تحریر و تحقیق: حافظہ قاریہ بنت سرور
“میں نے عقل سے سوال کیا یہ بتا کہ ایمان کیا ہے؟۔۔
عقل نے میرے دل کے کانوں میں کہا ایمان “ادب” کا نام ہے۔ “
ادب الله کے فضل کا تاج ہے۔ سر پر رکھ اور جس جگہ چاہے تو جا سکتا ہے۔”
“ادب کے لفظی معنی”
احترام، تہذیب، دوسروں کی عزت کرنا.
“ادب کی جامع تعریف”
اپنے خیالات، جذبات اور احساسات کو متاثر کن انداز میں پیش کرنا۔
ابتداءً رب ذوالجلال کی نہایت مشکور ہوں کہ جس نے حقیرو ناچیز کو اس موضوع پر تبصرہ کرنے کا تقویت واستحکام بخشا۔
ہماری نوجوان نسل کی بربادی کا راز: بے ادبی ہے۔نئی نسل کے بمشکل دس فیصد لوگ باادب نظر آتے ہیں۔ ہم نے ادب کو انسانیت کی حد تک محدود کر دیا ہے۔ جبکہ ادب کا دائرہ کار لامحدود ہے۔ ادب کی سر فہرست میں
والدین، اساتذہ، علمی کتب سے پنسل کے پرت تک،ہر جان و بے جاں ادب کا تقاضا کرتی ہے۔
انسان ادب کے زیور سے مزین و آراستہ ہو یہ ہی شرف انسانیت ہے۔ جو ادب کے جوہر سے کنگال ہے۔ وہ ہر نعمت سے محروم ہے۔ تمام مقدس ہستیوں اور مقدس اشیاء و مقامات کی تعظیم واجب ہے۔ ادب معاشرے میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ اور کامیاب کرنے میں نہایت اہم کردار کا حامل ہے۔ ادب کسی بھی نسل کا طرۂ امتیاز ہے۔نہایت افسوس کی بات ہے کہ آج کی نسلیں ادب سے عاری ہیں۔ ادب ایسا وصف ہے جو ہر شخص کو ممتاز بناتا ہے۔ اس حوالے سے نوجوانوں کا منفی رویہ بہت ہی تکلیف دہ ہے۔
بحیثیت انسان بنیادی طور پر ہم پر جو اعمال عائد ہوتے ہیں اسکی دو قسمیں:
حقوق الله
حقوق العباد
اور “ادب”کا تعلق حقوق العباد سے ہے۔یہ ایسے حقائق ہیں کہ جب تک بندہ معاف نا کرے، تو چھٹکارا نہیں۔ بد قسمتی سے ہمارے یہی اعمال: بیکار اور لاوازلی کا شکار ہیں۔
والدین کے آداب:
ایک نوجوان والدین کو بات بات پر جھڑکنے،زبان درازی کرنے، بے حدہ آوازیں کسنے میں ذرا بھی عار محسوس نہیں کرتا۔ ماں باپ کسی چیز کے متعلق پوچھ بھی لیں تو بھنویں تن جاتی ہیں۔
آج بوڑھے والدین کے ساتھ اولاد جو کر رہی ہے کچھ بھی مخفی نہیں۔سوشل میڈیا پر سب عیاں ہے۔ دھن و دولت، مال و زر جیسی حقیر اشیاء کے عوض ماں باپ کو قتل کیا جا رہا ہے۔ دین اسلام میں ادب وآداب کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ والدین کی شان اقدس میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(23)
ترجمہ:
“اور تمہارے رب نے حکم فرمایا! کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ اگر تیرے سامنے ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے اُف تک نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے خوبصورت ، نرم بات کہنا۔”
{وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا: اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔} اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کا حکم دینے کے بعد اس کے ساتھ ہی ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا ،اس میں حکمت یہ ہے کہ انسان کے وجود کا حقیقی سبب اللّٰہ تعالیٰ کی تخلیق اور اِیجاد ہے. جبکہ ظاہری سبب اس کے ماں باپ ہیں۔ اس لئے اللّٰہ تعالیٰ نے پہلے انسانی وجود کے حقیقی سبب کی تعظیم کا حکم دیا،پھر اس کے ساتھ ظاہری سبب کی تعظیم کا۔ آیت کا معنی یہ ہے کہ تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ نے حکم فرمایا کہ: تم اپنے والدین کے ساتھ انتہائی اچھے طریقے سے نیک سلوک کرو کیونکہ جس طرح والدین کا تم پر احسان بہت عظیم ہے تو تم پر لازم ہے کہ تم بھی ان کے ساتھ اسی طرح اچھا برتاؤ کرو۔
فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ!
