“منان یار، میں تینوں دس نہیں سکدا، مینوں کنی تکلیف ہے۔۔۔”
یہ وہ الفاظ تھے جو میرے والدِ محترم، محمد اکرم صاحب، نے اپنی وفات سے دو روز قبل، سیڑھیوں پر بیٹھے ہوئے، میرے ماموں سے کہے۔
ان الفاظ کے ساتھ ہی وقت جیسے تھم گیا، اور ایک ایسا لمحہ وجود میں آیا جو میری روح پر ہمیشہ کے لیے نقش ہو گیا۔
محمد اکرم صاحب — ایک شفیق باپ، نرم گفتار انسان، اور محبت کا پیکر۔
وہ اپنے کاروبار میں مصروف رہتے، لیکن دوسروں کے لیے ہمیشہ وقت نکالتے۔ ان کی گفتگو کی مٹھاس، ان کے رویے کی شفقت ایسی تھی کہ اجنبی بھی ان کو قریب محسوس کرتے۔ ان کے ہاتھ کی کمائی صرف رزق نہ تھی، بلکہ اس میں محبت، محنت اور خلوص کی خوشبو شامل ہوتی تھی۔
انہوں نے پوری زندگی رزقِ حلال کمایا اور ہمیں بھی ہمیشہ سچ بولنے، دیانت داری سے جینے، اور حلال کھانے کی تلقین کی۔ ان کی دیانت داری صرف ان کے کاروبار تک محدود نہ تھی، بلکہ وہ ہمارے گھرانے کی بنیاد بن چکی تھی۔
اپنے بہن بھائیوں اور رشتہ داروں کے ساتھ ان کا تعلق خلوص اور محبت پر مبنی تھا۔ وہ ہر رشتے کو نبھانا جانتے تھے—پیار، عزت، اور اپنائیت کے ساتھ۔ ان کے وجود سے خاندان میں جو ربط و ہم آہنگی تھی، وہ آج بھی محسوس ہوتی ہے۔
پھر ایک دن، شیخ زید ہسپتال، رحیم یار خان کا ایمرجنسی وارڈ—زندگی کی سب سے بھاری یاد کا آغاز ہوا۔
والد صاحب کومے میں چلے گئے۔ ڈاکٹروں نے ہر ممکن کوشش کی، مگر اللہ کی رضا کے آگے کسی کا زور نہیں۔
باپ کا سایہ جب سر سے اٹھ جائے، تو زندگی کا ہر دن ایک زخم کی صورت جیا جاتا ہے۔
کچھ خلا کبھی پُر نہیں ہوتے، کچھ دعائیں کبھی قبول نہیں ہوتیں۔
بیس برس بیت چکے، مگر وہ دن، وہ لمحے، آج بھی میرے دل میں تازہ ہیں۔
سوموار کا دن، بورڈ کا امتحان، دل میں بےچینی، اور روہڑی ایکسپریس کی آمد۔
ٹکٹ کے لیے دوڑتے قدم، نڈھال جسم، اور ایک انجانی بے قراری۔
ٹرین کے دروازے میں بیٹھا، دل ایک ہی دعا مانگ رہا تھا: “جلد از جلد ہسپتال پہنچ جاؤں۔”
ہسپتال پہنچا، مشینوں سے جکڑے والد کو پل بھر کے لیے دیکھا—
آنسو، لرزتا دل، اور بےبسی کا عالم۔
پھر وہ گھڑی آئی جس کا ڈر تھا۔
میرے والد، میری دنیا، محمد اکرم صاحب، اس فانی دنیا سے رخصت ہو چکے تھے۔
وقت تھم سا گیا۔ دل جیسے سن ہو گیا۔ ایک گہرا خلا، جو آج تک پر نہیں ہو سکا۔
ان کی میت کو رحیم یار خان سے صادق آباد لے جایا گیا۔
گھر میں ہجوم تھا، تعزیتیں تھیں، دلاسے تھے—
مگر وہ موجودگی جو دل کو تسلی دیتی تھی، اب نہ تھی۔
ہسپتال سے تدفین تک جن احباب نے میرا بوجھ بانٹا، جن چہروں نے ساتھ دیا، وہ ہمیشہ میرے دل میں زندہ رہیں گے۔
میں ان تمام عزیزوں کا دل سے شکر گزار ہوں۔
اور تمام عزیز و اقارب، جن کی موجودگی میرے لیے سہارا بنی۔
آج بھی زندگی کے ہر موڑ پر والد صاحب کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔
لیکن ان کی مسکراہٹ، ان کی دعائیں، اور ان کی سکھائی ہوئی اقدار مجھے سنبھالتی ہیں، ہمت دیتی ہیں۔
والد صاحب، آپ چلے گئے، مگر آپ کی محبت میرے وجود کا وہ حصہ ہے، جو کبھی کم نہیں ہو سکتا۔
اللہ تعالیٰ آپ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے،
آپ کی مغفرت کرے،
اور ہمیں صبرِ جمیل اور آپ کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین۔
یہ چند لفظ میری طرف سے ایک بیٹے کے دل کی پکار ہیں، جو اپنے باپ کو آج بھی یاد کرتا ہے۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.