Skip to content

عوامی ایکشن کمیٹی کا منشور حقوق؛ تجزیہ: شمس رحمان

 

عوامی ایکشن کمیٹی کا منشور حقوق؛ تجزیہ: شمس رحمان

حالات جو بھی ہوں ، حقائق کی بنیاد پر تنقید و  تبصرہ اور تجزیہ کسی بھی  ایسے لکھاری کے لیے لازمی ہوتا ہے جو موجود حالات اور صورت حال کو  مثبت اور صحت  مند انداز میں بہتر بنانے کے مقصد سے  اس مشکل میدان میں  آتے ہیں۔ عوامی ایکشن کمیٹی کے ساتھ کیے جانے والے معائدے پر بھی اس ہی سوچ اور مقصد کے ساتھ  میں نے یہ تبصرہ اور تجزیہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔  ظاہر ہے کہ اس  اپنی نوعیت کی منفرد اور ہمہ  پہلو  تحریک اور معائدے پر اتنے ہی موقف  سامنے آئیں گے جتنی یہاں سیاسی قوتیں ہیں۔ اور اس کے علاوہ کئی ایک انفرادی وی لاگرز، پاکستانی ابلاغ کے صحافی  اور سوشل میڈیا صحافی، علم و تحقیق سے وابستہ افراد  اپنی اپنی معلومات اور مقصد کے مطابق اس پر تنقید و تبصرے  پیش کر رہے ہیں اور کریں گے۔  ان سب کے اپنے اپنے حلقہ ہائے  اثر ہیں۔ چھوٹے یا بڑے۔ عوام کے بیانیے اور  رائے اکثر ان ہی ذرائع سے بنتی ، بدلتی اور بگڑتی ہے۔ اس لیے ہونا تو یہ چاہیے کہ سب لوگ بنیادی حقائق کو بنیاد پر بنا کر معلومات اور دلائل کی بنیاد پر سوال پوچھیں اور تنقید کریں ۔ تاکہ عوام تک جو معلومات اور شعور پہنچے  وہ حقیقت کے قریب ہو اور کسی کو عوام کو پھوک دے کر ، جذباتیت  ، جعلی اور غیر تصدیق شدہ خبریں اور نفرت پھیلا کر اپنی رائے اور بیانیے کو مقبول  بنانے کی ضرورت نہ پیش آئے یا کم ازکم عوام کی اکثریت ‘جعلی’ اور ‘ اصلی’ میں فرق سمجھنے لگے۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ اپنی رائے ، نظریے اور موقف کو مضبوط بنانے کے لیے اس کے مطابق تشریحات اور توضیحات  کی جاتی   ہیں تو  تنقید  جو کہ بنیادی طور پر ایک تعمیری عمل ہے  جانے ان جانے میں  تخریبی عمل میں بدل جاتا ہے۔  تنقید کی مثال ‘باجرے’ اور ‘ مکئی ‘  کی فصلوں کو ‘ نیدنے’ اور ‘ دلنے’   کے عمل  جیسی ہے۔ اس میں  فصل کے علاوہ فالتو جڑی بوٹیاں نکالنا  اور گند صاف کرن مقصد ہو تا ہے ، فصل کو تباہ کرنا نہیں ۔

میں نے اس  جائزے  میں  ایکشن کمیٹی کے مختصر پس منظر کے بعد معائدے میں شامل تمام معاملات اور موضوعات کو شامل کرنے کے بعد اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق  تبصرہ اور تجزیہ پیش کیا ہے۔ ظاہر ہے میرا تبصرہ کسی بھی طرح سے حرف آخر نہیں  ہے اور درحقیقت ہو بھی نہیں سکتا کیوں کہ کوئی بھی عقل کل نہیں ہے سوائے ذات  باری تعالیٰ کے۔ اس لیے میرے تبصرے پر جہاں جہاں تنقید بنتی ہے ضرور کریں ۔

عوامی ایکشن کمیٹی کا منشور حقوق، مذاکرات  اور معائدہ

عوامی حقوق کی موجودہ تحریک کا آغاز مئی 2023 میں راولاکوٹ راولاکوٹ افسر کالونی کے باہر آٹا سپلائی ڈپو سے ہوا تھا۔ اس عوامی ایکشن کمیٹی  کے بانی عمر نذیر صاحب کے بقول احتجاج کا  ابتدائی یا پیدائشی نکتہ  آٹے کی قیمتوں میں اضافے کے بعد آٹا ڈپو والوں کی طرف سے پرانا آٹا نئی قیمتوں پر فروخت کرنے کی ضد تھی۔ اس احتجاج کے شروع میں صرف چند دوکاندار ہی اس کا حصہ بنے تھے۔ تاہم بعد میں شرکاء کی تعداد میں اضافہ ہوا اور مطالبات میں بجلی بلوں میں شامل بقول عمر نذیر   غیر متعلق اور ناجائز ٹیکسوں  اور اشرافیہ کی مراعات کے خاتمے کے مطالبات بھی شامل کر لیے گئے۔  اس دھرنے کے تحریک بن کر  پونچھ  اور میرپور ڈویژن کے دیگر شہروں میں پھیل جانے  کے بعد کوٹلی میں  عوامی ایکشن کمیٹی کے پہلے مشاورتی جرگے    کے سٹیج پر ان تین مطالبات کا ہی بینر لگا ہوا تھا۔ یہاں  بجلی بلوں کے بائیکاٹ کا اعلان ہونے کے بعد یہ تحریک بتدریج عام آدمی کی تحریک بن کر مظفرآباد ڈویژن میں بھی پھیل  گئی ۔  16 اور 17 ستمبر 2023 کو مظفر آباد  میں گرانڈ مشاورتی اجلاس میں اس وقت تک آزاد کشمیر کے مختلف علاقوں میں قائم عوامی ایکشن کمیٹیوں کو یک جا کر کے اس کا نام ‘جموں کشمیر جائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی’  رکھ کر  ہر ضلعے سے تین نمائندوں پر مشتمل تیس رکنی ‘ کور کمیٹی’   پر اتفاق کیا گیا اور مطالبات کی فہرست میں اضافہ کیا گیا۔ ان مطالبات پر آزاد کشمیر حکومت کے ساتھ  مذاکرات کے مختلف دور ہوئے۔ مطالبات تسلیم کرنے کے باوجود حکومت کی طرف سے عمل درآمد نہ کرنے کے  بعد مارچ 2023 میں  11 مئی 2024 کو پہلی عوامی ہڑتال اور لانگ مارچ کا اعلان کیا گیا۔  مارچ کے اعلان کے بعد دو ماہ کے دوران آزاد کشمیر حکومت نے صورت حال کو مثبت انداز میں  بگڑنے سے بچانے کی بجائے جارحانہ اور  دھمکی  آمیز رویہ آپنایا ۔ مجھے آج بھی وزیر اعظم  صاحب کی وہ بات یاد ہے کہ ‘ پل اور سڑکیں فیس بک پر نہیں بند ہوتیں۔ اس کے لیے باہر نکلنا پڑتا ہے’ ۔ 11 مئی  2023 سے پہلے بھی مظفر آباد کے لیے رینجرز اور پاکستان سے پولیس کے دستے منگوائے گئے تھے۔ سوشل میڈیا پر حکومت آزاد کشمیر کی طرف سے ان فورسز کی درخوات کے گردش کرنے کے باوجود بعد ازاں حکومت  اس بات سے مکر گئی کہ انہوں نے ایسی کوئی درخواست کی تھی۔ بہر حال آزاد کشمیر کی اس وقت تک کی تاریخ کا وہ سب سے بڑا مارچ ہوا اور تینوں بڑے  مطالبات حکومت پاکستان نے اپنے اداروں کے ذریعے مداخلت کر کے مان لیے۔ تاہم اس کے بعد دیگر وعدے جو بقول کمیٹی قائدین حکومت آزاد کشمیر نے شہدائے حقوق کے خاندانوں کو ملازمتیں  اور مظاہرین پر جھوٹے مقدمات وغیرہ پر عمل درآمد نہ کیا۔ کمیٹی  کی پہلی جیت ، خاص طور سے بجلی اور آٹا سستا ہو جانے کے بعد اس کی وسعت اور گہرائی  کے ساتھ ساتھ مطالبات میں بھی  اضافہ ہوتا رہا۔ ایسے میں مزید مذاکرات کے بعد   حکومت نے کوئی درجن بھر مطالبات کے چارٹر کو تسلیم کرتے ہوئے  سروسز  نوٹیفکیشن  بھی جاری کر دیے لیکن عمل درآمد نہ کروایا گیا۔ الٹا ایک صدارتی آرڈینینس جاری کر دیا کہ  سیاسی جماعتوں کے سوا کوئی عوامی حقوق کی بات نہیں کر سکتا ۔ اس کے خلاف پھر مظاہرے شروع ہو گئے ۔ صدارتی فرمان واپس لے لیا گیا۔  ایکشن کمیٹی نے منظور شدہ مطالبات پر عمل درآمد نہ کیے جانے کے خلاف  جنوری 2025 میں عوامی ہڑتال کی کال دی تو حکومت نے وقت مانگا ۔ کمیٹی نے حکومت کو چھ ماہ کا وقت دیا۔ لیکن اس دوران   مطالبات پر عمل درآمد کرنے یا کمیٹی کے ساتھ بیٹھ کر  ممکن اور ناممکن یا عمل درآمد کے لیے درکار وقت وغیرہ پر بات کرنے کی بجائے حکومت نے پھر جارحانہ رویہ اختیار کر لیا ۔ مئی 2025 میں شہدائے حقوق و وطن کی یاد میں کیے جانے والے بڑے جلسے میں اڑتیس نکات پر مشتمل چارٹر آف ڈیمانڈ کا اعلان کیا اور باضابطہ طور پر  حکومت کی خدمت میں پیش کیا۔ تاہم حکومت کی طرف سے کوئی جواب نہ ملنے کے بعد ایکشن کمیٹی نے    29 ستمبر کو ہڑتال کا اعلان کر دیا۔ یہ  کال بھی ڈیڑھ ماہ پہلے دے دی گئی تھی اور حکومت کو 20 ستمبر تک مذاکرات بحال کر کے معاملات کو بات چیت کے ذریعے حا کرنے کا وقت دیا گیا تھا۔ لیکن حکومت کی طرف سے دھونس دھمکی کا رویہ جاری رہا۔ آخر کار پاکستان سرکار کی طرف سے پھر مداخلت ہوئی  اور کمیٹی کے تمام مطالبات کل اور یا جزوی طور پر مان لیے جانے کے بعد آزاد کشمیر کی تاریخ کی عظیم ترین عوامی ہڑتال اور عوامی جلوس اور احتجاج اختتام کو پہنچے۔

ابلاغ بندی کی وجہ سے معائدے کے بارے میں بھی بہت سی افوائیں پھیلیں کہ مطالبات نہیں مانے گئے بلکہ کمیٹی کو ٹرخا دیا گیا ہے، سازش کر کے آزاد جموں کشمیر تعلیمی بورڈ کو جو کہ میرپور میں تھا ختم کردیا گیا ہے ،   اس کو تقسیم کر کے  مظفر آباد اور پونچھ میں منتقل کر دیا گیا ہے  وغیرہ۔ بہر حال ابلاغ  سے پابندی اٹھا لینے کے بعد کمیٹی کے مختلف رہنماؤں کی تقاریر اور وضاحتیں سوشل میڈیا پر چلنے لگیں اور معائدہ بھی گردش کرنے لگا۔  سچی بات یہ ہے کہ چند روز تک اس معائدے کو غور سے دیکھنے اور سمجھنے   کی سکت ہی نہیں تھی۔  بے تحاشا معلومات ( ڈیٹا)  کو چھاننے  بنانے ( پراسیس) کرنے کے لیے  دماغ   میں گنجائش ہی محسوس نہیں ہو رہی تھی۔

معائدہ

آزاد جموں کشمیر کونسل کے صدر پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شرف کی طرف سے سابق  پاکستانی وزیر اعظم پرویز اشرف کی سربراہی میں  قائم کردہ مذاکراتی کمیٹی  میں شامل پاکستانی اور آزاد کشمیری حکومتی نمائندوں نے 03 اکتوبر کر  جائنٹ عوام ایکشن کمیٹی کے ساتھ مذاکرات کیے۔

ان مذاکرات کی تصاویر میں مختلف لوگوں کی موجودگی نظر  آتی ہے لیکن معائدے کی جو  نقل  انگریزی زبان میں جاری کی گئی اس کے مطابق  مذاکرات کرنے والوں میں سات نمائندوں کا تعلق پاکستان حکومت ، دو کا آزاد کشمیر حکومت اور تین کا جائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے ساتھ تھا۔

تفصیلی بات چیت ، بحث  مباحثے  اور شوکت نواز میر کے کوہالہ تک ایک دو پھیروں کے بعد  اس کمیٹی نے  ایکشن کمیٹی کے چارٹر آف ڈیمانڈ میں موجود نکات ، اضافی نکات  اور مارچ میں تشدد کے واقعات ، ہلاکتوں اور زخمیوں سے متعلقہ کاروائیوں اور امداد و ملازمتوں  سمیت کمیٹی کے چارٹر آف ڈیمانڈ میں شامل مطالبات  پر  فیصلے کیے۔ تیسرا فیصلہ  آزاد   کشمیر میں دو اضافی تعلیمی بورڈ وں کے قیام  ، چوتھا منگلا ڈیم متاثرین کے زیلی کنبہ جات  کو زمینوں کے قبضے ، پانچواں فیصلہ   بلدیاتی نمائندوں بارے  عدالتی فیصلے پر عمل درآمد ، چھٹا صحت کارڈ کے اجراء، ساتواں  سب ضلعی ہسپتالوں میں مرحلہ وار سی ٹی سکین اور ایم آر آئی مشینوں کی فراہمی، آٹھواں  آزاد کشمیر میں بجلی نظام کی بہتری، نواں  وزراء اور سیکرٹریوں  کی تعداد میں کمی ،  دسواں احتساب بیورو اور اینٹی کرپشن اداروں  کا ادغام ، گیارواں ٹنلوں کی تعمیر،  بارہواں آئینی اور قانونی ماہرین کی اعلیٰ سطحی کمیٹی کے قیام سے متعلق ہے۔

 ان درجن فیصلوں کے علاوہ   13 اضافی نکات  بھی ہیں

21 ستمبر  سے  2 اکتوبر تک ہونے والے تشدد کے واقعات ہائی کورٹ کے جج کو ریفر کیے جائیں گے۔ میرپور میں انٹر نیشنل ائیرپورٹ کے قیام بارے ایک سال میں  ٹائم لائن   کا اجر، زمینوں کے تبادلوں پر ٹیکس میں کمی، ہائیڈل پروجیکٹوں کے بارے میں 2019 کے  عدالتی فیصلوں  پر عمل درآمد ، دس اضلاع میں گریٹ واٹر سپلائی سکیموں  کا عملی جائزہ، ضلعی ہسپتالوں میں اپریشن تھیٹر اور بچوں کےلیے نرسریوں  کی فراہمی، پلوں کی تعمیر، ایڈوانس ٹیکسوں میں کمی، تعلیمی اداروں میں داخلوں کے لیے اوپن میرٹ ، ڈڈیال کی دو کالونیوں کے لیے بجلی اور ملکیتی حقوق ، دو اور تین اکتوبر کو راولپنڈی اور اسلام میں آباد میں گرفتار کشمیریوں کی رہائی ۔۔۔ علاوہ  ازیں آزاد کشمیر حکومت کی طرف سے 12 اگست 2024 کو  منظور شدہ مطالبات  بھی اس معائدے کا حصہ بن چکے ہیں۔ اس کے مطابق 9 مئی 2023 سے لے کر 4 اکتوبر 2025 تک ایکشن کمیٹی ارو عوام الناس میں سے کسی کے خلاف  کاٹی جانے والی تمام ایف آئی آرز  کا خاتمہ، ایکشن کمیٹی کے جلسوں میں  شرکت کرنے پر ملازمت سے  معطل کیے جانے والوں کی بحالی، اظہر شہید کے بھائی کی ملازمت ، منگلا ڈیم میں ڈوبنے والی املاک کے بجلی بلوں کا خاتمہ، سڑکوں کی تعمیر ، محکمہ برقیات کے میٹروں کی خریداری کے لیے ای ٹینڈرز، آٹے کے معیار  اور  فون سروس کی بہتری ، سب اضلاع میں کچڑے کے پلانٹس ، طلبا تنظیموں کی بحالی کے لیے ضابطہ اخلاق کی تیاری، اور  مقامی پرائیوٹ کالجوں و سکولوں اور تجارتی اداروں کے لیے بجلی نرخوں میں کمی  کے فیصلے شامل ہیں۔

جیسا کہ میں نے بھی پہلے کئی بار لکھا اور اب پاکستان سے آئے ہوئے سیاست  دانوں اور کئی صحافیوں نے بھی  لکھا کہ مطالبات میں سے ایک بھی آئین سے ماوراء نہیں  تھا۔ مراعات اور ریاستی مہاجرین مقیم پاکستان کی آزاد کشمیر اسمبلی میں نشستوں سے متعلق مطالبات کے سواء  دیگر تمام مطالبات درحقیقت وہ ہیں جو عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی کسی بھی حکومت کے بنیادی فرائض اور ذمہ داریاں اور عوام کے بنیادی حقوق میں شمار  ہوتے  ہیں۔ صحت، تعلیم، ٹرانسپورٹ، بجلی ، پانی کی ریاستی وسائل کے مطابق فراہمی حکومت کی بنیادی  اور لازمی ذمہ داریوں میں آتے ہیں۔ یہ بنیادی حقوق  عوام کی اکثریت کو میسر ہوں تو پھر حکومتی ٹھاٹھ باٹھ پر ہو سکتا ہے کچھ لوگ تنقید کریں لیکن عوام کی اکثریت میں اس قدر بیزاری اور غیض و غضب نہیں پیدا ہو سکتا کہ جان و مال کی پروا کیے بغیر سڑکوں پر نکل آئیں ۔ کئی اطراف سے اس طرح کے  تبصرے آرہے ہیں کہ عوام کو حقوق کے نام پر بے وقوف بنایا گیا ہے اور اصل مقصد ‘آزاد کشمیر پر قبضہ پکا کرنا ہے’  ۔ اس کی دوسری انتہا پر یہ تبصرہ بھی سننے کو مل رہا ہے کہ’ حقوق کے بہانے پاکستان  کا قبضہ ختم کرنا ہے ‘ ۔   مقامی سطح پر یہ تبصرہ بھی پڑھنے کو ملا کہ ‘حقوق تو بہانہ تھا۔ میرپور بورڈ اصل میں نشانہ تھا’۔ کمیٹی پر کچھ حلقوں کی طرف سے یہ تنقید کی جا رہی ہے کہ  36 مطالبات تو 28 ستمبر کو پاکستان کے دو وزراء کے ساتھ مذاکرات میں مان لیے گئے  تھے  اور دو پر مزید بات چیت کی ضرورت کا کہا تھا ، پھر ایکشن کمیٹی نے تب  اس پر رضامندی کیوں نہ ہوئی ؟  اس وقت مذاکرات  کے بعد ان میں  شامل وزراء نے  جو بیان دیا اس میں انہوں نے کہا کہ باقی مطالبات مان لیے ہیں لیکن دو مطالبات پر ہم یہاں بیٹھ کر فیصلہ نہیں کر سکتے کیوں کہ ان کا تعلق آئین و قوانین میں تبدیلیوں سے ہے۔ لیکن معلوم نہیں کس کے کہنے پر کمیٹی والے یہ بات نہیں مان رہے۔  لیکن ایکشن کمیٹی والوں کاموقف  تھا  کہ ان مذاکرات میں سب زبانی زبانی تھا  کوئی تحریری ذمہ داری یا منظور شدہ مطالبات پر عمل درآمد کا کوئی میکنزم یا ٹائم لائن نہیں تھی۔ مراعات اور نشستوں کے معاملات پر کوئی راستہ  بھی نہیں سنجیدگی سے  نکالنے کی کوشش نہیں کی گئی تھی۔

میرے خیال میں   اس وقت یہ توقع کی جا رہی تھی کہ اب ایکشن کمیٹی کی کال پر زیادہ لوگ نہیں نکلیں گے کیوں کہ لوگ کہیں گے 36 مطالبات مان لیے گئے ہیں  اب صرف  ریاستی باشندوں مقیم پاکستان اور  اشرافیہ کی مراعات  کے مسائل پر لوگ نہیں نکلیں گے۔ کیوں کہ مذاکرات کے ساتھ ساتھ پاکستان سے رینجرز اور پولیس کے دستے بھی آ چکے تھے۔ اب  ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہوا۔ لوگ  نکلے ۔ ہر شہر، قصبے اور گاؤں سے نکلے۔ اتنی   بڑی تعداد میں جس کی آزاد کشمیر کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ میرے خیال میں اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگوں میں آزاد کشمیر کی حکومت و سیاستدانوں پر اعتبار نہ ہونے کے برابر ہے۔ پاکستان  سے آئے ہوئے وزرا جن کا تعلق مسلم لیگ نون سے تھا ان پر بھی اعتبار کی واضح کمی پائی جاتی ہے۔ دوسری وجہ یہ کہ مئی 2024 میں تو ایکشن کمیٹی صرف ایک نام تھا اور سوشل میڈیا  پر کال کے جواب میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد  نکل آئی تھی کیوں کہ تین میں سے دو مطالبات کا تعلق براہ راست لوگوں کی روزمرہ زندگی سے تھا ۔ خاص طور سے بجلی کے بلوں نے  بے وسیلہ اور سفید پوش  لوگوں کی زندگیاں اجیرن کر رکھی تھیں۔  لیکن اب کی بار تو گاؤں گاؤں میں ایکشن کمیٹیاں بن چکی تھیں اور ایکشن کمیٹی کی  قیادت پر اندھا اعتماد تھا۔  ایک تو ہوتا ہے عام آدمی اور ایک ہوتا ہے بالکل ہی عام آدمی، بالکل ہی عام آدمی تک  کمیٹی کے ساتھ جڑا ہوا  نظر آ رہا تھا۔یہ انتہائی  افسوس ناک امر ہے کہ کہیں کہیں تشدد کے واقعات پیش آئے جن میں دس انسانوں کی جانیں گئیں اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔

چند سوالات

  تاہم  اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ  عظیم ہڑتال  و  مارچ  اور معائدے کے بعد کیا ہو نے کے امکانات نظر آ رہے ہیں؟ اور ایک مشاہدہ کار کی حیثیت سے  میرے خیال میں کیا ہونا چاہیے؟

یہاں  بات  تعلیمی بورڈ کے مسئلے  سے شروع کرنا  ضروری  معلوم ہوتا ہے کیوں کہ اس مسئلے کو لے کر نہ  صرف میرپور ایکشن کمیٹی کے قائدین مخمصے میں پڑ گئے ہیں بلکہ انتخابی سیاست کے رہنما جن کے بارے میں ہر کوئی یہی سمجھ رہا تھا کہ وہ کم از کم عوامی حمایت سے محروم ہو چکے ہیں وہ بھی  اس مسئلے  کے ذریعے واپسی کے راستے بنا رہے ہیں۔ لیکن   اس مسئلے پر بات کرنے سے پہلے دو باتیں ضروری ہیں۔ ایک یہ کہ اس ایک مسئلے کو لے کر کمیٹی کے دیگر تمام مطالبات کو کم از کم اصولی اور تحریری طور پر تسلیم کر لیے جانے اور ایکشن کمیٹی کی طرف سے بے مثال عوامی  حقوق کا شعور پھیلانے  اور پر امن تحریک چلانے کا ڈسپلن لانے  کو کھو کھاتے نہیں ڈالا جانا چاہیے۔  کیا آزاد کشمیر میں دو سال قبل تک یہ کوئی تصور بھی کر سکتا تھا کہ عوام برادریوں ، علاقوں، جماعتوں اور نظریات وغیرہ سے ماوراء  اپنے حقوق کے لیے  اس طرح سے آپس میں جڑ سکتے ہیں؟   ان دو سالوں میں آزاد کشمیر کا پورا خطہ اور اس کے حوالے سے تارکین وطن آزاد کشمیری ایک حقیقی ذہنی انقلاب سے گزرے ہیں ۔ لہذا کمیٹی کے مخالفین تو ظاہر ہے چاہیں گے کہ کمیٹی  کے بارے میں لوگ سازشی عینک سے دیکھیں لیکن اس کے حامیوں کو اس مسئلے پر اگراپنا تنقیدی نقطہ نظر دینا بھی ہے تو دیگر کامیابیوں کو  بھولنا نہیں چاہیے۔

تعلیمی بورڈ  کے مسئلے پر اس وقت تک جو  تحفظات سامنے آئے ہیں    مختلف لہجوں اور انداز میں  وہ یہ ہیں ۔۔۔

سب سے بڑا اعتراض اور سوال اس بارے میں یہ ہے کہ جب یہ مطالبہ اڑتیس نکات پر مشتمل چارٹ آف ڈیمانڈ میں شامل ہی نہیں تھا ، نہ کبھی کسی نے کسی جلسے یا سوشل میڈیا پوسٹ میں اس کا  ذکر تک نہیں کیا تو پھر آچانک سے یہ کیوں اور کیسے تسلیم شدہ مطالبات میں شامل ہو گیا؟

یہ حقیقت ہے کہ اب تک آزاد کشمیر میں  صرف ایک ہی بورڈ  تھا ۔ میرپور میں ۔  آزاد کشمیر تعلیمی بورڈ ۔ اب  اگر  معائدے میں تسلیم کیے جانے کے بعد اس پر عمل درآمد ہوا تو تین ہو جائیں گے۔  آزاد کشمیر تعلیمی بورڈ میرپور، پونچھ اور مظفرآباد۔  سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے اعداد و شمار کے مطابق اڑتالیس ہزار طلبا اور ملازمین بھی  اب  فی ڈویژن  تعداد کے حساب سے تقسیم ہو جائیں گے۔ خدشہ یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس کے نتیجے میں طلباء کی فیسیں بڑھ جائیں گی ۔ تعلیم کا معیار بھی گر جائے گا کیوں کہ ہر بورڈ پاکستان میں کوٹے کی نشستیں حاصل کرنے کے لیے  زیادہ نمبر دے گا ۔  میرپور کے کچھ  سوشل میڈیا انفلیونسرز کا خیال ہے کہ   یہ میرپور کے خلاف سازش کی  گئی ہے ۔ان کا دعویٰ ہے کہ یہ میرپور ضلع  سے کور کمیٹی ممبران  کی  کوتاہی کا نتیجہ ہے ۔

جہاں تک یہ سوال ہے کہ بورڈ کا مطالبہ چارٹر آف ڈیمانڈ میں نہ ہونے کے باوجود کیسے منظر ہو گیا؟ میرے خیال میں یہ ایک جائز اور ضروری سوال ہے ۔ اس کا جواب  ظاہر ہے کور کمیٹی کے ارکان خاص طور سے مذاکرات میں شامل افراد دے سکتے ہیں ۔ لیکن مجھ تک جو معلومات امجد صاحب کی زبانی پہنچی ہیں اس کے مطابق وہ  خود تو مذاکرات میں جب شامل ہوئے تب تک  ان سب مطالبات پر اتفاق ہو چکا تھا لیکن مراعات اور نشستوں  کے معاملات سلجھانے کے لیے بات چیت جاری تھی۔ ان کا خیال ہے کہ چوں کہ مذکورہ دو معاملات پر  من و عن  عمل کرنا ممکن نہیں تھا اس لیے اضافی مطالبات بھی تسلیم کر لیے گئے جن میں تعلیمی بورڈ  ز اور شاید  زیلی کنبہ جات اور ڈڈیال کالونیوں کے معاملات شامل تھے۔ مجھے امید ہے کہ شوکت نواز صاحب  اس اعتراض کا جواب دے کر خدشات دور کرنے کی ذمہ داری پوری کریں گے۔

دوسرے جو خدشات ہیں  نئے بورڈز قائم ہونے  کے اثرات کے بارے میں،   ان پر زیادہ معقول اور حقیقت پر مبنی  جواب تو  بورڈ اور تعلیم کے ماہرین ہی دے سکتے ہیں ، تاہم میرے خیال میں اس کا موازنہ تین سے دس اضلاع کے قیام  اور ایک سے تین چار یونیورسٹیاں بننے سے کیا جانا چاہیے کہ فائدے کیا ہوں گے اور نقصانات کیا  ؟ انسان کی انفرادی زندگی کی طرح   معاشرے کا ہر پہلو بھی تغیر پذیر رہتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے حالات  اور بڑھتی ہوئی ضروریات کے نتیجے اور جواب میں ان کو مینیج کرنے کے طریقوں، آلات اور وسائل و ہنر مندیوں میں تبدیلیاں لانا ناگزیر ہوتا ہے۔ یہاں مسئلہ میرے خیال میں بورڈز کے قیام کا نہیں بلکہ طریقے سے ہے۔  بلکہ یہ پوری تحریک ہی آزاد کشمیر کے انتظامی اور حکومتی طور طریقوں کے   اپنے گرد و پیش بدلتے ہوئے حالات و ضروریات اور تقاضوں سے چشم پوشی اور زبان بندی اور ٹرکاؤ پالیسی کا نتیجہ ہے ۔

میرپور  میں یہ بھی ہو رہا ہے  اور شاید دیگر اضلاع میں بھی ایسا ہو رہا ہو،  کی فلاں فلاں انتہائی اہم مسائل تھے ان کو چارٹر آف ڈیمانڈ میں کیوں شامل نہیں کیا گیا؟  اس بات میں کوئی شک نہیں ہر ضلعے میں کور کمیٹی کے ممبران کے مقابلے میں بہت ہی قابل، تجربہ کار اور مدبر  شہری موجود ہیں جو  معاشرے میں انتہائی اہم اور مفید کردار ادا کر رہے ہیں یا کرتے رہے ہیں اور اب اس سارے علم اور تجربے کے ساتھ ریٹائرڈ ہیں ۔ تاہم ان کی ایکشن کمیٹی کے ساتھ جڑت نہ پیدا ہو سکی کیوں کہ ایکشن کمیٹی کے مطالبات اور شاید انداز ان کو اجنبی لگتا تھا ۔ لگنا بھی چاہیے کیوں کہ ایکشن کمیٹی کے ساتھ جڑنے والوں ، اس کی قیادت کرنے والوں اور ان کے سماجی دائرے الگ الگ چلے آ رہے ہیں ۔  تاہم ٹھیک اس لمحے ایکشن کمیٹی والوں کو بھی اور ان معززین شہر کو بھی جو حقیقی معنوں میں اپنے شہر اور آزاد کشمیر کو تباہی کے راستے پر لڑھکتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتے مل بیٹھنا چاہیے۔ میرے خیال میں ہر شہر اور  قصبے کی ایکشن کمیٹی کی قیادت کو  مقامی سطح  پر ایسے تجربہ کار افراد کے ساتھ بیٹھنے کی کوششیں کرنی چاہیں اور ان کے علم و تجربے   سے مستفید ہونا چاہیے اور ان  سینئر شہریوں کو بھی ایکشن کمیٹی کے سرگرم کارکنان کی باتوں کو  ان کے انداز اور الفاظ سے پرے سننا اور سمجھنا چاہیے ، اور درست سمت ان کی رہنمائی کرنی چاہیے۔ کیوں کہ بات صرف موجود نظام اور اداروں کو ان کے وہ فرائض سر نجام دینے  کے لیے باعمل ( فنکشنل) بنانا ہے جس کا وہ حلف لیتے ہیں اور جس کی ان کو تنخواہ ملتی ہے۔ یوں مسئلہ مقامی انتظامی اور حکومتی اداروں، سینئر شہریوں اور ایکشن کمیٹی کے نمائندگان کے مل بیٹھ کر اپنے اپنے علاقے کے حقیقی مسائل اور ان کو حل کرنے کے  لیے درکار وسائل و اقدامات کی نشاندہی ، اور اپنے اپنے شہر و قصبے کو  یہاں بسنے والے ہر ایک فرد کے لیے بلا تفریق  صاف ستھرا، منصفانہ اور خوشحال بنانا ہے۔ میرے خیال میں   اس تحریک کو طاقت کے زور پر کچلنے کے  یا  اس عوامی جڑت سے کوئی زبردستی والا  عوامی  انقلاب لانے  کے   نتائج اچھے نہیں ہوں گے ۔ کیوں کہ  جہاں تک عوام کا تعلق ہے یہی انقلاب ہے ۔ اب  مسئلہ اس کو سنبھالنا ہے جس کے لیے  نظام کو پوری طرح سمجھ کر  پر امن  عوامی سیاست ہی بہترین راستہ ہے ۔۔۔  معائدے پر عمل درآمد ہی صورت حال کو بہتری کی طرف لے جا سکتا ہے۔ کمیٹی کیسے اس صورت حال  میں مثبت ، تعمیری اور صحت مند کردار ادا کر سکتی ہے  اور ارباب اختیار کیسے اس صورت حال میں اپنا مثبت اور تعمیری کردار ادا کر سکتے ہیں ، اس پر سب کو سوچ وچار کرنے کی ضرورت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس پر میری رائے اور سوچ  اگلی قسط میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پس نوشت:

سوشل میڈیا اور زمین پر  یہ نظر آ رہا ہے کہ ایکشن کمیٹی سیاسی اعتبار سے  اپنی آخری حد تک پہنچ گئی ہے ۔ درحقیقت جیسا کہ پہلے لکھا تھا ایکشن کمیٹی کی طرف سے کشمیری مقیم پاکستان کی نشستوں کے خاتمے کا مطالبہ ایکشن کمیٹی کی  سکت اور مینڈیٹ سے باہر  اور اوپر کا تھا۔ ان نشستوں کے طریقہ انتخاب، ان کو ملنے والے ترقیاتی فنڈز ، کوٹے ، آزاد کشمیر سے متعلقہ امور پر ووٹ کے حق وغیرہ  کے خاتمے کا مطالبہ کیا جاسکتا تھا کہ اس کا تعلق آزاد کشمیر کے عوام کے حقوق سے بنتا ہے لیکن ان کے خاتمے کا سوال اس لیے مسئلہ کشمیر سے جڑا ہوا ہے کہ ان کے اجداد کا تعلق ریاست جموں کشمیر کے بھارتی مقبوضہ علاقوں سے ہے

 


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

Skip to content