“پس تم ان دونوں کو اف تک نا کہو۔” اف سے مراد ایسا کلمہ ہے جس سے اپنی ناگواری کا اظہار ہو۔ یہاں تک کہ انکی بات کو سن کر ایسا سانس لینا جو انکی ناگواری کا اظہار کرے۔ وہ بھی اس کلمہ اف میں شامل ہے۔
“حضرت علی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللهﷺ نے فرمایا:
اگر ایذا رسانی میں “اف”کہنے سے بھی کم کوئی درجہ ہوتا تو یقیناً وہ بھی ذکر کیا جاتا۔
حاصل یہ ہے کہ جس چیز سے ماں باپ کو کم سے کم بھی اذیت پہنچے وہ بھی ممنوع ہے۔ ان سے محبت و شفقت اور نرم لہجہ میں بات کی جاے۔ ” حضرت سعید بن مسیب نے فرمایا:
“جس طرح کوئی غلام اپنے سخت مزاج آقا سے بات کرتا ہے۔”
“حضرت اسماء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہافرماتی ہیں ’’جس زمانہ میں قریش نے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے معاہدہ کیا تھا،میری ماں جو مشرکہ تھی میرے پاس آئی، میں نے عرض کی، یا رسولَ اللّٰہ !صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میری ماں آئی ہے اور وہ اسلام کی طرف راغب ہے یا وہ اسلام سے اِعراض کیے ہوئے ہے، کیا میں اس کے ساتھ اچھا سلوک کروں ؟ ارشاد فرمایا: ’’اس کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔( بخاری).
یعنی کافرہ ماں کے ساتھ بھی اچھا سلوک کیا جائے گا۔
اساتذہ کے آداب:
والدین کے بعد جو ہستی ادب کا تقاضا کرتی ہے وہ اساتذہ کرام ہیں۔ استاد ہمارے روحانی والدین ہیں۔طالب علم کو چاہیے کہ اساتذہ کا ادب و احترام اپنے اوپر لازم سمجھیں۔ والدین کی اصلاح و تربیت کے بعد استاد کی اصلاح وتربیت اتنی ہی ضروری ہے جتنی کہ حلق سے نوالہ اتارنے کے لیے پانی کی۔ معلمین کا بنیادی حق ہے کہ ایک شاگرد انکی تعظیم وتوقیر کرے۔استاد کی تذلیل اور ہرزہ سرائی متعلمین کی ترقی عروج کا زوال ہے۔
” پروفیسر شاداب احمد صدیقی لکھتے ہیں کہ
“اگر قوم کے معمار کو زخمی کر دیا جائے۔ اور دیوار سے لگا جاے تو وہ کس طرح اپنی تعلیمی صلاحیتوں کو بروے لاکر نوجوان نسل کو علم کی روشنی سے منور کرے گا۔”
لہذا اساتذہ کا ادب دنیاوآخرت میں روشن مستقبل کا زینہ ہے۔ باادب کی گفتگو میں، اک بے ادب کے کلام سے زیادہ اثرورسوخ ہوتا ہے۔
“یوسف بن حسین نے فرمایا:کہ ادب سے علم سمجھ میں آتا ہے اور علم سے عمل کی تصحیح ہوتی ہےاور عمل سے حکمت حاصل ہوتی ہے۔
ہمارے اکابرین ادب وآداب میں بے نظیر تھے۔
” ابنِ وہب کہا کرتے تھے “امام مالک” کے ادب سے مجھے جو کچھ ملا علم سے اتنا نہیں ملا۔
(آپ امام مالک کے شاگرد تھے).
گویا بوڑھے مسلمان اور عالم، حافظ قرآن، عادل بادشاہ اور استاد کی عزت کرنا تعظیم خداوندی میں داخل ہے۔ طالب علم کو چاہیے کہ اپنے استاد کے ادب کو اپنے لیے فلاح دارین کا ذریعہ سمجھے۔ بزرگ فرماتے ہیں:
استاد کے سامنے بیٹھو برابر نہیں گرچہ وہ اصرار بھی کریں۔” گفتگو کے دوران مؤدبانہ انداز اپنایا جاے۔ لِمَ(کیوں)، لانُسلِّم(ہم نہیں تسلیم کرتے) کی گنجائش نا ہونی چاہیے۔ اگر ہم اپنے اساتذہ کو برا بھلا کہیں گے تو ہمارے تلامذہ ہمیں برا کہیں گے۔
امام احمد بن حنبل کا فرمان:
کہ وہ باعث ادب اپنے استاد کا نام نا لیتے، بلکہ کنیت کے ساتھ انکا ذکر کرتے۔
نبیﷺ کا نے فرمایا:
“علم حاصل کرو اور علم کے لیے متانت اور وقار پیدا کرو، جس سے علم حاصل کرو اس کے ساتھ خاکساری برتو۔”
امام ربیع فرماتے ہیں:کہ اپنے استاد امام شافعی کی نظر کے سامنے مجھ کو پانی پینے کی جرأت نا ہوئی۔
امام شافعی فرماتے ہیں کہ: “امام مالک”کے سامنے میں ورق بھی آہستہ الٹتا کہ اسکی آواز انکو سنائی نا دے۔
معلم اور طبیب کی جب تلک تعظیم نا کی جاے وہ خیرخواہی نہیں کرتے۔ اگر بیمار نے طبیب کے ساتھ بد عنوانی کی تواسکو ہمیشہ مرض ہی پر قائم رہنا پڑے گا اور شاگرد نے اگر اپنے استاد کے ساتھ بدتمیزی کی ہے تو وہ ہمیشہ جاہل رہے گا۔ استاد اگر بار بار بھی ایک بات کو دوہراے تو توجہ وانہماک سے سنتے رہیے، اکتائیے نہیں۔
حضرت مرزا مظہر جان جاناں رحمۃاللہ علیہ نے حدیث کی سند حضرت حاجی محمد افضل صاحب سے حاصل کی تھی، فرماتے ہیں کہ تحصیل علم سے فراغت کے بعد حاجی صاحب نے اپنی کلاہ جو پندرہ برس تک آپ کے عمامہ کے نیچے رہی مجھے عنایت فرمائی، میں نے رات کو گرم پانی میں ٹوپی کو بھگو دیا، صبح کے وقت وہ اپنی امل تاش کے شربت سے زیادہ سیاہ ہو گیا تھا میں اسکو پی گیا۔ اس پانی کی برکت سے میرا دل ودماغ ایسا روشن، اور ذہن ایسا تیز ہوا کہ کوئی مشکل کتاب مشکل نہ رہی۔
یہاں میں ایسے صاحبزادوں کی توجہ مرکوز کرانے کی خواہاں ہوں جو اساتذہ کی ٹوپیاں اچھالتے اور مدرسہ و اسکول کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی اسکیمیں کرتے ہیں۔ ایسے طلبہ غور و فکر کریں کہ استاد کی عظمت کرنے والوں نے کیا دولت پائی اور دنیا کو کس طرح اپنے نورانی جلوؤں سے فیض یاب کیا۔ ہماری نسلوں میں ایسا شعور ہونا چاہیے کہ بغیر اجازت استاد سے کلام بھی نا کرے اور آواز پست رکھے۔ معلم کے آگے نا چلے ان سے دو قدم پیچھے رہے۔ معلمین کی بیٹھنے کی جگہ پر نا بیٹھے۔ انکی منشا معلوم کرنے کی ٹوہ میں لگا رہے اور اسی کے مطابق عمل کرے۔ اگر کسی وجہ سے استاد کی طبیعت مکدر ہو تو ان سے بات کرنے میں گریز کرے مناسب وقت میں دریافت کر لے۔ دستک دے کر نا بلاے بلکہ انکی تشریف آوری کا منتظر رہے۔
“حضرت ابنِ عباس رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ اصحابِ رسول اللهﷺ میں انصار کے پاس سے مجھے زیادہ علم ملا، میں انکے دروازے پر دوپہر کی گرمی میں پڑا رہتا، حالانکہ اگر میں چاہتا تو وہ مطلع ہونے پر فوراً نکل آتے مگر مجھے انکے آرام کا خیال رہتا جب وہ باہر آتے تب دریافت کرتا۔
