حافظہ قاریہ بنت سرور

جوں جوں سائنسی ٹیکنالوجی میں ترقی ہوتی گئی توں توملتِ اسلامیہ دین سے دور ہوتی چلی گئی۔ پرانے وقتوں میں لوگوں کا طرزِ زندگی بھلے ہی نہایت سادہ  تھا لیکن ان کا انگ انگ دینِ محمدی ﷺ کی خوشبو سے معطر تھا کہ قدیم لوگ سنتِ نبوی ﷺ کے پیروکار تھے۔
یہاں دنیا ترقی کے منازل طے کرنے لگی وہاں مشرقی تہذیبوں کے اطوار و روایات اب ہمارے دسترخوانوں پر بھی منڈلانے لگے ۔نِت نئے پکوان، جہاں سادہ طرز کے لوگ زمین پر کپڑا بچھا کر کھانا کھاتے وہاں اب اس کی جگہ ڈائننگ ٹیبل نے لے لی ہے۔ کھانا ہمیشہ زمین پر بیٹھ کر کھانا چاہیے لیکن اگر کبھی کرسی وغیرہ پر بیٹھنے کی حاجت ہو تو بھی ایسی ہئیت اختیار کرنی چاہیے جیسے آدمی زمین پر بیٹھا ہے۔ “کیونکہ نبی ﷺ ہمیشہ زمین پر بیٹھ کر کھانا تناول فرماتے۔”
اسی طرح “حضرت انس رضی الله عنہ سے روایت ہے  کہ میں نے دیکھا کہ رسول الله ﷺ دونوں گھنٹے کھڑے کرکے زمین پر ذرا سا لگ کر (سرین کے بَل) بیٹھے اور کھجوریں تناول فرما رہے تھے۔”(صحیح مسلم:5331)
بہر حال ٹیک لگا کر کھانا خلافِ سنت ہے۔اور ہر خلاف سنت امر تصوف و برکات سے محروم ہوتا ہے۔اسکے برعکس طمع، شوخی،تعصب،نفرت،دھوکا، بغض،حسدوکینہ کیسے کیسے امراض ہماری کی شریانوں میں جنم لے چکے ہیں،
نبی ﷺ متکبرین اور ان لوگوں کی طرح نا کھاتے کہ جن کا کھانا، پینا ہی شیوۂ حیات تھا بلکہ آپ خوب کھانے لیے نہیں بیٹھتے، جلدی جلدی فارغ ہونے کی کوشش کرتے۔ آقا علیہ السلام اور صحابہ کرام، جینے کے لیے کھاتے تھے اور ہم کھانے کے لیے جیتے ہیں۔
“تین انگلیوں(ابھام، سبابہ،بنصر) سے کھانا انبیاء علیہ السلام کی سنت ہے” یہی رسول ﷺ کی سنتِ عادیہ ہے۔ تاہم چمچ سے کھانے میں شرعاً اسکی ممانعت نہیں ہے، جائز ہے۔ البتہ طبی لحاظ سے ہاتھ کے ساتھ کھانے میں ہضم ہونے کے لیے نہایت مفید ہے۔
اگر دسترخوان رنگ برنگے کھانوں سے مزین ہو تو سب سے پہلے اپنی مرغوب شے کو ترجیح دیجیے،اور حسبِ ضرورت اپنی طشتری میں انڈیل لیجیے۔ ایک ہی تھال میں دو یا کئ افراد کھانے میں شمولیت کریں تو ہر فرد اپنے سامنے سے کھائے۔ کھانا ہمیشہ اپنے سامنے سے کھانا چاہیے ، پورے برتن میں ہاتھ گھمانا اور دوسروں کے سامنے سے کھانا معیوب ہے۔
قبل از طعام ہاتھ دھونا، اور تسمیہ کہنا۔
عمر بن ابی سلمہ کہتے ہیں کہ میں بچہ تھا اور رسول اللہ ﷺ کی نگرانی میں تھا، میرا ہاتھ پیالہ میں چاروں طرف پڑتا تھا تو مجھ سے آپ ﷺ نے فرمایا کہ اے لڑکے ! اللہ کا نام لے (بسم اللہ پڑھ) اور اپنے دائیں ہاتھ سے کھا اور جو تیرے قریب ہے اس میں سے کھا، میں اس کے بعد اسی طرح ہی کھاتا تھا۔(صحیح بخاری)
کھانا پروستے سمے داہنی جانب سے پہل کی جاے خواہ وہ بڑا ہے یا چھوٹا۔
ایک مرتبہ آقا ﷺ کی خدمت میں پینے کی کوئی چیز پیش کی گئی۔آپ صلی الله علیہ وسلم کے دائیں جانب چھوٹا لڑکا تھا اور بائیں جانب بڑے بڑے مشائخ  تھے۔ لیکن نبی مکرم ﷺ نے آدابِ طعام کو خاطر میں لاتے ہوے، حضرت ابنِ عباس رضی الله عنہ کو پیالہ تھمایا۔(صحیح بخاری)
بعداز طعام: ہاتھوں کا دھونا مضرِصحت سے رہائی ہے۔
الغرض: کھانے کے آخر میں شکر ادا کرنا رضاۓ الٰہی کا ضامن ہے.
آپؐ نے فرمایا:کھا کر شکر ادا کرنیوالا، روزہ رکھ کر صبر کرنیوالے کی طرح ہے۔(زاد الطالبین)
کھڑے ہوکر کھانا مکروہ ہے۔ مگر افسوس کہ اسکو ہم نے اپنا شعار بنا لیا ہے۔
علاوہ ازیں کھانے کا ضیاع، بین الاقوامی المیہ بن چکا ہے، جسکا ثمرہ ہر گھر میں تنگدستی، بے برکتی اور مفلسی کی ایل پیل ہے۔ جبکہ دین اسلام تو یہاں تک حکم دیتا ہے کہ دسترخوان پر گرے ذرات کو بھی اٹھا کر کھا لیجیے کہ بے برکتی اور  تمہاری اولاد سے کم عقلی کو دور بھگاتا ہے،جبکہ

