*جہاں بچھے تھے نرگس و گل، بچپن کی مسکان تھی*

*نانی کے آنگن میں گویا، جنت کی پہچان تھی*

عید الاضحی کا دوسرا دن تھا۔ سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا، فضا میں تازہ ذبح شدہ گوشت کی مخصوص مہک رچی بسی تھی، اور دل ایک عجیب خوشی سے دھڑک رہا تھا۔ مگر میرے لیے حقیقی عید اس لمحے شروع ہوئی، جب امی نے خوشخبری سنائی:

“آج نانی کے ہاں جانا ہے!”

نانی کے گھر جانے کی خوشی ہی کچھ اور تھی!

کھارادر کے وہی پرانے گلی کوچے، جن میں ہر موڑ پر بچپن کی یادیں چھپی تھیں، گویا مجھ آواز دے رہی ہوں:

“آ رہی ہو نا؟ نانی تمہیں یاد کر رہی ہیں۔”

امی کی آواز ایک بار پھر گونجی:

“جلدی سے اپنی تیاری مکمل کرو، پھر نانی کے گھر کے لیے نکلنا بھی ہے۔”

میرے دل میں جیسے بہار آ گئی۔ میں نے فوراً الماری کھولی، ہینگر سے کپڑے نکالے، لباس زیب تن کیا، اور جھٹ پٹ تیاری مکمل کرنے میں لگ گئی۔ کبھی آئینے میں خود کو دیکھتی، تو کبھی دل میں نانی سے ملاقات کے مناظر بُنتی۔ میری ہر حرکت میں ایک بے چینی تھی، جیسے میں اُڑ کر نانی کے پاس پہنچ جانا چاہتی ہوں۔ مگر ہائے! انسان اُڑ تو نہیں سکتا۔

تقریباً ساڑھے سات بجے ہم والدین کے ہمراہ گھر سے نکلے۔ دعائیں پڑھیں اور رکشہ لینے کی کوشش کرنے لگے۔ چونکہ عید کا دن تھا، اس لیے رکشے والے کم کرایہ ماننے پر آمادہ نہ تھے—آخر اُن کی بھی تو عید تھی۔

کافی دیر انتظار کے بعد ایک مناسب کرائے والا رکشہ مل گیا۔ میں نے فوراً کھڑکی کے قریب بیٹھنے کی جگہ سنبھالی اور باہر کے مناظر دیکھنے لگی۔ ہر طرف عید کی خوشیاں بکھری ہوئی تھیں۔ کوئی دوستوں کے جھرمٹ میں قہقہے لگا رہا تھا، تو کوئی اپنے بچوں کے ہمراہ فوٹو سیشن کر رہا تھا۔ ہوٹلز اور ڈھابے فیملیوں سے بھرے ہوئے تھے، اور فضا میں کھانوں کی مہک شامل ہو کر ماحول کو مزید خوشگوار بنا رہی تھی۔

راستے میں کچھ غریب بچے بھی دکھائی دیے، جن کی آنکھوں میں حسرتیں اور دل میں چھپی تمنائیں صاف پڑھی جا سکتی تھیں۔ کچھ بچے صبر و قناعت کے ساتھ اپنی مختصر خوشیوں پر شکر ادا کر رہے تھے، تو کچھ آسمان کی طرف نگاہیں اُٹھائے شکوہ کناں تھے۔

سڑکوں پر رش کا یہ عالم تھا کہ گویا زمین نے گاڑیوں کی چادر اوڑھ لی ہو۔ رکشہ بھی سست روی سے رینگ رہا تھا، اور میرے دل کی بے تابی بڑھتی جا رہی تھی۔ والد اور والدہ حالاتِ حاضرہ پر گفتگو فرما رہے تھے، اور میں خاموشی سے سنتی جا رہی تھی۔

ہمارے رکشہ والے بھائی پورے راستے فون کان سے لگائے کسی سے پشتو یا اس جیسی کسی زبان میں گفتگو کرتے رہے۔ وہ وقتاً فوقتاً اپنے مقام کی اطلاع دیتے رہے، جیسے کہ:

“ابھی جامع مارکیٹ کے قریب ہوں۔”

آخرکار جب ہم کھارادر کے قریب پہنچے تو رکشہ ڈرائیور نے ایک غلط گلی میں مڑنے کی کوشش کی۔ والد صاحب نے نرمی سے روکتے ہوئے کہا:

“بھائی، آگے ٹاور سے مڑیں۔”

کچھ دیر بعد ڈرائیور صاحب گویا خود سے بڑبڑانے لگے:

“میں بھی تو وہیں سے لے کر جا رہا تھا، اتنا آگے لانے کی کیا ضرورت تھی؟”

والد صاحب نے مسکرا کر جواب دیا:

“آپ جس گلی سے جا رہے تھے، وہاں بہت سے گڑھے ہیں۔ آپ کو ہی دشواری ہوتی۔”

