میں نے شعور کی آنکھ کب کھولی؟ اس بابت خیال کرتا ہوں تو وثوق سے کچھ کہ نہیں پاتا۔پچھلے چند سالوں میں پے در پے واقعات کا جو سلسلہ رونما ہوا ہے ،یوں محسوس ہوتا ہے کہ شعوری زندگی کا آغاز ہی پچھلے چند سالوں سے ہوا ہے۔ان واقعات کی سنگینی اس قدر ہے کہ ان کو بھلا پانا جان جوکھوں میں ڈالنے لاٸق ہے۔ان واقعات کی فصیلیں اس قدر بلند ہیں کہ ان سے قبل جو کچھ بیتا،وہ ہیچ محسوس ہوتا ہے اور دھیرے دھیرے دھندلاہٹ کا شکار ہو رہا ہے۔کبھی کبھار تو اس صورتحال میں خود کو گرفتار پاتا ہوں کہ ماضی بعید اور اس میں بیتے واقعات پر ہی شکوک و شبہات پیدا ہونے لگتے ہیں۔ اس کو یاداشت کی معتربیت

 (credibility)

 پرسوالیہ نشان سمجھیے۔یوں لگتا ہے کہ وہ ایک خواب تھا ،حقیقت میں تو ایسا کچھ ہوا ہی نہیں۔ کچھ خواب یاد رہ جاتے ہیں اور ہم

 ان خوابوں کی بابت یوں خیال کرتے ہیں کہ وہ خواب تھے یا حقیقت میں ہی ایسا کچھ ہوا تھا۔اب چند برسوں میں جو کچھ ہوا،میرے وجود میں جو طلاطم خیز موجیں اٹھیں،اس نے مجھے یکسر ہلا کر رکھ دیا ہے۔لیکن کل کلاں یہ بھی ماضی بعید کا حصہ ہو جائے گا اور میں اس کی بھی صحت پر شک کا اظہار کرنے لگوں گا۔ یہ  ممکنات میں سے ہے کہ مجھے یہ ایک خواب کی طرح محسوس ہو اور میرے لیے یہ حکم لگانا مشکل ہو کہ یہ خواب تھا یا حقیقت۔یہ سلسلہ کب تھمے گا؟

 میرے وجود کی توڑ پھوڑ کب تلک ہوتی رہے گی؟ کیا میں ایک لوپ ہول میں پھنس کر رہ گیا ہوں؟ کیا مجھے لامتناہی وجودی توڑ پھوڑ سے گزرنا ہوگا؟ کیا مجھے کسی خاص شکل میں ڈھلنا ہے؟

ان سوالات کے کیا جوابات ممکن ہوسکتے ہیں، میرے پاس فی الحال منظم  ڈیٹا موجود نہیں ہے۔شاید یہ سوالات بھی وقت کے ساتھ دھندلا جاٸیں یا بے معنی ہو کر رہ جائیں۔یا پھر میں ہوں تو شاید مجھے پل پل پگھلنا ہو گا ،نئی  صورت میں ڈھلنا ہو گا۔جب تک میں ہوں،میرے ہونے کا احساس میرے اندر رہے گا،مجھے ان تبدیلیوں کو گلے لگانا ہوگا۔یہ توڑ پھوڑ اذیت ناک ہی سہی لیکن مجھے میری نظروں میں زندہ تو رکھتی ہے۔تبدیلی کا یہ عمل خوبصورت بھی تو ہے کہ بوسیدہ وجود برسوں تک کون برداشت کرے؟ نیا وجود  بھی تو ایک پرویلج ہے۔کائنات بھی تو مسلسل تبدیلی کے عمل میں ہے اور میرا خمیر بھی تو اسی کاٸنات سے ہے۔

شاید میں وہ دھات ہوں جو وقت کی بھٹی میں تپ کر نئی ہیئت اختیار کرتی رہتی ہے—ٹوٹنا میری ساخت میں شامل ہے، جیسے ستاروں کا دھماکہ کائنات کا نسخۂ حیات ہے۔

جب تک مادہ کی صورت موجود ہے،تبدیلی بھی بامعنی رہے گی۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

Skip to content