اخلاق حیدرآبادی
اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ اردو
رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی فیصل آباد کیمپس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ چھوٹے چھوٹے پرندے جو پاس ہوتے ہیں
اگر نہ ہوں تو شجر بھی اداس ہوتے ہیں
الٰہی کے دم سے ہیں آنگن کی رونقیں ساری
یہ پھول چہرے جو من کی مٹھاس ہوتے ہیں
بیدار سرمدی
پرندے ۔۔ آزادی، محبت اور انسانی قربت کی علامت
بیدار سرمدی کا شعر “یہ چھوٹے چھوٹے پرندے جو پاس ہوتے ہیں / اگر نہ ہوں تو شجر بھی اداس ہوتے ہیں” میں پرندے محض فطرت کا ایک مظہر نہیں بل کہ انسانی تعلقات، محبت اور روحانی مسرت کی علامت ہیں۔ شاعر نے پرندوں کو زندگی کے ان حسین لمحات سے تعبیر کیا ہے جو دل کے آس پاس چہک کر سکون بخشتے ہیں۔ یہ پرندے اصل میں ان انسانوں کی علامت ہیں جو زندگی میں خلوص، محبت، اور قربت کا احساس دلاتے ہیں۔ شاعر کا اشارہ اس حقیقت کی طرف ہے کہ جیسے درخت پرندوں کی موجودگی سے جیتا جاگتا دکھائی دیتا ہے، ویسے ہی انسان بھی اپنوں کی موجودگی سے معنویت پاتا ہے۔ یہاں پرندے روحِ رفاقت اور جذبۂ حیات کے استعارے ہیں۔ ان کی غیر موجودگی تنہائی، خاموشی اور روحانی خلا کا استعارہ بن جاتی ہے۔ بیدار سرمدی کا یہ تصور انسان کی اس داخلی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے کہ زندگی تبھی خوبصورت ہے جب اردگرد محبت کے پرندے چہک رہے ہوں۔
شجر۔۔ وجود، پائیداری اور احساسِ تنہائی کی علامت
شاعر کے ہاں شجر صرف فطرت کا ایک جز نہیں بل کہ انسانی وجود، استقامت اور پناہ کی علامت ہے۔ شجر اپنی جڑوں سے وابستگی کا مظہر ہے جو انسان کے ماضی، ورثے اور خاندانی رشتوں سے تعلق کو ظاہر کرتا ہے۔ بیدار سرمدی نے کہا کہ “اگر نہ ہوں تو شجر بھی اداس ہوتے ہیں” جس میں شجر کی اداسی دراصل اس روحانی کیفیت کی نمائندہ ہے جو انسان کو محبتوں کے بچھڑنے پر گھیر لیتی ہے۔ یہاں شاعر نے شجر کو ایک زندہ وجود کے طور پر پیش کیا ہے جو احساس رکھتا ہے اور یہ احساس انسان کی داخلی دنیا سے جڑا ہوا ہے۔ شجر کی اداسی اس بات کا اظہار ہے کہ محبت، قربت اور خلوص کے بغیر مضبوط وجود بھی کمزور پڑ جاتا ہے۔ اس طرح شجر، انسان کی ذات اور پرندے اس کے جذبات کے استعارے بن جاتے ہیں۔ یہ علامتی رشتہ شاعر کے فلسفیانہ انداز کو ظاہر کرتا ہے کہ وجود کی مضبوطی بھی احساس کے رشتوں سے وابستہ ہے۔
آنگن۔۔ گھر، تحفظ اور روحانی وابستگی کی علامت
دوسرے شعر “الٰہی کے دم سے ہیں آنگن کی رونقیں ساری” میں آنگن شاعر کے ہاں ایک وسیع روحانی و تہذیبی علامت بن کر ابھرتا ہے۔ یہ گھر کی فضا، ماں کی ممتا اور امن کی گود کی نمائندگی کرتا ہے۔ بیدار سرمدی کے نزدیک آنگن وہ مرکز ہے جہاں محبت، پرورش اور زندگی کا سفر جنم لیتا ہے۔ شاعر نے “الٰہی کے دم سے” کہہ کر یہ باور کرایا کہ ہر رونق، ہر زندگی کی چمک دراصل خالقِ حقیقی کی عطا ہے۔ آنگن میں موجود یہ الٰہی رنگ انسان کے ایمان، خلوص اور روحانی توازن کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہاں آنگن صرف مٹی کا صحن نہیں بل کہ دل کا آنگن ہے جس میں محبت اور ایمان کے پھول کھلتے ہیں۔ شاعر نے ایک عام گھریلو منظر کو علامتی سطح پر بلند کر کے روحانیت اور انسانیت کے ملاپ کا استعارہ بنا دیا۔
پھول۔۔ حسن، معصومیت اور انسانی احساس کی علامت
شاعر کے نزدیک “یہ پھول چہرے جو من کی مٹھاس ہوتے ہیں” میں پھول صرف ظاہری خوبصورتی کا استعارہ نہیں بلکہ انسانی پاکیزگی، معصومیت اور روحانی لطافت کی علامت ہیں۔ پھول خالق کے جمالی پہلو کی نمائندگی کرتے ہیں اور انسان کے دل میں بسنے والے نرم جذبات کا مظہر ہیں۔ شاعر نے “من کی مٹھاس” کی ترکیب کے ذریعے انسان کے باطن کو پھولوں سے تشبیہ دی ہے، گویا دل کے اچھے جذبات، مسکراہٹیں اور محبت کی خوشبو انہی پھولوں سے پھوٹتی ہے۔ یہ پھول کسی بچے کے چہرے، کسی ماں کے جذبے، یا کسی دوست کی مسکراہٹ کا استعارہ بھی ہو سکتے ہیں۔ شاعر کا وژن یہ ہے کہ دنیا کی اصل خوبصورتی، ظاہری رنگوں میں نہیں بل کہ انسان کے اندرونی حسن میں پوشیدہ ہے۔ بیدار سرمدی نے پھول کو نہ صرف جمالِ فطرت بلکہ اخلاقی طہارت اور محبت کی لطافت کے طور پر پیش کیا ہے جو ان کے کلام کی معنوی گہرائی کو دوچند کرتا ہے۔

اسلوب ۔۔ نرمی، روحانیت اور علامتی سلاست کا حسین امتزاج
بیدار سرمدی شعری اسلوب ان اشعار میں نہایت سادہ مگر علامتی بصیرت سے لبریز ہے۔ ان کے الفاظ نرم ہیں لیکن معنی وسیع۔ شاعر نے فطرت کے مظاہر پرندے، شجر، آنگن اور پھول کو انسانی احساسات سے جوڑ کر زندگی کی علامتی تصویر تخلیق کی ہے۔ ان کے ہاں زبان میں کوئی تصنع نہیں مگر خیال میں گہرائی اور روحانیت ہے۔ “الٰہی کے دم سے” جیسے مصرعے میں وہ صوفیانہ عقیدہ جھلکتا ہے کہ کائنات کا حسن اسی وقت کامل ہے جب اس میں الٰہی سانس شامل ہو۔ ان کا کلام سادہ قاری کے دل کو بھی چھوتا ہے اور صاحبِ نظر کو بھی تفکر پر آمادہ کرتا ہے۔ بیدار سرمدی کے شعری اسلوب میں جمالیاتی توازن، روحانی نرمی، اور انسانی محبت کا ایسا امتزاج ہے جو جدید شاعری میں کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ وہ علامتوں کے ذریعے زندگی کی معنویت کو اس انداز میں بیان کرتے ہیں کہ ہر شعر ایک مکمل فلسفہ بن جاتا ہے سادگی میں گہرائی اور نرمی میں تاثیر ہے۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.