حال ہی میں پیش کیا گیا بجٹ حکومت کی اس سوچ کا مظہر ہے کہ حکومت  کو بچت کی پالیسی پر عمل کرنا چاہیے اور اس سوچ کے پیچھے آئی ایم ایف کی ہدایات کار فرما ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ نہ تو نمایاں بچت اس بجٹ میں ریفلیکٹ ہو رہی ہے اور نہ ہی بچت کا حکومتی سطح پر کوئی فائدہ ہوتا ہے۔ گزشتہ برس کا بجٹ 18300 ارب سے تجاوز کر چکا تھا۔ اس بجٹ کو واپس سکیڑ کر 17000 ہزار ارب تک لانے کی منطق میری سمجھ میں نہیں آئی۔

 گزشتہ برس کے بجٹ میں بجٹ خسارا  8500 ارب سے زیادہ تھا جو نئے قرض سے پورا کیا جانا تھا۔ اس مرتبہ خسارا کا ہدف 6000 ارب تک لایا گیا ہے۔  لیکن یہ یاد رہے کہ گزشتہ برس کے بجٹ میں مجوزہ تمام تر خسارا صرف سود کی ادائیگی کے سبب تھا۔ آج  جب سود کی شرح آدھی ہو چکی اور مستقبل میں سود کی شرح میں مزید کمی کی توقع ہے، ایسے میں  آنے والے مالی سال میں سود کی ادائیگی کیلئے 8200  ارب کی رقم رکھنے کی ضرورت نہیں تھی اس مد میں محض 4000 ارب روپے بھی کافی تھے اور اگر اس مد میں چار ہزار ارب روپے رکھے جاتے تو  بجٹ خسارے میں کسی اضافے کے بغیر باقی تمام مدات میں نمایاں اضافہ ممکن تھا۔

بجٹ میں جن مدات کو مناسب سے بہت کم رقم ملی ہے ان میں سب سے پہلے دفاعی اخراجات شامل ہیں۔  دفاع کے لیے گزشتہ مالی سال بجٹ ایلوکیشن 2122 آر روپے یعنی تقریبا 7.6 ارب ڈالر تھی اور حالیہ 20 فیصد اضافہ کے بعد بھی یہ ایلوکیشن  9 ارب ڈالر تک ہی  پہنچ سکی ہے۔  ہمیں ایسے دشمن کا سامنا ہے جس کا دفاعی بجٹ 80 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے، اس لئے  میرے خیال میں دفاع کے لیے 10 ارب ڈالر سے کم  رقم  رکھنا ملکی سلامتی کے ساتھ ظلم کے مترادف ہے ۔

 مجوزہ  بجٹ میں سود کی ادائیگی کے علاوہ صرف ایک مد میں کٹوتی کی گئی ہے اور وہ ہے وفاقی ترقیاتی پروگرام یعنی FPSDP۔گزشتہ برس اس مد میں 1100 ارب روپے رکھے گئے تھے جبکہ آئندہ سال کیلئے انہیں کم کر کے محض 1000 ارب روپیہ رکھا گیا ہے، اس کے برعکس صوبائی ترقیاتی بجٹ میں اضافہ کیا گیا ہے۔  صوبائی ترقیاتی بجٹ کا بڑا حصہ دراصل سیاسی رشوت کی ایک شکل ہوتی ہے جو مقامی وزراء اور ممبران اسمبلی کو دیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے حلقے کے ووٹرز کو خوش کر سکیں۔ خیر، صوبائی بجٹ میں چاہے جتنا بھی  اضافہ کیا جائے ،  وفاقی ترقیاتی بجٹ میں کمی نہیں کیے جانی چاہیے تھی۔  میرے نزدیک وفاقی ترقیاتی پروگرام کیلئے  مختص بجٹ کو گزشتہ برس کی نسبت دگنا کیا جانا چاہیے تھا، اور پانی کے ذخائر کی تعمیر کیلئے نمایاں رقم رکھی جانی چاہئے تھی، لیکن حکومت نے ان داتا کی خوشنودی کیلئے کفایت شعاری کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی۔ میں اپنی تحریروں میں بار بار اس بات کا تذکرہ کر چکا ہوں کہ حکومت کی طرف سے کفایت شعاری کی کوششیں کبھی بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوتی بلکہ یہ الٹا معیشت کو نقصان دیتی ہے۔ جب حکومت ایک ارب کے اضافی اخراجات کرتی ہے تو اس سے معیشت میں کئی ارب کی توسیع ہوتی ہے۔ ایسے ممالک جہاں بچت کا تناسب کم ہو وہاں حکومتی اخراجات کا اثر زیادہ نمایاں ہوتا ہے، اور پاکستان ایک ایسا ہی  ملک ہے ۔

ملازمین کی تنخواہوں میں محض 6 فیصد اضافہ تجویز کیا گیا جسے بعد میں احتجاج کے پیش نظر بڑھا کر 10 فیصد کر دیا گیا۔ یہ یاد رہے کہ گزشتہ  برس ٹیکسوں میں اتنا اضافہ کیا گیا جو تنخواہوں میں اضافے کو زائل کرنے کے لیے کافی تھا، اس لئے گزشتہ برس ملازمین کو دیا جانے والا اضافہ موثر طور پر اضافہ شمار نہیں کیا جا سکتا۔  اس مرتبہ ٹیکس کی شرح  میں کمی کی گئی ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ٹیکس میں کمی اور تنخواہ میں اضافے کے باوجود ملازمین کی قابل استعمال تنخواہ کی حقیقی قوت خرید میں 2022 کے مقابلے میں نمایاں کمی ہو چکی ہے۔ اگر حکومت ملازمین کو 10 فیصد کے بجائے 25 فیصد بھی اضافی تنخواہ دے دیتی تو اس کا فائننشل امپیکٹ 50 ارب سے زیادہ نہیں ہونا تھا اور 50 ارب روپیہ شرح سود میں 0.1 فیصد کمی سے بچایا جا سکتا ہے۔ لیکن حکومت کی کفایت شعاری کی سوچ یہاں پہ بھی کار فرما رہی،  یہ الگ بات ہے کہ ممبران اسمبلی کی اپنی تنخواہوں اور مراعات کے معاملے میں کفایت شعاری کی سوچ کہیں نظر نہیں اتی۔

تعلیم اور صحت صوبائی محکمے ہیں اور صوبائی حکومتیں ان مقاصد کے لیے بڑے بڑے بجٹ مختص کرتی ہیں ، تاہم یونیورسٹیز کا معاملہ الگ ہے۔ 18ویں ترمیم کے تحت اعلی تعلیم کو بھی صوبوں کے سپرد کر دیا گیا ہے لیکن عملا یونیورسٹیز کا کوئی والی وارث باقی نہیں بچا۔ صوبے یونیورسٹیز میں وائس چانسلرز اور ملازمین کی تعیناتی کی حد تک اپنا اختیار ضرور چاہتے ہیں لیکن مالی معاملات میں معاونت کے لیے تیار نہیں، جبکہ یونیورسٹیوں کی تعداد دن بدن بڑھائی  جا رہی ہے۔ گزشتہ اسمبلی کےاختتامی سیشن میں صرف ایک سیشن میں 50 نئی یونیورسٹیوں کی منظوری دی گئی۔ جامعات کی تعداد کے برعکس اکنامک سروے کے مطابق پاکستانی یونیورسٹیز میں طلباء کی تعداد میں 13 فیصد کمی ہوئی ہے ۔ وفاقی حکومت نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کا بجٹ 2017 کے لیول پر منجمد کر رکھا ہے،  2017 میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کا بجٹ 65 ارب تھا اور حال ہی میں پیش کیے گئے بجٹ میں بھی اس مد میں صرف 65 ارب روپے ہی رکھے گئے ہیں۔ اس طرح جامعات غیر ضروری مالیاتی بوجھ تلے دبتی جا رہی ہیں لیکن نہ تو وفاقی حکومت اور نہ ہی علاقائی حکومتیں ان اخراجات کی ذمہ داری اٹھانے کے لیے تیار ہیں۔  میرے نزدیک اگر حکومت جامعات کو چلانا چاہتی ہے تو ہائر ایجوکیشن کیلئے مختص بجٹ کو کم از کم دگنا کیا جانا چاہیے تھا۔

اسی طرح سود پر ہونے والے اخراجات میں مزید کمی کر کے صوبائی حصہ میں اضافہ کیا جانا ممکن تھا،  لیکن بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومت بچت تو کرنا چاہتی ہے مگر بینکوں کے مفادات کو نقصان پہنچائے بغیر،  اور ایسی بچت کا مطلب معیشت پر دباؤ برقرار رکھنا اور ترقی کو روکنا بن جاتا ہے۔

اس وقت ضرورت اس امر  کی تھی کہ بے روزگاری میں کمی اور معاشی ترقی کے لیے نوجوانوں کو رعایتی قرضے دینے کے لیے وسیع رقم مختص کی جاتی۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے رواں بجٹ میں 716 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی اگر اس کے مساوی رقم نوجوانوں کو کاروباری  قرض دینے  کے لیے مختص کر دی جاتی ہے تو لاکھوں نوجوان کاروبار شروع کرنے کی پوزیشن میں ا ٓجاتے لیکن جیسا کہ میں بار بار عرض کر چکا ہوں روزگار اور ترقی عملا  پاکستان کی پالیسی ترجیحات میں سے خارج کر دیے گئے ہیں اور  آئی ایم ایف ان دونوں کو ترجیحات کی فہرست میں شمار کرنے میں مستقل رکاوٹ بنا ہوا ہے چنانچہ روزگار سے متعلقہ کوئی نمایاں اقدام حالیہ بجٹ میں نظر نہیں آ  رہا۔

میرے نزدیک بجٹ اس وقت تک درست نہیں بنایا جا سکتا جب تک آئی ایم ایف کے چنگل سے نجات حاصل نہیں ہو جاتی لیکن آئی ایم ایف سے چھٹکارا پانا بھی حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں اور جس کے سبب پاکستانی معیشت آئی سی یو میں ہے سیاست دان ہمیشہ اسی عطار کے لونڈے کے پاس دوائی کے لیے پہنچ جاتے ہیں۔

مجموعی طور پر میرے خیال میں آئندہ مالی سال کے لیے پیش کیا گیا بجٹ دانش مندانہ بجٹ نہیں ہے؛  اس میں ترقی اور روزگار کو نظر انداز کیا گیا ہے دفاعی ضروریات کو مد نظر نہیں رکھا گیا، عوام کی قوت خرید کے تحفظ کے لیے کوئی نمایاں قدم نہیں اٹھایا گیا،  جبکہ کمرشل بینکوں کے مفادات کو نمایاں تحفظ دیا گیا ہے


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

Skip to content