ایک تحقیق کے مطابق دنیا کی خوراک کا ثلث حصہ بیکار رد کر دیا جاتا ہے، جو 3۔1 بلین کے لگ بھگ یعنی سال بسال 13 کھرب کلو گرام ہے۔ شادی بیاہ، ہوٹلز، رمضان میں افطار پارٹیاں، امیر طبقوں کی نازیبا تقریبات پر کھانے کے ضیاع کو عام دیکھا گیا ہے۔

آقا ﷺ ایک مرتبہ گھر میں تشریف فرما ہوے تو روٹی کا گرا ہوا ٹکڑا اٹھایا پونچھااور کھا لیا اور ساتھ ہی فرمایا اے عائشہ رضی اللہ عنھا اس چیز کی قدر کرو، جس قوم سے اس کو اٹھا لیا جائے دوبارہ لوٹتی نہیں۔ ہمارے یہ ریت بن چکی ہے کہ بچا ہوا کھانا پھینک دیا جاتا ہے بلکہ بعض ممالک تو بدستور فریز کیا ہوا کھانا پکا ہو یاکچا باقاعدہ پھینک دیتے ہیں۔
یاد رکھیو!  استعمال شدہ کھانے پر حساب اور ضیاع شدہ کھانے پر عذاب ہے۔
نت نئے پکوان کے ساتھ ہمارے گھر کی نساء کو چاہیے کہ اسلامی تہذیب و تمدن کو اپنے گھر کے بچے بچے میں اجاگر  کریں۔ دسترخوان پر فضول گوئی کی بجائے اچھی باتیں اور صحابہؓ کرام کے قصص پر بحث کریں۔ اس طرح دین و دنیوی دونوں مقاصد زندہ رہیں گے۔
…..

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact