حالیہ بجٹ کو دیکھ کر صاف اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت کی پالیسی کم سے کم اخراجات زیادہ سے زیادہ بچت کی خواہش پر مبنی ہے، اور یہ خواہش حکومت کی میکرو اکنامکس کے بنیادی تصورات سے نا واقفیت کو ظاہر کرتی ہے۔ حکومت کی سطح پر بچت کی پالیسی کبھی کامیاب نہیں ہوتی۔ دراصل حکومت کے اخراجات معیشت کو کئی گنا بڑھانے، اور حکومت کی بچت معیشت کو کئی گنا سکیڑنے کا سبب بنتے ہیں۔یعنی جب حکومت ایک ارب روپے اضافی خرچ کرتی ہے تو اس سےملکی معیشت کے مجموعی حجم میں کئی ارب کا اضافہ ہو جاتا ہے، اور اس کے برعکس ایک ارب کی کمی معیشت میں کئی ارب کی کمی کا سبب بنتی ہے۔
فرض کیجیے کہ حکومت ایک پل بنانے کے لیے ایک ارب روپے خرچ کرتی ہے، اس رقم کا بڑا حصہ مزدوری اور بقیہ تعمیراتی سامان کی خرید پر خرچ ہو گا۔ مزدوری کی شکل میں ادا کی جا نے والی رقم کا وصول کنندہ اسے اپنے گھریلو اخراجات کے لیے خرچ کرے گا، اس طرح یہ رقم دکاندار کے پاس پہنچ جائے گی۔ دکاندار اس رقم سے مزید سامان تجارت خریدے گا، تو یہ رقم ہول سیلر کے پاس پہنچ جائے گی اور ہول سیلر اس رقم سے اپنے سپلائر کو ادائیگی کرے گا، اس طرح یہ رقم سامان پیدا کرنے والے کسان یا کارخانے تک پہنچ جائے گی۔ اب وہ کاشتکار یا کارخانہ اس رقم کو اپنے مزدوروں کو ادائیگی کے لیے استعمال کرے گا، اس طرح یہ رقم دوبارہ صارفین کی آمدنی کا حصہ بنے گی اور اس کے بعد ایک دفعہ پھر استعمال ہونا شروع ہو جائے گی، اور یہ سلسلہ لامتناہی مرتبہ جاری رہے گا۔ چنانچہ ایسی معیشت جہاں پر بچت کا تناسب کم ہو، وہاں حکومتی اخراجات معیشت کو بڑھانے میں زیادہ موثر ثابت ہوں گے کیونکہ رقم کا بڑا حصہ معیشت سے نکلنے کی بجائے دوبارہ سرکولیشن میں آ جاتا ہے۔
اسی طرح اگر حکومت کنجوسی کی روش اپناتی ہے تو اس کا اثربھی معیشت پر کئی گنا ہوتا ہے، اور معیشت سکڑ جاتی ہے۔ اگر حکومت کفایت شعاری یا کنجوسی کی پالیسی اپناتے ہوئے ہزاروں ملازمین کو نوکری سے فارغ کر دے تو نہ صرف یہ کہ ان ملازمین کا زریعہ روزگار ختم ہوگا، بلکہ ان کو سامان سپلائی کرنے والا دکاندار، اس کے پیچھے بیٹھا ہول سیلر، اور اس کے پیچھے بیٹھا کارخانہ دار اور اس کے مزدور سبھی کی آمدنی میں کمی ہوگی، اور معیشت کئی گنا سکڑ جائے گی۔
جان مینارڈ کینز بیسویں صدی کا عظیم ماہر اقتصادیات اور میکرو اکنامکس کا بانی ہے جسے معیشت کا آئن اسٹائن کہا جا سکتا ہے۔ کینز سے پوچھا گیا کہ معیشت کواقتصادی بحران سے کیسے نکالا جا سکتا ہے تو اس نے کہا: “لوگوں کو پیسے دو تاکہ وہ گڑھے کھودیں، اور پھر دوبارہ انہیں پیسے دو تاکہ وہ ان گڑھوں کو بھر دیں” یعنی کینز یہ کہنا چاہتا ہے کہ معاشی موزونیت feasibility کے قطع بظر حکومت انفراسٹرکچر کے پروجیکٹ شروع کرے۔ ان اخراجات سے لوگ اپنے لیے خریداری کریں گے، جس سے اخراجات کا دائروی سلسلہ شروع ہوگا اور معیشت کا پہیہ چل پڑے گا۔
ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ جب حکومت اقتصادی بحران کا شکار ہے تو حکومت کی اپنی آمدنی بھی کم ہو جائے گی، ایسے میں حکومت کس طرح اپنے اخراجات بڑھا سکتی ہے؟ کینز کے خیال میں خود مختار حکومت اخراجات کے لیے کبھی بھی مجبور نہیں ہوتی۔ حکومت کسی بھی وقت اپنے مرکزی بینک کو استعمال کرتے ہوئے کرنسی پیدا کر سکتی ہے اور ان رقوم کو معاشی ترقی کے لیے استعمال کر سکتی ہے۔