مگر رکشہ والے بھائی کو اپنا راستہ زیادہ درست معلوم ہوتا تھا۔

جیسے ہی ہم ٹاور کے قریب پہنچے، میرا دل خوشی سے جھوم اُٹھا۔ میری نظریں اُن دکانوں پر جا ٹکی جو نانی کے گھر کے قریب تھیں۔ وہی بندوق والی گلی، وہی رنگ برنگے کپڑوں، چپلوں، مسالوں، اور عطروں کی دکانیں، اور رحمان بریانی والے کے دیگوں سے اُٹھتی مہک… سب کچھ مجھے بچپن میں لے گیا۔

جب رکشہ نانی کے دروازے پر رکا، تو میرا دل کسی بچے کی طرح بلیوں اچھلنے لگا۔ نانی سے ملنے کا خیال ہی مجھے پرجوش کر رہا تھا۔ دروازے پر بیل دی، تو نانی کی وہی چمکدار آنکھیں، محبت بھرا چہرہ، اور پیار سے لبریز آواز سنائی دی:

“ہائے میری بچی! آ گئی تُو؟ میں تو روز تیری راہ دیکھتی ہوں!”

نانی نے مجھے اپنے سینے سے لگا لیا۔ اُن کے ہاتھ کی مہک، اُن کے آغوش کی گرمی، اور اُن کی دعا کی تاثیر میرے دل میں اُترتی چلی گئی۔

اندر داخل ہوئی تو وہی شناسا منظر سامنے تھا — براؤن کور والا صوفہ، اور صحن سے جُڑے تین کمرے ایک قطار میں۔ پہلے کمرے میں پلنگ اور سبز پردوں والی الماری تھی، جو اس وقت خالی تھا۔ دوسرے کمرے میں خالائیں بیٹھی ہنسی مذاق کر رہی تھیں اور ساتھ ساتھ مزیدار سموسے بھی تیار ہو رہے تھے۔ تیسرے کمرے میں بچے اپنی چھوٹی سی دنیا میں مگن تھے۔

مامی نے خوش دلی سے آواز دی:

“چلو، تمہارے لیے آلو بنائے ہیں، تمہیں بہت پسند ہیں نا!”

کیا مزہ تھا اُس پلیٹ میں… اور کیا لطف تھا نانی کے ہاتھوں کے ذائقے میں!

نانی بار بار پوچھتیں:

“تُو نے کھایا نا؟ کچھ اور تو نہیں چاہیے؟”

اور پھر پیار سے سر پر ہاتھ پھیر کر دعاؤں سے نوازتیں۔ اُن کا پُرنور چہرہ، بیٹیوں اور نواسیوں کو خوش دیکھ کر مطمئن تھا۔ سب کچھ کتنا حسین لگ رہا تھا!

خالاؤں کی باتیں، ہنسی، احوال پرسی، اور باہر گلی میں بچوں کی چہکار، ہر لمحہ بچپن کی گلیوں میں واپس لے جا رہا تھا۔ یوں لگا جیسے ساری فکریں، ساری پریشانیاں نانی کے دروازے پر ہی چھوڑ آئی ہوں۔

تھوڑی دیر میں ماموں بریانی اور کھیر لے کر آ گئے، اور میرا چھوٹا کزن کڑاہی کے لیے شیر مال کے ساتھ حاضر ہوا۔ نانی نے اپنے ہاتھ سے نوالہ بنا کر دیا، تو یوں محسوس ہوا جیسے برسوں کی کمی ایک نوالے میں پوری ہو گئی ہو۔

وقت کب پروں پر سوار ہو کر گزر گیا، اندازہ ہی نہ ہوا۔

تقریباً ایک بجے ہم رخصت کے لیے اُٹھے۔ نانی نے محبتوں اور دعاؤں کے ساتھ ہمیں رخصت کیا، اور جب تک ہم اوجھل نہ ہو گئے، اُن کی نظریں ہم پر ہی ٹکی رہیں۔

یہ مختصر مگر دل آویز سفر اپنے اختتام کو پہنچا۔

گھر واپس آئی تو دل اب بھی نانی کی آواز سے گونج رہا تھا:

“اللہ سلامت رکھے میری بچی کو…”

اور جب میں نے پلٹ کر ان لمحات کو یاد کیا تو دل نے یہ نغمہ چھیڑا:

*نانی کے آنگن میں بیتی وہ گھڑیاں،*

*جیسے دعاؤں کی چھاؤں میں پلکیں جھپکیں۔*

*چائے کی خوشبو، نرمی سے لپٹی،*

*پیار میں بھیگے الفاظ کی لے تھی۔*

*ایک نوالہ، جو ہاتھوں سے آیا،*

*صدقے گئی ہر دعا کی گھڑی تھی۔*

*چھاؤں تھی چہروں پہ نانی کی باتیں،*

*نور سا چمکا تھا اُن کی مسکراہٹ میں۔*

اب جو واپس لوٹے تو دل نے کہا:

“کاش وقت وہیں تھم گیا ہوتا!”

یہ سفر صرف راستوں کا نہیں تھا، بلکہ محبتوں، یادوں اور نانی کے لمس کا ایسا سفر تھا جو ہمیشہ میرے دل کے ساتھ رہے گا۔

 


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

Skip to content