ترقی پسند تحریک کا قیام لکھنؤ میں اس کا پہلا اجلاس اور اس میں پڑھے جانے والے خطبے نے اردو ادب کے رخ کو یکسر موڑ دیا تھا اور اردو ادب کے اندر ایک نء روح پھونک دی تھی۔ بقول پریم چند ” ہمیں ادب کے حسن کا معیار تبدیل کرنا ہوگا۔ہمیں اپنے ادب کا علمی معیار اونچا کرنا پڑے گا تاکہ وہ زندگی کے ہر شعبے سے بحث کرسکے۔‘‘ 1936 سے60 19تک کا اردو ناول کا جو سفر تھا بہت خوشگوار تھا اور اردو ادب کے فکشن کا دامن بہترین ناولوں اور افسانوں کے گل بوٹوں سے مزین تھا، گؤدان،ٹیڑھی لکیر،آگ کا دریا،لہو کے پھول،خداکی بستی جیسے اچھے ناول دنیا کسی بھی ادب کے مد مقابل کھڑے کئے جا سکتے ہیں۔ قرأۃ العین حیدر، قاضی عبد الستار، جیلانی، خدیجہ مستور،جوگیندر پال تک آتے آتے کچھ برسوں کے لئے ایسا لگا ناول کا سفر تھم سا گیا۔ کوء بہترین ناول تخلیق نہیں ہوا،کیونکہ ناول جیسے بڑے کینوس پر زندگی کا رزمیہ، زندگی کے مسائل اور معاشرے کے حقائق کی سچی تصویر بنانے کے لئے جن تخلیقی صلاحیتوں اور حساس دل،باشعور ذہن، احساسات و جذبات اور تجربات و مشاہدات کی ضرورت ہوا کرتی ہے نء نسل میں اس کا فقدان نظر آرہا تھا۔۔مگر 1980 کی دہائی کے چند برسوں بعد ہی? اردو ناول کا پھر ایک نیا دور شروع ہوا۔1980کی دہاء سے وجود میں آنے والے اردو قابل ذکر ناول جیسے باگھ،راجہ گدھ، دو گز زمین،مکان،کینچلی،بولو مت چپ رہو فرات، پانی، ندی اور بہت اہم ہیں، اور یہ سفر بہار کی سرزمین سے شروع ہوا۔
1988 ء عبد الصمد کے ناول دو گز زمین نے فکشن کی پر خاموش سطح میں زور دار ارتعاش پیدا کیا۔ اور ناول کے حوالے سے اردو ادب کے قارئین و ناقدین میں جو یاسیت چھاء گء تھی۔اس ناول سے مایوسی کے بادل چھٹ گئے اور اردو فکشن کے شائقین کو نئے ناولوں کی امید بندھ گئ۔ عبد الصمد کے ناول دو گز زمین کو بہت شہرت نصیب ہوی قارئین نے پسند کیا،ناقدین نے سراہا،ساہتیہ اکادمی دلی نے انعام سے نوازا۔ان کے بعد پیغام آفاقی کا ناول مکان منظر عام پر آیا اور علی امام نقوی کا تین پتی کے راما اور پھر ایک کے بعد ایک ناولوں کی جھڑی لگ گئ۔غضنفر کا ناول پانی نے فکشن کے خاموش دریا میں ہلچل پیدا کردی۔ پھر 1990 کی دہائی میں جب بیسویں صدی کی زندگی کی شام عنقریب تھی ادب کے افق پر بیسویں صدی کا سورج اپنی پر شفق بانہیں پھیلاے ہوے تھا۔تبھی فکشن کی دنیا میں ایک بار پھر ہلچل مچی ہر طرف فائر ایریا،فائر ایریا کا شور اٹھا یہ اب تیس برس پہلے 1994 کی بات ہے جب ساہتیہ اکادمی دلی نے پھر ایک ناول کو انعام سے نوازا ہر طرف خوشیوں کے شادیاں بجے،مبارکبادیں دی گئیں، تہنیتی جلسے ہوے،سیمینار ہوے اور فائر ایریا پر خوب باتیں ہوئیں۔ ناقدین کی نظر میں فائر ایریا نوے کی دہاء کا سب سے اچھا ناول قرار پایا بقول قمر رئیس:”فائر ایریا اس دہاء کا سب سے اچھا ناول قرار دیا جا سکتا ہے۔” حوالہ (فائر ایریا کے رسم اجرا کے موقع پر کی گء تقریر 1995،دہلی) بحوالہ اردو دو ناول سمت و رفتار، مصنف ڈاکٹر سید علی حیدر