بدقسمتی سے ہماری معاشی پالیسیاں ان بنیادی اسباق کے بالکل بر عکس پالیسی پر مبنی ہیں۔ ہمارا پہلا مسئلہ یہ ہےکہ ہم اقتصادی بحران کا حل کفایت شعاری میں تلاش کرتے ہیں، جو معیشت کو مزید سکیڑ دیتی ہے، دوسرا ہم نے سٹیٹ بینک ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے باقاعدہ طور پر مرکزی بینک سے پیسے لینے کو حرام قرار دے دیا ہے اور معاشی ترقی کے اس دروازے کو اپنے لیے خود بند کر لیا ہے۔
اس کے برعکس اگر آپ مغربی ممالک کی معاشی پالیسیوں پر نظر دوڑائیں تو صاف نظر آتا ہے کہ ان کی پالیسیاں بچت کے بجائے اخراجات کی پالیسی پر مبنی ہیں۔ مثلاً اگر آپ برطانوی حکومت کے بجٹ کا ڈیٹا اٹھا کر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ سال 2000 کے بعد کبھی بھی حکومتی بجٹ فاضل surplus نہیں رہا، ہر سال حکومتی بجٹ خسارے ہی میں رہا ہے۔چونکہ حکومت کیلئے بچت کوئی معنی نہیں رکھتی اس لئے اکنامکس میں حکومتی خزانہ کا کوئی تصور موجود نہیں، لیکن اگر یہ تصور موجود ہوتا تو برطانیہ کے لیے بے معنی ہو جاتا۔ جس حکومت کا بجٹ ہر سال خسارے میں ہو، وہ کیسے خزانہ بنا پائے گی؟ ایسے میں سال 2020 میں کرونا کے سبب برطانوی معیشت کو بے حد نقصان پہنچا۔ 2020 کی دوسری سہ ماہی میں برطانوی معیشت میں 20 فیصد کی کمی ہوئی۔ اتنی بڑی کمی اگر طویل عرصے تک جاری رہے تو معیشت کی بنیاد ہلا سکتی ہے۔ معاشی ترقی میں کمی کے ساتھ حکومت کی اپنی آمدنی بھی یقینی طور پر کم ہوئی ہوگی، اور ایسے میں ایک عمومی سوچ یہ کہتی ہے کہ حکومت اپنے اخراجات کم کرےلیکن ایسے میں برطانوی حکومت نے اپنے اخراجات میں کمی کرنے کی بجائے مزید اضافہ کر دیا۔ برطانوی حکومت نے کرونا بحران کے دوران ایک جاب ریٹینشن سکیم متعارف کروائی۔ اس سکیم کے تحت کاروباری اداروں کوان کے ملازمین کی تنخواہوں کے 80 فیصد کے برابر رقم حکومت نے ادا کی تاکہ وہ اپنے ملازمین کو کاروبارسےفارغ نہ کریں۔ اس طرح حکومت کے اخراجات میں بے پنا اضافہ ہوا۔ اتنے بڑے امدادی پیکج کی فراہمی کے لیے حکومت نے اپنے مرکزی بینک یعنی بینک آف انگلینڈ سے قرض لے کر، یعنی نئی کرنسی پرنٹ کر کے کاروباری اداروں کو رقوم فراہم کیں۔ اس طرح صرف تین مہینوں میں برطانیہ کی معیشت واپس ترقی کی راہ پر گامزن ہو گئی۔
یہ کہانی صرف برطانیہ تک محدود نہیں، اٹلی، فرانس، جرمنی، امریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک سمیت بہت سے ترقی پذیر ممالک نے بھی کرونا بحران کے دوران اسی قسم کی پالیسی اپنائی اور شدید معاشی بحران کے دوران اپنے مرکزی بینکوں کو استعمال کر کے لوگوں کو وسیع پیمانے پر اخراجات اور کاروبار کے لیے پیسے فراہم کیے، جس کی وجہ سے معاشی بحالی کی رفتار تیز ہوئی، اور اکثر ممالک میں صرف ایک سہ ماہی میں معاشی بحران پر قابو پا لیا۔