*استاد کے بارہ حقوق امام زین العابدین علی رضی اللہ عنہ کی نظر میں*
*امام زین العابدینؑ علیہ السلام سے رسالة الحقوق میں روایت ہے فرمایا ”*
*وَ حَقُ سَائِسِكَ بِالْعِلْمِ* ”
جس نے بھی علم و معرفت کی جانب تمہاری رہنمائی کی اس کا حق یہ ہے کہ
*1۔ “ التَّعْظِيمُ لَهُ “*
اس کا حترام کرو۔
*2۔ ” وَ التَّوْقِيرُ لِمَجْلِسِهِ*
“اس کی بارگاہ کو محترم جانو۔
*3۔” وَ حُسْنُ الِاسْتِمَاعِ إِلَيْهِ*
“اس کی گفتگو غور سے سنو۔
*4۔” وَ الْإِقْبَالُ عَلَيْهِ*
“اس کی جانب اپنا رخ رکھو یعنی پشت مت کرو۔
*5۔” وَ أَنْ لَا تَرْفَعَ عَلَيْهِ صَوْتَكَ* “اپنی آواز کو اس کی آواز سے بلند نہ کرو۔
*6۔” وَ لَا تُجِيبَ أَحَداً يَسْأَلُهُ عَنْ شَيْءٍ حَتَّى يَكُونَ هُوَ الَّذِي يُجِيبُ* “اگر کوئی کسی چیز کے بارے اس سے سوال کرے تم جواب نہ دو بلکہ اسے دینے دو۔
*7۔” وَ لَا تُحَدِّثَ فِي مَجْلِسِهِ أَحَداً* “اس کی مجلس میں بیٹھ کر کوئی کسی سے کلام نہ کرے۔
*8۔” وَ لَا تَغْتَابَ عِنْدَهُ أَحَداً*
“اس کے پاس بیٹھ کر کسی کی غیبت نہ کرو۔
*9۔” وَ أَنْ تَدْفَعَ عَنْهُ إِذَا ذُكِرَ عِنْدَكَ بِسُوءٍ “*
اور جب تمہارے سامنے اس کی کوئی برائی بیان کی جائے تو اس کا دفاع کرو۔
*10۔” وَ أَنْ تَسْتُرَ عُيُوبَهُ وَ تُظْهِرَ مَنَاقِبَهُ*
“اسکے عیوب و نقائص پر پردہ ڈالو اوراس کےفضائل ومناقب کو ظاہر کرو۔
*11* ۔” *وَ لَا تُجَالِسَ لَهُ عَدُوّاً* “اس کے دشمن کی ہم نشینی نہ کرو۔
*12* ۔” *وَ لَا تُعَادِيَ لَهُ وَلِيّاً*
“اور اس کے دوستوں سے دشمنی نہ کرو۔
ان بارہ حقوق کو ذکر کرنے کے بعد امامؑ نے اس کا صلہ و اجر بیان فرمایا:
*” فَإِذَا فَعَلْتَ ذَلِكَ شَهِدَتْ لَكَ مَلَائِكَةُ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ بِأَنَّكَ قَصَدْتَهُ وَ تَعَلَّمْتَ عِلْمَهُ لِلَّهِ جَلَّ وَ عَزَّ اسْمُهُ لَا لِلنَّاس* “
“پس اگر تم اس پے عمل کر لو گے تو اللہ تعالی کے فرشتے تمہارے حق میں گواہی دیں گے کہ تم نے اس کا حق ادا کر دیا اور اس سے خدا کے لیے تعلیم حاصل کی نہ کہ لوگوں کو دکھانے کے لیے۔”
سب سے بڑا حق معلم کا ہے جس کی رعایت تمام مسلمانوں پر فرض ہے واقعی وہ شخص جس نے تم کو ایک لفظ سکھایا،اس کا مستحق ہے کہ ہزار درہم اس کے لیے ہدیہ کیے جائیں، بلکہ اس کے احسان کے مقابلہ میں تو ہزار درہم کی بھی کوئی حیثیت نہیں۔
جو شخص اپنے استاد کی تکلیف کا باعث ہو وہ علم کی برکتوں سے محروم رہے گا، برابر کوششوں کے باوجود بھی علم کی دولت سے متنفع نہیں ہو سکتا۔
کتابوں اور سٹیشنری کے آداب۔
ایک طالب علم کے لیے ضروری ہے کہ جس طرح اساتذہ کی تعظیم اور احترام کرے اسی طرح اس کو چاہیے کہ دینی و عصری کتابوں کی عظمت بھی اس کے دل میں ہو۔ کتاب ادب کے ساتھ اٹھائے کسی کو دے تو پھینک کر نہ دے اس میں کتاب کی بے ادبی ہے۔
اس ضمن میں تین باتوں کا لحاظ رکھے۔
کسی کتاب کو بغیر طہارت کے نہ چھوئے۔
