مقدس اعجاز

دسترخوان اس کپڑے کا نام ہے جس کپڑے پر کھانا تناول کیا جائے۔
مسلمان تمام اعمال وافعال میں اللہ کے احکامات اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے طریقے پر عمل کرنے کا پابند ہے اسلام نے زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی فرمائی ہے اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت کو اجتماعی زندگی کے آداب سے بھی روشناس کرایا ہے۔
اگر  تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ مسلمانوں کا دستور تھاکہ وہ کھانا زمین پر بیٹھ کر ایک ہی تھال میں اجتماعی سطح پر کھانا کھاتے اور اسے ہی اخلاقی طریقہ مانتے اور یہ عمل محبتوں کا باعث بنتا ۔پھر انگریزوں نے اپنے قدم ہندوستان میں رکھے اور اپنے ساتھ ہی کرسی ،میز ،چمچ ،کانٹا لے آئے اور کرسی پر بیٹھ کر چمچ کے ساتھ کھانے کا رواج عام ہو گیا۔
ہمارا دین ہم سے کہتا ہے کھانے سے پہلے ہاتھ دھونا سنت نبوی ہے ۔پہلے مسلمانوں میں کھانے کو الگ الگ کھانا یعنی کھانے کی تفریق کو برا سمجھا جاتا تھا ۔ہمارے پیغمبروں کی سنت ہے اجتماعی سطح پر کھانا کھانا ۔ بعض روایات میں آتا ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام    کبھی بھی اکیلے کھانا نہیں کھاتے تھے ۔جب بھی کھانا ہوتا کسی نہ کسی کو ضرور ساتھ بٹھا تے کہ کھاؤکہ رزق میں برکت ہوتی ہے اور محبت بڑھتی ہے۔
ترمذی اور داؤد میں ہے کہ  آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا جب کوئی کھانا کھائے تو اللہ کا نام لے (یعنی بسم اللہ پڑھے) اور اگر بھول جائے تو بسم اللہ اولہ وآخرہ پڑھے۔
ایک مرتبہ کسی نے عرض کیا یا رسول اللہ  ہم جب کھاتے ہیں تو پیٹ نہیں بھرتا ۔آپ صلی علیہ وآلہ وسلم نے شاید تم الگ الگ  کھاتے ہو تو عرض کیا ،ہاں۔  آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے   فرمایا اکھٹے ہو کر کھانا کھاؤ اور بسم اللہ پڑھو برکت ہوگی۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔
چند آدمیوں کے ساتھ کھانا کھانا باعث برکت ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  دستی کاگوشت پسند فرماتےاور اکثر غذا میں جوں کی روٹی کھاتے ۔
حضرت علی سے روایت ہےکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا “انار جنت کا میوہ ہے”جس نے انار کھایا اس کا دل روشن ہوا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا ۔عجوہ کھجور میں شفا ہے ۔کلونجی کے بارے میں فرمایا : ان کالے دانوں میں ہر بیماری کی شفا ہے سوائے موت کے۔
دسترخوان سے جڑی ہمارے معاشرے میں پھیلی ایک برائی  کا ذکر بھی  ضروری ہے۔
دسترخوان پر رکھا کھانا ہماری ماں، بہن ،بیوی الغرض جو بھی رشتہ ہو جس بھی رشتے نے کھانا آپ کے سامنے رکھا ہے وہ یا تو اچھا ہوتا ہے  یا پھر اس میں کچھ کمی ہوتی ہے لیکن اگر وہ اچھا بنا ہے تو بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو بتائیں گے کھانا اچھا ہے لیکن اگر کوئی کمی ہے تو سب بتانا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔

 دستر خوان پر اچھا  ملنے کی صورت میں بھی کوئی ایسا جملہ ضرور کہنا چاہئے تھا جس سے بنانے والے یا والی کی حوصلہ افزائی ہو۔ یہ بات قابل افسوس ہے کہ ہمارے معاشرے حوصلہ افزائی تو بڑی سوچ سمجھ  کرکر تے ہیں لیکن حوصلہ شکنی بے دھڑک کر دیتے ہیں اور ہم ایک سیکنڈ کے لیے نہیں سوچتے کہ ہمارے کہے ہوئے الفاظ کیسے دوسرے کے دل میں تیر کی طرح پیوست ہوتے ہوں گے۔
اللہ پاک ہمیں دین اور دنیا کے معاملات کو سمجھنے کی توفیق دے۔  نعمتوں کا شکر ادا کرنے والا بنائے اور سنت  نبوی پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے آمین

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact