Skip to content

عام بات چیت اور لکھنے پڑھنے میں مشکلات (ڈیسلیکسیا) کا شکار بچے“ تحریر:آرسی رؤف

تحریر:آرسی رؤف

”نالائق کہیں کا،سمجھا سمجھا کہ تھک گئی ہوں،لیکن ہمیشہ کاف کو گاف لکھے گا،ت کو د،اب میں خاک سمجھوں کہ کیا لکھا ہے جناب نے۔“

کہہ کر اردو کی استانی نے اس کی کاپی کو زور سے زمین پر پٹخا۔ جابجا کاپی پر سرخ دائرے موجود تھے۔

بچے  نے ڈبڈباتی آنکھوں سے جونہی کاپی اٹھانے کے لئے خود کو جھکایا اس کی آنکھوں سے ایک سیال سا بہہ کر اس کے رخساروں سے ہوتا ہوا قطروں کی صورت زمین میں جذب ہو گیا۔

پیریڈ کا وقت ختم ہو چکا تھا ،  اس بچے کے دل اور ذہن پر کیا گزری،  استانی صاحبہ نےاسے چنداں نظر انداز کرتے ہوئے اپنا پرس اٹھایا اور اپنے جوتے کی  اونچی ایڑی سے ٹک ٹک کرتی کمرہ جماعت سے چل دیں۔

 کیا کبھی آپ نے غور کیا ہے ہمارے اردگرد  بیشتر بچوں کو کند ذہن،غبی یا نالائق کہہ کر  احساس کمتری کا شکار کر دیا جاتا ہے؟

حالانکہ وہ دوسرے کئی بچوں کہ نسبت  زیادہ ذہین  ہوتے ہیں۔یوں سمجھ لیجئے کہ دراصل یہ کند ذہن، غبی یا نالائق نہیں بلکہ ان کا ذہن ایسی ذہنی الجھن کا شکار ہوتا ہے جس کی بدولت دماغ کا میکنزم پیغام کو بدن کے مختلف حصوں کو عام انسانوں کی طرح پہنچا نہیں پاتا۔ انہیں حروف کو پہچاننے میں مشکل پیش آتی ہے۔باوجود اس کے کہ ان کے دماغ نے ان حروف کو پہچاننے کی تگ و دو میں ایک عجیب ہلچل مچائی ہوتی ہے ، سامنے والا شخص یہ سمجھتا ہے کہ اسے سبق یاد ہی نہیں یا اس نے سبق کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔

دراصل یہ بچے عسر قرات و تلفظ  جسے انگریزی میں  ڈیسلیکسیا کہتے ہیں کا شکار ہیں۔ڈیسلیکسیا یا عسر قرات و تلفظ؛ ایک ایسی ذہنی کیفیت جس کی بناء پر انہیں سیکھنے کے عمل میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔

بعض ماہرین کے نزدیک دنیا بھر میں  پانچ سے دس فیصد جبکہ چند ایک کا کہنا یہ ہے کہ سترہ فیصد لوگ اس ذہنی کیفیت سے دوچار ہوتے ہیں۔

 دماغی الجھن کا شکار یہ بچے جس قدر جلدی پہچان لئے جاتے ہیں ان کے مسائل کو سمجھ کر ان کی معاونت آسان ہو جاتی ہے۔

ایک ماں سے زیادہ کوئی بچے کا خیر

خواہ نہیں ہو سکتا۔اگر صحیح آگاہی میسر ہو تو وہ ایسے بچے کی پہچان کر سکتی ہے۔یوں تو ہر بچے کو ہی اوائل میں سمتوں کے تعین،رنگوں کو ایک دوسرے سے ممیز کرنے،یا مختلف آوازوں کو پہچاننے میں دقت کا سامنا ہو سکتا ہے لیکن عسر قرات و تلفظ سے دو چار (ڈسلیکسک) بچے اس کا زیادہ شکار رہتے ہیں۔آج کل ڈھائی سے تین سال کے بچے  اسکولوں میں بھیج دئے جاتے ہیں  لہذا تشخیص میں اساتذہ اور والدین دونوں معاون ہو سکتے ہیں۔جان لیجئے

اگر

بچے پڑھنے سے کنی کترائیں یا  انکار کریں،

 باآواز بلند پڑھتے ہوئے اردو یا انگریزی حروف تہجی اور ہندسوں  کو پہچان نہیں پائیں،

چڑچڑے پن، جھنجھلاہٹ اور غصے کا اظہار کریں،

تفویضی کام کو ازبر کرنے سے گھبرائیں يا دوسرے بچوں کی نسبت طویل وقت لیں،تو سمجھ جائیے وہ عسر و قرات و تلفظ(ڈسلیکسیا )کا شکار ہیں۔

اب انہیں بھرپور توجہ کی ضرورت ہے نا کہ ڈانٹ ڈپٹ یا جھاڑ پلانے کی۔

تحقیقات کے مطابق اگر اولین تین چار  سالوں  میں بچے کی تشخیص کر لی جائے تو وہ بہت جلد اگلے چند سالوں میں  نارمل بچوں کی طرح اپنے ان مسائل پر قابو پانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔یہ تو درست ہے کہ  جوں جوں تشخیص میں دیر ہوتی جائے گی بچے کے لئے ذہنی مسائل کے ساتھ نفسیاتی اور معاشرتی مسائل میں اضافہ ہوتا جائے گا؛البتہ  وہ دوسرے بچوں کی نسبت خود کو کم تر متصور کرنے لگے گا،اور دوسروں سے رابطہ رکھنے میں ہچکچائے گا۔

بنیادی طور پر ہمارے دماغ کے چار حصے ہوتے ہیں۔

عمومی طور پر ہمارے دماغ کا بایاں حصہ زبان سیکھنے کے تمام مراحل کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ دایاں حصہ چیزوں کی جسامت،فاصلہ،سمت وغیرہ کے تعین کا ذمہ دار ہوتا ہے۔تیسرا حصہ جسے کورپس کولیسم کہتے ہیں یہ ان دونوں حصوں کے درمیان ربط قائم کرنے کاباعث ہے جو کہ بات چیت کے عمل میں معاون ہوتا ہے۔

دماغ کا چوتھا حصہ سیریبیلم ہے جس کے تحت کسی بھی کام میں  توازن اور مختلف جسمانی حرکات وغیرہ سرانجام پاتی ہیں۔

عسر تلفظ و قرات(ڈیسلیکسیا )کا شکار بچوں میں یہ سب الٹ ہو جاتا ہے ۔چونکہ دماغ کا بایاں حصہ اتنے موثر طور پر اپنے امور کی انجام دہی نہیں کر رہا ہوتا اس کے ازالے کے طور پر دایاں حصہ زیادہ فعال ہو جاتا ہے اورنتیجتاً ایسے بچوں کی تخلیقی صلاحیتیں دوسرے بچوں کی نسبت عروج پر ہوتی ہیں.اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اولاً ایسے بچوں کی ذہنی الجھنوں کو،حتی الامکان کیسے  کم یا دور کیا جائے،ثانیاً  ان میں موجود تخلیقی صلاحیتوں کو ڈھونڈ نکالنے کی کوشش جاری رکھی جائے۔

یوں  تو یہ تشخیص  ہر سمجھ بوجھ رکھنے والی ماں بآسانی کر سکتی ہے؛ لیکن ماہر نفسیات کو دکھانا بہت ضروری ہے۔ جس کے ساتھ مقرر کردہ نشستوں کے بعد ان میں خاصی بہتری   آجاتی ہے۔اگر دوا کی ضرورت پڑے تو طبی علاج بھی ساتھ ساتھ جاری کیا جاتا ہے؛ البتہ کچھ  اقدام گھرمیں اور اسکولوں میں  کئے جا سکتے ہیں۔

مثلاً ایک والدہ نے ایسے ہی بچے کو حروف کی صحیح شکل سے روشناس کروانے کے لئے اور ان کی آوازوں کے فرق  کو سمجھانےکے لئےاپنے لاؤنج کی  دیواروں  پر وہ تمام حروف اعداد اور اشکال ایک سے زیادہ تعداد میں چسپاں کر دئے جن کو بچہ الٹا لکھتا تھا یا سمجھ نہیں پاتا تھا۔اس کا یہ فائدہ ہوا کہ بچے کی ان پر نظر پڑتی رہتی۔وقتا فوقتا والدہ بچے سے ان کی جانب اشارہ کر کے اس سے پوچھتی رہتی کہ یہ کون سا عدد یا حرف ہے۔ یوں بچہ رفتہ رفتہ  اپنی اس ذہنی الجھن پر قابو پاتا گیا۔ اسی طرح دائیں بائیں،اوپر نیچے کا تصور سمجھانے کے لئے بچے کو اپنی طرف پوری طرح متوجہ کیجئے اور پھر ہاتھ کے اشارے سے اسے سمجھائیے،مسلسل محنت اور لگن سے وہ سنِ  بلوغت تک پہنچتے پہنچتے یا اس سے پہلے ہی  ان مسائل سے باہر نکل آئے گا ۔

کیونکہ ایسے بچوں کو بار بار بتانے اور سمجھانے سے ان کے اذہان میں حروف،ہندسوں اور اشیاء کے خدوخال واضح ہونے لگتے ہیں۔ یوں وہ حروف کے ساتھ ان کی  آوازوں اور الفاظ کے ساتھ ان کے مفاہیم کا ربط قائم کرنے کے قابل ہو پاتا ہے۔ ایسے بچوں کو مشکل بچے ضرور کہا جاتا ہے لیکن یہ بچے نہ تو معذور ہیں اور نہ ہی پاگل،آسان لفظوں میں بس ذرا دماغ کے کچھ تار الجھ جاتے ہیں جن کی گرہیں  بھرپور اور بروقت توجہ اور شفقت بھرے رویے کی بدولت کھولنا ممکن ہے۔

عموماً دیکھا گیا ہے کہ بچے حروف تہجّی

اگر اردو کے ہوں تو ج کے خاندان کے حروف الٹا لکھتے پائے جاتے ہیں ، ی کو اکثر بچے الٹ لکھتے ہیں۔اسی طرح انگریزی حرف بی اور ڈی،پی اور کیو میں مغالطہ کھا جاتے ہیں۔گنتی خاص طور عدد تین ،سات اور نو  الٹا لکھتے پائے جاتے ہیں۔

یہی وہ وقت ہے جب بچے کی ذہنی کیفیت کا صحیح اندازہ لگا کر اس کی جھنجھلاہٹ میں کمی پیدا کی جا سکتی ہی۔ بعض  اردو حروف جیسے د اور ت میں تمیز نہ کرنے کے باعث ایک بچہ گیند کو ” گینت“ کہہ اور لکھ سکتا ہے۔اسی طرح ہتھوڑی کو ” ہدوڑی“  لکھے گا ” گدا“  اور  ”گدھا“ میں بمشکل فرق کر پائے گا۔  جب انگریزی حروف   ”کے “ اور   ” سی “ کی  آوازیں ایک جیسی یعنی ” کا “ ہیں جے اور جی کی آوازیں۔ ”جا “  ہیں تو ڈیسلیکسیا کا شکار بچے ، انہیں مختلف  الفاظ میں  مختلف انداز سے استعمال ہوتا دیکھتے ہیں تو الجھ جاتے ہیں۔ بچوں سے اسباق کی دہرائی با آوز بلند کرواتے رہنا بہت ضروری ہے، تاکہ بروقت حروف کی آوازوں، جملوں میں الفاظ کے مطالب اور تمام متن کی تفہیم کو درست انداز میں ممکن بنا جا سکے۔ بچے دو مختلف قسم کے ہجوں کو جب خلط ملط کر دیتے ہیں تو ان سے جڑے نقوش کی تصویر بھی ان کے ذہن میں واضح نہیں ہوتی۔اگر ایک بچہ انگریزی لفظ فوگ اور فروگ کے فرق کو نہیں سمجھ پاتا تو پھر اس کے لئے کتاب میں موجود جملے لایعنی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ اور یوں  اس کی افہام و تفہیم متاثر ہوتی ہے۔

اب اگلا مرحلہ ہے بچے میں تخلیقی صلاحیتوں کا ڈھونڈنا۔دوسروں سے الگ تھلگ کچھ بچے  رنگوں سے کھیلنا پسند کرتےہیں تو کچھ کو کہانی گوئی پسند ہے، کوئی مٹی کے برتن بنانے اور مجسمہ سازی میں دلچسپی رکھتا ہے تو کسی کو کھلونوں کا توڑ کر جوڑنا پسند ہے۔انہیں خود اعتمادی دیں اور ان کے کام کو توصیف سے نوازیے۔جب ان کا اعتماد بحال ہونے لگے گا تو دماغ کی گرہیں کھلنے کے ساتھ ساتھ ان  کی  مخصوص صلاحیت ابھر کر سامنے آتی چلی جائے گی۔اور یوں وہ مسخ شدہ شخصیت کے حامل افراد بننے کی بجائے مفید شہری ثابت ہوں گے۔

یاد رہے البرٹ آئن سٹائن،ایڈیسن جیسے فطین لوگوں کو اپنے دور میں عسرت قرات و تلفظ کی بدولت کافی مشکلات کا سامنا رہا،لیکن  ان کا شمار دنیا کے سب سے فطین انسانوں میں ہوتا ہے۔

لہذا عسرت قرات و تلفظ سے برسر پیکار بچے کند ذہن ،غبی یا نالائق نہیں بلکہ ہمارے لئے قدرت کا انعام ہیں۔ ان پر بھر پور توجہ دیجئے ان کی دلچسپی کے شعبے یا فن کو تلاشنے میں ان کی مدد کیجئے،ان شاء اللہ یہ آپ کو مایوس نہیں کریں گے۔

عسر قرات و تلفظ(ڈسلیکسیا )کے متعلق آگاہی کے لئے ہر سال آٹھ اکتوبر کو

عسر قرات و تلفظ(ڈیسلیکسیا )کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ترقی یافتہ ممالک کے تعلیمی اداروں میں ایسے بچوں کی نشاندہی کے بعد انہیں دوسروں سے الگ تعلیمی ماحول فراہم کیا جاتا ہے۔ہر بچے کا ریکارڈ انتظامیہ کے پاس موجود ہوتا ہے اور اس کے امتحانی پرچہ جات کی جانچ بھی اسی معیار  کو سامنے  رکھ کر کی جاتی ہے۔

گو  پاکستان میں دارالحکومت کے کچھ نجی اسکولوں میں امتحانات سے قبل ماہر نفسیات کا دستخط شدہ سرٹیفیکیٹ جمع کروایا جانا ضروری خیال کیا جاتا ہے،تاکہ بچہ کی ذہنی استعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے دوران امتحان اپنا کام مکمل کرنے کے لئے  اسے زائد وقت دیا جائے اور  نتائج مرتب کرتے وقت بھی اس کا خیال رکھا جائے؛ لیکن یہ کافی نہیں۔

اول تو حکومت کو چاہیے کہ اس بات کو یقینی بنائے کہ وطن کے  ہر اسکول میں  عسرت قرات و تلفظ ( ڈسلیکسیا ) کا ماہر موجود ہو تاکہ بچے کی بروقت تشخیص ممکن ہو سکے۔

اگر ایسا ممکن نہیں تو ماہرین پر مشتمل ٹیمیں تشکیل دی جائیں جو  کم از کم سال میں  ایک مرتبہ اسکولوں کے بچوں کی جانچ کریں کہ آیا وہ عسرت قرات وتلفظ کا شکار (ڈسلیکسک) تو نہیں۔اساتذہ کے لئے بھی اسکول کے بچوں کی ذہنی پیچیدگیوں کو سمجھنے کی صلاحیت اجاگر کرنے کے لیے تربیتی پروگرام ترتیب دئے جانے چاہئیں۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

Skip to content