شمس الائمہ سرخسی کا یہ عالم تھا کہ باوجود امراض میں مبتلا ہونے کے بغیر وضو کے ہاتھ میں کتاب نہ اٹھاتے تھے ایک بار مطالعہ کے دوران میں ان کو تقریبا سترہ بار وضو کرنا پڑا اور عقلی وجہ اس کی یہ ہے کہ اصل میں علم نور ہے اور وضو بھی نور ہے لہذا علم کا نور وضو کے نور کی وجہ سے زیادہ ہو جائے گا۔
شمس الائمہ حلوائی فرماتے ہیں کہ
ہم کو علم جو حاصل ہوا اس میں علم کی عظمت کو بڑا دخل ہے میرا یہ حال تھا کہ کبھی کسی کتاب کو بلا وضو نہیں چھوتا تھا۔
کتابوں کی طرف پاؤں دراز نہ کرے۔
طالب علم کو چاہیے کہ کتابوں کی طرف پاؤں پھیلائے نہ بیٹھے۔ نہ ہی کتب کو اپنے قدموں پر رکھے اور نہ ہی کتب خانہ کو ایسی جگہ بنائے جس طرف قدم پھیلائے جاتے ہوں۔
کتب خانہ کو یا تو قبلہ کی رخ بنائے یا اپنے دائیں بائیں دونوں اطراف میں کسی بھی طرف بناے۔
کتاب پر کوئی چیز نہ رکھے۔
طالب علم کے لیے ضروری ہے کہ تفسیر، حدیث، فقہ کی کتابوں کو بقیہ فنون کی کتابوں کے اوپر رکھے۔
شیخ الاسلام برہان الدین فرماتے تھے کہ
ایک صاحب کتاب کے اوپر دوات رکھنے کی عادی تھے۔ تو ہمارے شیخ نے فرمایا کہ تم اپنے علم سے ہرگز کچھ فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔
لہذا طالب علم کو چاہیے کہ کتب کے اوپر قلم، دوات، قینچی وغیرہ ایسی چیزیں رکھنے سے گریز کریں۔
جب کبھی کتب کو اوپر،تلے رکھنے کی حاجت پیش آئے،تو سب سے پہلے قرآن پاک پھر ترجمہ والا قرآن پھر تفسیر پھر حدیث کی کتب پھر کتب فقہ اور پھر دیگر کتب صرف ونحو وغیرہ کی ترتیب سیٹ کرے۔
اول درجہ دینی کتب کا ہے لہذا دینی کتب کو بقیہ عصری علوم وفنون کی کتب پر ترجیح دے۔
اسی طرح مطالعہ نہایت ادب و احترام سے بیٹھ کرنا چاہیے۔
ایک عالم نے اپنے دو طالب علموں کو دو حال میں پایا:ایک تکیہ کا سہارا لیے مطالعہ کر رہا تھا اور دوسرا دو زانو مستعد بیٹھا کتاب دیکھنے میں مشغول تھا اور کچھ لکھتا بھی جاتا تھا “جوہر شناس استاد” نے یہ ماجرہ دیکھ کر اول کی نسبت فرمایا: یہ فضیلت کے کسی درجے کو نہ پہنچے گا اور دوسرے کی بابت فرمایا: یہ عنقریب فضل حاصل کرے گا اور اس کے لیے علم میں ایک بڑی شان ہوگی۔
مندرجہ بالا تمام اداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے طالب علم کو چاہیے کہ ہمہ وقت باوضو رہے اور اپنے سینے میں کتابوں کی تعظیم و تاخیر پیدا کرے تاکہ دنیا اور اخرت میں کامیاب و کامرہ انسان بن سکے۔
مطالعہ کے دوران اپنے پاس تکیہ یا میز وغیرہ رکھیں تاکہ کتب، قلم، دوات وغیرہ کو نیچے رکھنے کی بجائے ان پر رکھا جا سکے۔
علاوہ ازیں اسٹیشنری میں قلم، پین یا پنسل وغیرہ اگر خراب ہو جائیں یا پینسل چھوٹی ہو جائے توکوڑا دان میں پھینک کر ان کی بے حرمتی نا کریں، اس کے لیے ایک خاص صندوقچہ یا تھیلا مخصوص کر لیں تاکہ انکی تعظیمی کا حق ادا ہو سکے۔
قارئین کرام !علم کو کما حقہ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اساتذہ کرام،والدین،اور دیگر تمام عظیم ہستیوں اور کتابوں کا ادب کیجئے کیونکہ انسان گناہ کرنے سے کافر نہیں ہوتا بلکہ اس کو ہلکا سمجھنے سے کافر ہوتا ہے اس لئے کہا جاتا ہے۔
“باادب بانصیب بے ادب بے نصیب