تحریر: شجاعت علی راہی
فَبِایِّ اٰلَاءِ رَبِّکُما تُکَذِّبٰن
نصرت نسیم مشرقی تہذیب و ثقافت سے جُڑی ہوئی وُہ خاتون ہیں جن کا دامن حمد و ثنا، درود و سلام، نادِ علی، حُبِّ اہلِ بیت اطہار، عقیدتِ اولیائے کرام اور پُرخلوص دعاؤں کے روشن جگنوؤں سے بھرا پڑا ہے۔
جب وُہ قلم بدست ہوتی ہیں تو اُن کے لبوں پر دعاؤں کے پھول کھِلتے ہیں اور ان کی رگوں میں خلوص کا لہو گردش کرتا ہے۔ جہاں وُہ اپنی تحریروں میں دعاؤں کے موتی کوٹ کوٹ کر بھر دیتی ہیں، وہاں جب کسی سے مِلتی ہیں تو تو اُسے بھی حصارِدعا میں لے لیتی ہیں۔
نصرت نسیم آدم زادوں کو انسانیت کی سطح پر بحال کرنا چاہتی ہیں اور اپنی خوش خُلقی سے محبت کے نیلے پھول کھِلاتی رہتی ہیں۔
وُہ جانتی ہیں کہ نیکی کی ایک چھوٹی سی کرن اندھیرے کی دیوار میں دراڑ ڈال دیتی ہے اور مثبت محسوسات سے رسیلے چشمے پھوٹنے لگتے ہیں۔ اِس لئے وُہ شکوۂ ظلمتِ شب کی بجائے اپنے حصے کی شمع جلاتی رہتی ہیں۔
نسیم نصرت کا تعلق اُس قبیلے سے نہیں ہے جو احباب کو اچھے موسم پر خوش ہوتا دیکھیں تو کہیں “اچھے موسم کب تک، بھائی!” وُہ خود کو اُن خوش بختوں کی صف میں شامل رکھنے کی خواہش مند ہیں جو مقامِ صبر کو مقامِ شُکر میں بدل دیتے ہیں۔
ہر انسان کی زندگی میں جہاں سُکھ کے سویرے مِلتے ہیں، وہاں دُکھ کے اندھیرے بھی راہ پاتے ہیں۔ نیک بخت لوگ سُکھ کی نعمت کا تحفظ شُکر سے کرتے ہیں اور دکھ کی زحمت کا صبر سے۔ نصرت نسیم بھی کڑے امتحانات سے گزرتی رہی ہیں لیکن ان کے صبر و شکر کے ذخیرے ہر سمے ان کے ساتھ رہے ہیں اور انہوں نے محبت و مودّت کا دامن کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔
بارہا تُند ہوائیں چلیں، طوفاں آئے
لیکن اک پھول سے چمٹی ہوئی تتلی نہ گری
۔۔۔مجید امجد
مولا علی علیہ السلام نے فرمایا تھا:
خدا کا یہ کام نہیں کہ کسی کے لئے شُکر کا دروازہ کھول دے اور نعمت میں زیادتی کا دروازہ بند کر دے۔
اس سے یہ استنباط کیا جا سکتا ہے کہ نصرت نسیم دنیا و عاقبت کی نعمتوں سے محروم نہیں رہ سکتیں اور اس کا ایک عکس ان کتابوں میں مِلتا ہے جو انہوں نے پچھلے چند برسوں میں تحریر کی ہیں۔
اپنی مٹی سے نصرت نسیم کا رشتہ بہت پائیدار ہے۔ انہوں نے اپنے شہر کوہاٹ اور صوبے پختون خوا کی جو ثقافتی سفارت کاری اور لفظی مینا کاری کی ہے، وُہ دیدنی اور شنیدنی ہے۔ ان کی تحریروں میں تقافتی رس ہے اور ماورائی چاشنی ہے۔ وُہ لفظوں کی حرمت کا پاس رکھتی ہیں۔ لکھتی کم ہیں، زادِ راہ زیادہ اکٹھا کرتی ہیں۔
انہیں پڑھئے تو ناصر کاظمی کے اشعار ذہن میں گونجنے لگتے ہیں
میں نے جب لکھنا سیکھا تھا
پہلے تیرا نام لکھا تھا
بوٹا بوٹا نور کا زینہ
سایہ سایہ راہ نما تھا
جو پایا وُہ بھی تیرا ہے
جو کھویا وُہ بھی تیرا تھا
شاخیں تھیں یا محرابیں تھیں
پتّا پتّا دستِ دعا تھا۔
اس جملے پر اپنی گفت گو کو لپیٹنا چاہوں گا کہ جس معاشرے میں نصرت نسیم جیسی دعاگو ہستیوں کی تعداد بڑھ جائے، اُس معاشرے میں اجتماعی روحانی قوت کی روشنی پھیلنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