اب ہم رخ کرتے ہیں فائر ایریا کی طرف ناول نگار نے اپنے ناول کا نام فائر ایریا کیوں رکھا؟ دراصل ایک ادیب یا شاعر کے اندر مشاہدہ کی غیر معمولی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔وہ دیکھنے میں عام انسان تو ہوتا ہے مگر بہت حساس اور باشعور ہوتا ہے۔ اور اپنے اطراف کے واقعات،حادثات، مناظر اور انسانوں افعال و اعمال پر بہت گہری نظر رکھتا ہے اور چاہ کر بھی سماج میں پھیلی برائ، کسی پر ہو رہے ظلم اور کسی کی حق تلفی سے نظریں نہیں چرا سکتا ہے۔ اور ادیب اپنا قلم اٹھاتا ہے اور اپنی تحریروں کے ذریعے ان مسائل سے لوگوں کو آگاہ کرتا ہے۔اور اپنے اندر کے درد کو تحریر کا جامہ پہنا کر بہت سے لوگوں میں بانٹ دیتا ہے۔
ناول تو ایک انتہاء زندہ صنف ہے جس میں زندگی جیتی جاگتی،چلتی پھرتی،ہنستی روتی، ہر روپ میں نظر آتی ہے۔ ناول زندگی کا مکمل اور بھر پور عکاس ہونے کے ساتھ ساتھ تہذیبی اور ثقافتی مسائل کا بھی غماز ہوتا ہے۔ ناول زندگی کی رفتار کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کی قوت رکھتا ہے۔ناول زندگی کی وسعتوں کا حامل ہے۔ فائر ایریا کے تخلیق کار الیاس احمد گدی میں وہ حسیت اور شعور کی غیر معمولی صلاحیت موجود تھی انہوں نے اپنے اطراف سے ناول کا عنوان بھی تلاش کیا اور اور پلاٹ بھی اور کرداروں کا انتخاب بھی اپنے ساتھ رہنے والوں،کام کرنے والوں میں سے کیا اور ایک جاندار بیانیہ لکھا جس میں جھاڑ کھنڈ کی جھریا کوئلری کے مٹ میلے بے رنگ و بے آب و گیاہ مناظر،دھوپ میں جلتے تپتیے طویل میدان،ہریالی کو ترستی درختوں کی پتیاں اور کوئلری میں کام کرنے والے انسانوں کی سیاہ شکلوں پسینے سے تر جسموں،اور ان کی مکمل سیاہ زندگیوں کی حقیقی تصویر نظر آتی ہے۔ در اصل کول فیلڈ کی زندگی وہاں کام کرنے والے محنت کش مزدوروں کی زندگی پر لکھا گیا ایک اچھوتا ناول ہے اس موضوع پر پہلی مرتبہ الیاس احمد گدی نے قلم اٹھایا اور کوئلے کی کانوں میں بسر ہونے والی کالی زندگی کے کالے صفحات کو ادب میں شامل کیا۔ الیاس احمد اپنے ابتدائیہ میں لکھتے ہیں۔ ”یہ سب کون لوگ تھے۔۔۔۔۔؟ بھوکے ننگے جانوروں کی طرح کے زندگی گزارنے والے لوگ۔۔۔یہ سب اس ویران چٹیل میدان کی تپتی دھوپ میں چٹانوں سے نبرد آزمائی کرنے والے لوگ۔۔۔کون سی چیز یہاں کھینچ لائی ہے؟ان تمام لوگوں میں صرف ایک چیز مشترک ہے۔۔۔۔ بھوک۔
بھوک جو ہزار ہا سال سے یا شاید ازل سے انسان کی سب سے بڑی مجبوری رہی ہے۔یہ بھوک کو انسان کو غیر انسانی مشقت پر آمادہ کر تی ہیاور غیر انسانی سلوک برداشت کرنے پر مجبور۔ٹرنرموریسن کمپنی کا ایجنٹ وہائٹ صاحب کہتا ہے۔
” سالا یہ رول دیکھتا ہے یہ تمہاری پوند میں ڈال دیگا۔”
لوگ ہنستے ہیں۔ وہائٹ صاحب کی بات پر انہیں غصہ نہیں آتا۔انہیں معلوم ہے کہ وہائٹ صاحب دل سے دل سے گالی نہیں دیتے یہ تو ان کی عادت ہے۔” حوالہ: فائر ایریا صفحہ 8
الیاس احمد گدی جن کی سن پیدائش24 اپریل 1934 بتایء جاتی ہے اور تاریخ وفات تحقیقی مقالوں،اور رسائل میں 27جولائ1997 درج ہے۔ (سابقہ متحدہ بہار)موجودہ جھاڑ کھنڈ کے ضلع دھنباد کے موضع جھریا کے گدی محلہ کے رہنے والے تھے۔ محقیقین کے مطابق انہوں نے اپنا ادبی سفر چودہ برس کی عمر سے شروع کر دیا۔ان کے ادبی سفر کا آغاز افسانہ نویسی سے ہوا۔
محققین کے مطابق الیاس احمد گدی کا پہلا افسانہ ’سرخ نوٹ ‘ ہے جو بھوپال سے شائع ہونے والیماہنامہ ’افکار‘ میں 1948میں شائع ہوا تھا میں اس افسانے کو بھی پڑھنا چاہتی ہوں۔مگر اب تک اس افسانے تک میری رساء نہیں ہوپائ۔ فائر ایریا سے پہلے الیاس احمد گدی کے دو ناول شائع ہوچکے تھے۔پہلا ناول زخم ہے جو 1953 میں شائع ہوا، دوسرا مرحم 1954میں شائع ہوا۔ اور تیسرا اور سب سے اہم ناول فائر ایریا ہے جس نے الیاس احمد گدی کو اردو فکشن کے بام عروج پر بٹھا دیا۔ ایک طویل مسافت اور برسوں کی ادبی ریاضت کے بعد 1994 میں شائع ہوا اور فکشن کے افق پر چھا گیا۔ جو پذیرائی فائر ایریا کو ملی وہ شہرت ان کے دونوں ناولوں کو نہیں ملی۔فائر ایریا اردو میں مزدور اور کام گاروں کی زندگیوں سے متعلق اپنی نوعیت کا جاندار اور اچھوتا ناول ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس ناول کو خوب شہرت نصیب ہوئ۔ساہتیہ اکادمی کا انعام بھی ملا۔الیاس احمد گدی جو اپنے افسانوں کی وجہ ادبی دنیا میں جانے جاتے تھے۔ایک اعلی پاے کے ناول نگار کی حیثیت سے پہچانے جانے لگے۔ مصطفی کریم لکھتے ہیں۔” یہ کتاب اس توانا فکر کی کڑی ہے جس نے اردو دنیا کو ہلا کر رکھ دیا اور جس کے اثرات کبھی مٹ نہیں سکتے۔” حوالہ: فائر ایریا ایک مطالعہ: مصطفی کریم۔بحوالہ اردو ناول سمت رفتار، مصنف ُڈاکٹر سید حیدر علی
الیاس احمد گدی نے اپنے ناول فائر ایریا کے ابتدا میں اپنے ناول کا عنوان اس کا موضوع، اس کا پلاٹ اور اس کے کرداروں کے بارے میں ایک تمہیدی تحریر شامل کی ہے۔ جو فائر ایریا کے پس منظر کو پوری طرح اجاگر کرتی ہے اور ناول کے مطالعہ کے لئے تجسس بھی پیدا کرتی ہے۔
سب سے پہلے کتاب کا تعارف کراتی ہوں پھر ابتدائیہ کی طرف آئیں گے۔ میرے موبائل کی اسکرین پر ریختہ ڈاٹ کام کی ویب سائٹ کھلی ہوئی ہے اور اس سائٹ پر ایک کتاب تلاش کی ہے جس کا نام ہے فائر ایریا مصنف ہیں الیاس احمد گدی پتہ ہے گدی محلہ جھریا ۱۱۱۸۲۸ کتابت کی ہے عبد الوحید وحدت رقؔم دھنباد اور محمد سلمان قاسمی نے۔عطاء اللہ اختر نے سرورق ڈیزائن کیا ہے۔طباعت عزیز پرنٹگ پریس دہلی6 سے ہوء ہے۔سن اشاعت ہے 1994 قیمت تھی ایک سو پچاس روپئے۔ اگلے صفحہ پر ابتدائیہ تحریر ہے اس کتاب میں انتساب نہیں ہے۔
ابتدائیہ کی تحریر کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں آپ کو سمجھ میں آجائے گا کہ فائر ایریا کیا ہے؟ کس جگہ ہوتا ہے؟ اور کہاں کی کہانی لکھی ہے الیاس احمد گدی نے؟
” اگر آپ کبھی کوئلوں کی اس کالی دنیا میں آئیں جسے کول فیلڈ کہاجاتا ہے تو آپ دیکھیں گے کہ کہیں کہیں کسی کسی سڑک کے کنارے ایک بہت چھوٹا سا بورڈ لگا ہوگا۔”فائرایریا”
آگ—–؟
آپ حیرت سے چاروں طرف دیکھیں گے مگر آگ آپ کو کہیں دکھلاء نہیں دے گی۔نہ آگ،نہ دھواں،نہ شعلہ، نہ چنگاری کچھ بھی نہیں آپ کے دونوں طرف اوبڑ کھابڑ میدان ہوگا جو بن تسلی یا کٹیلے کی جھاڑیوں سے بھرا ہوگا۔اگر وہ موسم برسات کا یا ٹھنڈ کا ہو تو یہ جھاڑیاں ہری بھری ہونگی ورنہ زرد اور کتھئی رنگ کی۔دور دور میں مزدوروں کے کوارٹر اور کولیری کی چمنیاں اور کوئلے کے بڑے بڑے ڈھیر سب دکھلائی دینگے، مگر آگ نہیں۔آپ لمحہ بھر میں اس بورڈ کو نظر انداز کر دینگے۔
مگر کیا واقعء آگ نہیں ہے۔۔۔۔۔؟
آگ ہے اوپر نہیں ہے اندر ہے۔” فائر ایریا صفحہ 4
دراصل یہ آگ اک استعارہ ہے اور اس جملے میں بہت سے اشارے پوشیدہ ہیں کہ آگ ہے مگر دکھاء نہیں دیتی اندر ہے۔بالکل بجا فرمایا الیاس احمد گدی نے اب قارئین کو سمجھنا ہے اس کے بارے میں کہ آگ کہاں کہاں ہے؟ اور کون کون سی آگ ہے؟ کوئلہ کی آگ تو زمین کے اندر ہے،بھوک کی آگ پیٹ کے اندر ہے ضرورت کی آگ انسان کے اندر ہے، محبت کی آگ دل کے اندر ہے،نفرت کی آگ آنکھوں کے اندر ہے۔ظلم کی آگ سماج کے اندر ہے،احتجاج کی آگ۔۔۔۔۔۔۔۔؟ کی تلاش میں پورا ناول اختتام پذیر ہوجاتا ہے تب وہ آگ نظر آتی ہے۔۔ ناول کا اختتامیہ حصہ ملاحظہ فرمائیں اور پورا ناول آپ خود پڑھیں تب سمجھ میں آئیگا اس آگ کا راز۔۔۔۔
” اپنا ہاتھ اٹھا کر وہ برابر نعرہ لگاتی جارہی تھی۔ پھانسی دو۔۔۔۔۔۔۔۔پھانسی دو۔
وہ مبہوت کھڑا ہے۔ایک ٹک ختونیا کو دیکھے جارہا ہے۔وہ نزدیک آتی جارہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔اور نزدیک
اور جب ختونیا اس کے ایک دم نزدیک آجاتی ہے تو اچانک اس کو دیکھ لیتی ہے۔ دیکھ لیتی ہے تو دیکھتی رہتی ہے۔اور تب اچانک سہدیو دیکھتا ہے کہ اس کی آنکھوں میں ایک شعلہ لہک رہا ہے۔
آگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
اس کو تعجب ہوا جس آگ کو وہ ساری زندگی تلاش کرتا رہا وہ آگ کہیں اور نہیں ختونیا کی آنکھوں میں۔
تو کیا آگ آنکھوں میں ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔؟
ہاں شاید آگ آنکھوں میں ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔
جلوس گزر گیا ہے۔وہ قدم بڑھاتا ہے۔ایک قدم،دو قدم، چار قدم، اور جلوس کے پیچھے پیچھے چلنے لگتا ہے۔ حوالہ؛ فائر ایریا صفحہ 367
٭٭٭
ناول ختم ہوا۔ اب ناول کے بارے میں بات کرتے ہیں
- اس ناول کی کہانی جھاڑ کھنڈ میں موجود چھوٹا ناگ پور کے کے ٹاپو،ضلع دھنباد کے موضع جھریا کی کوئلہ کان میں کام کرنے والے غریب ضرورت مند،محنت کش مزدوروں کی مشکلات سے بھری ہوء زندگیوں کی ہے۔ان پر ہورہے مظالم اور استحصال کی ہے۔ ان تمام کرپشنز کی ہے جو کانوں،کارخانوں، اور فیکٹریوں میں رات دن کام کرنے والے مزدوروں کے ساتھ ہوتے ہیں۔ اس بدحالی اور بد نیتی کی ہے جہاں ان کے محنت کے پیسے کبھی سود خوروں، کبھی ہفتہ وصولی کرنے والے غنڈوں، کبھی شراب کے اڈوں پر برباد ہوجاتے ہیں۔
- الیاس احمد گدی نے اس ناول کا تانا بانا چھوٹا ناگپور کی تہذیب و معاشرت اور کول فیلڈ کے مالکان، کوئلری کے ٹھیکے داروں کی بے حساب دولت اور اس میں کام کرنے والے مزدوروں کی بیحساب غریبی کی سماجی،معاشی، نا انصافی اور ان کے ساتھ ہونے والے مظالم اور استحصال سے تیار کیا ہے۔بھوک،ظلم، اور استحصال کے بطن سے احتجاج، انتقام اور انقلاب پیدا ہوتا ہے اور اسی احتجاج، انقلاب اور انتقام کی آگ کو سہدیو رمانی، مجمدار اور عرفان جیسے نوجوان ان محنت کش اور مظلوم لوگوں میں روشن کرنا چاہتے تھے۔وہ آگ جو رحمت کی موت نہ جلا سکی، احتجاج، انتقام اور انقلاب کی وہ آگ مجمدار کی موت روشن کر دیتی ہے۔وہ آگ۔مجمدار کے قتل سے ختونیا کی آنکھوں میں بھڑک اٹھتی ہے عرفان کے سینے میں جل اٹھتی ہے۔ الیاس احمد گدی نے فائر ایریا میں یونین کی بد عنوانیوں کی سچی تصویر کشی کی ہے۔جو مزدوروں کی مسیحا بن کر ان کو لوٹتی ہیں ان کے حق پر ڈاکہ ڈالتی ہیں۔۔ اس ناول میں مجمدار کا کردار مزدوروں کے اندر انقلابی اور احتجاجی شعور بیدار کرنے کے لئے اور اپنے دشمن عناصر سے نبردآزماء کے لئے ایک انقلابی یو نین تشکیل کرتا ہے۔ سہدیو اس کا ساتھ دیتا ہے کیونکہ وہ شروع سے ہی وہ ان مظالم اور استحصال کے خلاف ہوتا ہے۔مزدور ایکتا اور مزدور سنگھرش کے لئے ایمانداری دیانت داری اور سچاء کے ساتھ کھڑا رہتا ہے۔ رول فاکس کا کہنا ہے کہ۔” ناول میں جیون سنگرام دکھا? دیتا ہے۔زندگی کے سنگھرش پر ہی ناول لکھے جاتے ہیں۔اور بلا شبہہ یہ ناول بھی جیون سنگھر ش کی کہانی بیان کر رہا ہے۔
- اس ناول کا آغاز گیا ضلع کے ایک گاؤں سے ہوتا ہے۔ جب ایک نوجوان جس کا نام سہدیو رمانی ہے، روزگار اور اپنے بہتر مستقبل کے لئے ننکو نامی شخص کے ساتھ اپنا گھر،اپنا گاؤں، گاؤں کی مٹی کی سوندھی خوشبو، بھیا بھابھی اور اپنے ننھے سے بھتیجے سے جدا ہوتا ہے۔ محبوبہ کی محبت اس کے آ نسو اور اس کی حسرت بھری نگاہیں بار بار اس کا راستہ روکتی ہیں۔مگر گاؤں کی یادیں، دل میں اپنوں کی جداء کی کسک محبوبہ کے وعدوں کی طاقت اور بھاء بھابھی کا آشیرواد لیکر چل پڑتا ہے۔ راستے میں دوسرے گاؤں رسول پور کا رحمت بھی س
- اس ناول کا آغاز گیا ضلع کے ایک گاؤں سے ہوتا ہے۔ جب ایک نوجوان جس کا نام سہدیو رمانی ہے، روزگار اور اپنے بہتر مستقبل کے لئے ننکو نامی شخص کے ساتھ اپنا گھر،اپنا گاؤں، گاؤں کی مٹی کی سوندھی خوشبو، بھیا بھابھی اور اپنے ننھے سے بھتیجے سے جدا ہوتا ہے۔ محبوبہ کی محبت اس کے آ نسو اور اس کی حسرت بھری نگاہیں بار بار اس کا راستہ روکتی ہیں۔مگر گاؤں کی یادیں، دل میں اپنوں کی جداء کی کسک محبوبہ کے وعدوں کی طاقت اور بھاء بھابھی کا آشیرواد لیکر چل پڑتا ہے۔ راستے میں دوسرے گاؤں رسول پور کا رحمت بھی ساتھ ہو لیتا ہے۔۔ کہانی اور اس کے کردار کچی پگڈنڈی سے ہوتے ہوء پکی سڑک تک اور سڑک سے کھٹارا بس پر سوار ہوجاتے ہیں اور ہچکولے کھاتے گرتے پڑتے،اونگھتے ہوے دور بہت دور جھریا کے بے رنگ،بدرنگ سنسان علاقے میں پہنچ جاتے ہیں۔ انجام دھنباد جھریا میں مجمدار کی موت اور اُس کے خلاف جلوسِ کے ساتھ ہوتا ہے۔367 صفحات اور تین ابواب پر مشتمل اس ناول کی خوبیوں میں ایک خوبی اس کا طویل و بسیط اور ضخیم نہ ہونا بھی ہے۔ جو قاری کے لئے بوجھ نہیں بنتا۔اس کا پلاٹ بہت مربوط ہے۔اور اپنے قاری کو کہیں بھٹکنے بھی نہیں دیتا ہے اور اپنے حصار میں جکڑے رہتا ہے۔زبان بیان کرداروں کے عین مطابق اور لہجہ بہار،جھار کھنڈ، بنگال، اور بہت سے صوبوں کا پتہ دیتا ہے۔اور زبان و بیان کا یہ فطری انداز ناول کو دلچسپ بناتا ہے۔ مردانہ سماج اور ان کی باتوں میں گالیاں اور گالیوں میں ماں،بہن،بیٹیاں، سالا،سالی،سسر ہمہ وقت استعمال کئے جاتے ہیں۔اس کالی تصویر کو بھی ناول نگار نے فطری انداز میں پیش کیا ہے۔
- رول فاکس کا کہنا ہے کہ۔” ناول میں جیون سنگرام دکھا? دیتا ہے۔زندگی کے سنگھرش پر ہی ناول لکھے جاتے ہیں۔
- اس کہانی میں سہدیو،رحمت،عرفان،مجمدار بھرت سنگھ، ختونیا متحرک اور فعال کردار ہیں۔
ناول کا مرکزی کردار سہدیوپرساد رمانی ہے۔جو ست گانواں ضلع گیا کا رہنے والا ہے۔وہ تلاش ِ معاش میں اپنے گائوں اور محبوبہ کو چھوڑ کر کولیری فیلڈ میں ننکو کے ساتھ کام کرنے کے لئے آتا ہے۔سہدیو سمیت دوسرے مزدوروں کے دکھ،درد،رنج و غم،محبت و شفقت اور استحصال کو پیش کرنے میں ناول نگار نے زورِ قلم صرف کیا ہے۔زیرِ بحث ناول میں حقیقت کا عکس دیکھنے کو ملتا ہے۔سہدیو جو ایک سادہ اور درد مند انسان ہوتا ہے،جس کی وجہ سے اُس سے بعض ایسی حرکتیں سرزد ہوجا تی ہیں جو کولیری کے کالے قانون کے مطابق جرم میں شمار ہوتی ہیں۔ شروعات میں وہ کسی بھی مسئلے میں اپنے اصولوں اور ضابطوں کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کرتا ہے۔وہ کالا چند کو کپل سنگھ کے غنڈوں سے بچاتا ہے جس کی وجہ سے کپل سنگھ جیسا غنڈوںکا سردار اُس کا جانی دشمن بن جاتا ہے۔حالانکہ ننکو اُس کو کول فیلڈ کے ماحول کے بارے میں کئی طریقوں سے سمجھاتا ہے مگر وہ اپنے اصولوں اور ضابطے کی خلاف ورزی نہیں کرتا اور مجمدار کی وساطت سے کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ جُڑ جاتا ہے۔ آخر کار بھاردواج کی وساطت سے انگریزی کمپنی ٹرنرموریسن میں نوکری کے دروان حالات کے ساتھ سمجھوتا کرتا ہے جس سے مجمدار کا دل شکستہ ہو جاتا ہے۔بھاردواج دلت مزدور سنگھ کا سربراہ ہوتا ہے۔
رحمت کو بھی ننکو سہدیو کے ساتھ ہی کام دلانے کے لئے کولیری لے آتا ہے۔مگر رحمت کی کان میں کام کرتے ہوے موت واقع ہوجاتی ہے۔اس کے بیوی بچوں کو کوء معاوضہ نہیں ملتا۔
ختونیا ناول کا ایک ایسا محترک کردار ہے جس میں آگے بڑھنے کی صلاحیت موجود ہے اور جس کی وجہ سے سہدیو کے اندر بھی جلوس کے ساتھ چلنے کا جذبہ پیداہوتا ہے۔رحمت ختونیا کا شوہر تھا جو کول فیلڈ کی اندھیری کھائی میں مارا جاتا ہے۔وہ اپنا گزر بسر کرنے کے اپنے کمسن بیٹے عرفان کے ساتھ کوئلہ بیچنے کا کام کرتی ہے۔کولیری میں سہدیو اور اُس کی برہمن بیوی پرتی بالا اُس کا ساتھ دیتے ہیں۔جب سہدیو بیمار پڑتا ہے تو اُس کو بھی سہارا دیتی ہے۔مجمدارکی موت کے بعد جلوس میں شامل ہو کر احتجاج کرتی ہے اور انصاف کی ما نگ کرتی ہے۔
الیاس احمد گدی نے پہلی بارکو فیلڈ میں کام کرنے والے مزدورں کو موضوع بنا کر اُن کے حلِ طلب مسائل کو اُبھارا ہے۔ اس ناول کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ ناول اشتراکی نظرئے کی پاسداری کرتا ہے۔ فائر ایریا کسی ایک شخص یا کسی ایک علاقے کی کہانی نہیں ہے یہ کہانی ہمارے پورے معاشرے کی کہانی ہے۔ یہ صرف کول فیلڈ کی کہانی نہیں ہے۔ہر جگہ یہی سماجی نا انصافی جسمانی،معاشی، استحصال ہو رہا ہے۔ کام گار طبقہ محنت کرتا ہے اپنا خون پسینہ ایک کر دیتا ہے اور منافع مالک،ٹھیکے دار،افسر کھاتے ہیں۔ اس پورے معاشرے میں ایک تصویر کوئلری کی بھی جہاں لاکھوں مزدور دن رات کام کرتے ہیں اور جھونپڑوں میں زندگی گزارتے ہیں۔زندگی کے بے حساب کبھی مہ ختم ہونے والے مسائل سے جوجھتا رہتے ہیں۔وہ چاہے استحصال کا ہو،بے حرمتی کا ہو۔ ان کی محنت بے قدر،ان کی جوانی بے قدر،ان زندگی بے وقعت، ان کی انسانیت بے عزت ہے۔ فائر ایریا ایک ایسا منظر نامہ ہے جس کی آگ میں انسانیت جھلس رہی ہے۔یہ ایک ایسے شخص کی تحریر ہے جو خود اس کی بھٹی میں جھلستا رہا ہے۔ یہ ناول اذیت ناک حقیقی حالات اور واقعات اور انسانیت کے خون کی روشناء سے لکھا گیا کبھی نہ فراموش کیا جانے والا ناول ہے۔اس ناول میں زندگی کا رزمیہ بھی ہے اور جیون سنگرام بھی،فکر بھی اور فلسفہ بھی،حقیقت کی روح بھی ہے اور تخیئل کا جسم بھی عصر حاضر کی دھڑکن بھی سناء دے رہی ہے۔ فائر ایریا مارکسی خیالات،اشترکی نظریہ،انسان دوستی اور ترقی پسند فکر کے بطن پیدا ہوا یہ وہ ترقی پسند ادب ہے جس میں بے چینی ہے اضطراب ہے تفکر کی روح ہے، جو ہمیں میٹھی نیند سلاتا نہیں جگاتا ہے بلکہ سوے ہوے ضمیر اور روح تک کو جنجھوڑ ڈالتا ہے جیسا کہانی کے رہنما پریم چند چاہتے تھے۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.