تھا۔
مزید کتب کی اشاعت
تین سال کے وقفے سے پے درپے تین چار کتب مزید شائع ہوئی۔ں میں نے قریبی عزیز و اقارب میں کتاب کی اشاعت کی خبر کے ساتھ مٹھائی بھجوائی لیکن کسی نے پلٹ کر مبارکباد دینا دور کی بات ۔کتاب کا نام تک نہ پوچھا لیکن ایک ہوتا ہے تجزیہ اور ایک ہوتا ہے محاسبہ ۔اپنی کمی کوتاہیوں کا جائزہ لینے کا حوصلہ گو یہ بہت مشکل کام ہے لیکن اگر انسان اس عادت کواپنا لے اور وہ جانبداری سے اپنا محاسبہ کرنے لگے تو وہ زندگی کے اصل مفہوم سے بہت جلد آشنا ہوجاتا ہے اسے تزکیہ بھی کہا جا سکتا ہے لیکن اس کی توفیق ہر شخص کو مل ہی نہیں سکتی اور مل بھی جائے تو اصلاح کی نوبت بہت دیر سے آتی ہے۔
بس کتاب چھپنے کی خوشی غالب آتی رہی اور میں ہر کتاب ہاتھوں میں آتے ہی بانٹنا شروع کردیتی ۔سارے ناشر گواہ ہیں میں اپنی کتب خرید خرید کر لائبریوں، مدرسوں سکولوں اور کالجوں کے علاوہ بہت سے پروگرام مین تھیلے بھر بھر کر لے کر جاتی رہی اورسب کودیتی رہی۔
پھر کچھ ناگوار واقعات سامنے آئے ۔میری معلومات میں اضافہ ہوا کہ جو کتب میں تحفے میں دیتی ہوں ،یہ اصل میں مجھے مفت ملتی ہیں۔
کیا کپڑے ،جوتے ،زیور، اشیائے خوردونوش پاکستان میں مفت ملتی ہیں کہ کتب مفت میں ملیں؟
میرا دل بہت خراب ہوا یہ ذہنیت ایسی تھی کہ جو بھی کہہ لیں کم۔
۔ اس کے بعد میں نے کتب کے ساتھ دیگر اشیاء سلامی وغیرہ بھی دینا شروع کردی۔ سوٹ دیتی تو ساتھ کتاب بھی پیک کردیتی کہ یہ نہ کہا جائے کہ کتب مفت ملتی ہیں
میرے ناشر نے دبے دبے لفظوں میں کہا باقی سب مصنفین رائلٹی میں پیسے لیتے ہیں ۔آپ کتب لے کر بانٹ دیتی ہیں بظاہر اس میں ہمیں ہی فائدہ ہے کہ ہمیں یک مشت پیسے نہیں دینا پڑتے لیکن غور کریں تو اس میں ہمارا نقصان ہے کہ قاری کتاب خریدے گا ہی نہیں ۔
اسے مفت میں کتب مل رہی ہوں تو وہ کتاب پر کیوں پیسے لگائے گا؟
تبدیلی کا سفر
یہ پہلا موقع تھا مجھے اپنے نقطہ نظر میں تبدیلی لانا پڑی ۔بھلے میں خوشی میں کتب بانٹوں یا صدقہ جاریہ کی نیت سے مجھے بن مانگے کسی کو بھی کتاب نہیں دینی چاہئیے اور پوری نہ سہی سہی کچھ نہ کچھ رقم بھی رکھنا ہوگی۔
کیوں نہ رکھوں؟ کیا لوگ کپڑوں جوتوں اور کھانے پینے پر پیسے نہیں لگاتے ؟
تھوڑی رقم ہی سہی جب ان چیزوں پر خرچ کرتے ہیں تو پھر کتب پر بھی خرچ کرنا چاہیے۔
اسی عرصے میں پوری دنیا کرونا کی لپیٹ میں آگئی۔
کتاب شائع کرنا یا کروانا دیوانے کی بڑ ثابت ہونے لگی۔
کاغذ کی قیمت میں یک لخت اضافہ نے ناشروں کو بھی توبہ کروادی۔
مسودے تیار تھے شائع کون کرے؟
جس سے بات کرو وہ ” آپ کو سو کتب خریدنا ہوں گی ،، کی پہلی شق سناتا۔
یوں کتب خود سے شائع کروانے کا سلسلہ شروع ہوا ایک ہزار کی تعداد سے کتب پانچ سو اور پھر سو تک آگئی۔
اشاعت کی کم از کم لاگت بھی تیس پینتیس ہزار سے شروع ہوتی۔
اب کتب سوچ سمجھ کر ہی دیتی رہی تاہم سکول مدرسے لائیبریوں کو دی جانے والی کتابوں کی تعداد بھی کافی زیادہ ہوتی۔
الحمد للہ اللہ نے مجھے پروفیسر صاحب کی صورت میں ایسے نصف بہتر عطا فرمائے جو کتابوں کو روزگار بنانے کا نظریہ نہیں رکھتے تھے۔
مجھے بھی یہی سوچ اچھی لگتی کہ ایک اچھی کتاب بہرحال صدقہ جاریہ بن سکتی ہے لیکن مجھے جھٹکا لگابلکہ جھٹکے پر جھٹکا۔
چند دلخراش یادیں
وہ لوگ جو مجھ سے کتب مانگتے تھے ،مزید کتب کی فرمائش کرتے تھے اور میں یہ سوچ کر کہ مانگنے والا پڑھنے میں لازمی دلچسپی رکھتاہوگا۔تاہم بعض نے
مجھ سے تحفے میں لے کر فروخت کرنا شروع کر دیں۔
میں نے کم از کم تین چار مرتبہ نوٹ کیا ادھر میری کتب شائع ہوتی ، چاہنے والوں کے تعریفی کلمات کتب لینے کے حقدار قرار دئے جاتے اور کتب فروخت ہو کر اصل چاہنے والے قاری تک پہنچتی۔
یہی نہیں ایک شہر میں دو چار لوگوں کو تحفے میں دی کتب تو فٹ پاتھ پر بھی دیکھیں۔
یہ وہ کتب تھیں جو آٹوگراف کے ساتھ فرمائش کر کے لی گئی تھیں۔
آنکھوں دیکھے واقعات نے لوگوں کی وہ اصلیت بتادی جو بہت اذیت ناک تھی۔چند لوگوں نے باقاعدہ فہرست دے کر کتب منگوائیں اور خوشی کے موقع پر اپنے عزیز و قارب کو تحفے میں دیں قیمت کا پوچھا گیا تو جواب ملا۔
“آپ کو ثواب ہوگا”۔
لکھنے والی کی نیت خالص ہے تو اسے تو ثواب اسی وقت مل گیا ۔آپ جس ثواب کی بات کرتے ہیں یہ پیسہ خرچ کر کے ہی لیا جاسکتا ہے۔
کتاب دوست ہیں تو مٹھی کھولیں
اگر آپ کتاب دوست ہیں تو کتاب کے لئے بند مٹھی کھولنا ہوگی۔ میں نے سوچا میں سال میں ایک دو مرتبہ کتب برائے نام قیمت پر فروخت کیا کروں گی۔
اس سے سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ کتب پر پیسہ وہی خرچ کرے گا جسے کتاب سے محبت ہوگی ۔فالتو کے سب لوگ ارد گرد سے چھٹ جائیں گے۔
گزشتہ سال میں نے بغیر سوچے سمجھے اگست کے پہلے چودہ دن کے لئے نصف قیمت پر کتب کی فروخت کا اعلان کیا۔
مجھے اچھا لگا تقریبا سولہ سترہ لوگوں نے مجھ سے اسی کے لگ بھگ کتب خریدیں۔
سارا سال مجھے یہ بات خوشی دیتی رہی کہ لوگ کم ہی سہی لیکن کتاب خریدتے ہیں۔
اس سال بھی اگست میں یہی فیصلہ کیا۔
الحمد للہ اس سال تعداد میں کچھ اضافہ بھی ہوا ۔فروخت ہونے والی کتب کی تعداد بھی دوگنا ہوگئی اور ابھی تجھے آرڈر موصول ہورہے ہیں۔
چونکہ یہ سارا کام سوشل میڈیا پر سر انجام دینا ہوتا ہے تو ایک نیا طبقہ سامنے آگیا ہے جس کا ایک ہی مطالبہ ہے سارا دن مجھے انباکس میں پیغام ملتے ہیں۔
کیا آپ کو ارننگ (کمائی )سے دلچسپی ہے تو ہماری خدمات حاصل کریں ہم کمیشن پر آپ کی کتب فروخت کریں گے۔
“بھائی کون سی ارننگ؟”
اگر میری دو سو کتب کی لاگت بیس ہزار ہے میں ان کے سات ہزار لیتی ہوں تو آپ اسے ارننگ سمجھ کر اس میں بھی شامل ہونا چاہتے ہیں۔
اس حد تک کاروباری ذہنیت کتب بینی اور قاری میں فاصلہ پیدا کرتی ہے؟گو ڈاک اور پیکنگ کے اخراجات شامل کر کے مجھے یہ کتب تیس بتیس فیصد رقم ہی دیتی ہیں ایک دو
لوگوں نے طے شدہ رقم سے بھی کم دی لیکن نوے فیصد سے زائد وہ ہیں جنہوں نے کتب وصول کرنے سے پہلے ہی رقم ادا کردی۔
میرے لفظ : میری خوشی
میرے لئے یہ بے پناہ خوشی کا مقام ہے لوگ مجھ پر بھی اعتماد کرتے ہیں اور میرے لکھے لفظوں پر بھی۔
وما توفیقی الا باللہ
اللہ کرے میرے ملک میں کتب بینی کو فروغ حاصل ہو کتاب ہر مستحق اور کتاب سے محبت کرنے والوں کے ہاتھ میں پہنچے۔
کتاب دوستی یا مفاد پرستی
لیکن جو فرمائش کرتے ہیں ہمیں لائبریری یا سکول کے لئے کتب بھیج دیں ان کو ایک لمحہ کے لئے یہ ضرور سوچنا چاہئیے کہ کتاب میں تخلیق کار کی دماغی اور جسمانی صلاحیت کا نچوڑ شامل ہوتا ہے یہ لفظ نہیں لکھاری کا خون پسینہ ہے ناشر کی شب و روز کی محنت ہے۔
تو کیا وہ آپ سے ملنے والے ثواب کی بشارت میں وقت محنت ،سرمایہ سب کچھ فی سبیل اللہ کریں اورڈاک خرچ بھی ادا کریں ؟
تو آپ پھر کس ثواب کے مستحق ہوں گے ؟
اسے کتاب دوستی نہیں مفاد پرستی کہتے ہیں ۔۔۔ایک ہزار کی لاگت والی کتاب مجھ سے مفت کوئی مانگے تو ڈھائی تین سو ڈاک خرچ ساٹھ روپے کا لفافہ اور کم از کم پچاس روپے کی پیکنگ وقت اور محنت شامل ہوتی ہے
تو کیا آپ اس ثواب میں حصہ دار نہیں بن سکتے ؟؟
ہمیں اس رجحان کو بدلنا ہوگا تاکہ لکھاری اور قاری میں ذہنی ہم آہنگی پیدا ہوسکے بات یہی درست ہے کہ ضروریات زندگی پر تھوڑا بہت ہر کوئی استطاعت سے خرچ کر ہی لیتا ہے لیکن کتاب پر صرف علم کا صحیح قدردان ہی خرچ کرسکتا ہے۔
————————————————————————————————————————————————————————————————————————————-
ایڈیٹر نوٹ: مضمون نگار کی کتب کے آرڈر کے لیے جاز کیش نمبر: 03036388167