ملازمین کو انتہائی کنجوسی کے ساتھ اکاموڈیٹ کرنا، پہلےملازمین کی تنخواہوں میں صرف 6 فیصد اضافہ کا اعلان کرنا اور پھر ملازمین کے احتجاج کے ڈر سے 10 فیصد تک اضافی تنخواہ دینے کا فیصلہ، پنشن میں انتہائی معمولی اضافہ، شدید ترین دفاعی ضروریات کے باوجود دفاعی بجٹ میں محض 20 فیصد کا اضافہ، وفاقی ترقیاتی پروگرام کے بجٹ میں کمی وغیرہ جسیے اقدامات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ حکومت نے بے حد کنجوسی سے کام لیا۔ ہمارا دفاعی بجٹ حالیہ 20 فیصد اضافے کے بعد بھی 10 ارب ڈالر تک نہیں پہنچ سکا، جبکہ ہمارا دشمن اپنے دفاع پر سالانہ 80 ارب ڈالر خرچ کرتا ہے۔شدید ترین نوعیت کے سیکیورٹی خدشات کے باوجود دفاعی بجٹ میں خاطراضافہ نہ کرنا تو دفاع پر سمجھوتے کے مترادف ہے۔
ہماری معاشی ترقی کی رفتار رواں سال محض 2.7 فیصد رہی، جبکہ آبادی میں سالانہ اضافہ تقریبا 2 فیصد کی رفتار سے ہو رہا ہے۔ اس طرح معاشی ترقی محض آبادی میں اضافہ کو بیلنس کرتی ہے اور حقیقی معاشی ترقی تقریبا صفر ہے۔ ایسے میں حکومت کی بچت کی پالیسی دراصل معیشت کو مزید سکیڑنے کا سبب بنتی ہے،اور عوام کے لیے مشکلات میں اضافہ کا سبب بنتی ہیں۔
ہمارے بجٹ میں صرف ایک ہی مد ایسی ہے جس کو درحقیقت کم ہونا چاہیے ، یعنی سود پر ہونے والے اخراجات،جو کل بجٹ کے تقریبا 50 فیصد کے برابر ہیں، لیکن حکومت نے ان اخراجات کو کم کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی۔ گزشتہ برس کی 22 فیصد شرح سود کی نسبت آج شرح سود کم ہو کر 11 فیصد رہ چکی ہے اور اگلے چند ماہ میں اس میں مزید کمی کی توقع ہے۔ ایسے میں سود کی ادائیگی کیلئے مختص بجٹ گزشتہ برس کی نسبت آدھا ہو جانا چاہیے تھا، یعنی 9775 ارب کی بجائے 4800 ارب کا بجٹ سود کی ادائیگی کیلئے کافی تھا، لیکن حکومت نے اس مرتبہ بھی اس مد میں 8200 ارب روپے مختص کیے۔ اگر حکومت ان اخراجات کو 5000 ارب تک محدود کر دیتی، تو دفاعی بجٹ سمیت بجٹ کی باقی تمام مدات میں 40 فیصد مزید اضافہ ممکن تھا۔
بچت کا اصل طریقہ یہ ہے کہ حکومت (سٹیٹ بینک) شرح سود میں مزید کمی کرے ۔ سٹیٹ بینک کی شرح سود سے متعلق پالیسی انتہائی ناقص معاشی نظریات پر کھڑی ہے، جو اکثر نتیجہ معکوس کا سبب بنتی ہے۔ ایسے میں سٹیٹ بینک کو مستقلا اپنی پالیسیوں کی افادیت کا جائزہ لینا چاہئے لیکن اس نے اپنی پالیسیوں کا کبھی بھی حقائق کی روشنی میں جائزہ نہیں لیا۔ حکومت نے آج تک سٹیٹ بینک سےسود پر ہونے اخراجات کی جوازیت اور افادیت کے بارے میں ایک جامع رپورٹ طلب کر سکے۔ اس وقت بجٹ کا تقریباً 50 فیصد حصہ سود کی ادائیگی پر خرچ ہوتا ہے، اور اتنے بڑے اخراجات کا نہ تو کوئی آڈٹ کیا جاتا ہے اور نہ ہی ان کی افادیت کے بارے میں کوئی رپورٹ پارلیمنٹ یا اس کی متعلقہ کمیٹیوں میں بحث کے لیے پیش ہوتی ہے۔ بغیر کسی آڈٹ اور جانچ پڑتال کے سٹیٹ بینک کے کہنے پر حکومت اندھا دھند غریب عوام کی رقوم میں سے ہزاروں ارب سود خور بینکوں کے حوالے کرتی ہے۔
دراصل بجٹ میں اگر کہیں بچت کی گنجائش ہے تو وہ بجٹ سودی اخراجات میں ہونی چاہیے، لیکن یہ ہمارے لیے شجر ممنوعہ کا درجہ رکھتے ہیں۔ جب تک ان اخراجات پر چیک نہیں لگایا جاتا، معیشت کی حالت سدھرنا از بس مشکل ہے۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.