سِکم بھارت کی سب سے چھوٹی اور دور افتادہ ریاستوں میں سے ایک ہے، جو  ترقی کی ایک حیران کن مثال پیش کرتی ہے۔  یہ ریاست شمال اور شمال مشرق میں چین (تبت) ، مشرق میں بھوٹان سے ، مغرب میں نیپال ، اور جنوب میں بھارتی ریاست مغربی بنگال سے جُڑی ہوئی ہے۔ یہ ریاست سلیگوری کوریڈور جسے عرف عام میں چکن نیک کہا جاتا ہے ، سے قریب واقع ہے۔

سِکم کا کل رقبہ تقریباً 7,096 مربع کلومیٹر ہے، اور اس کی آبادی سات لاکھ سے کچھ زیادہ ہے، اس طرح یہ بھارت کی کم ترین آبادی والی ریاستوں میں شامل ہے۔ یہاں کی زمین زیادہ تر پہاڑی ہے، اور وسیع تر زرعی مقاصد کے لیے ناموزوں ہے۔ دور دراز ہونے کے باعث یہاں کوئی بڑی صنعت لگانا بھی ایک مشکل کام ہے۔ لیکن ان تمام جغرافیائی رکاوٹوں کے باوجود سِکم بھارت کی امیر ترین ریاست بن  چکی ہے۔ 2024 میں اس ریاست کی فی کس آمدن تقریباً 5 لاکھ 80 ہزار بھارتی روپے (یعنی تقریباً 6700 ڈالر) تھی، جو کہ بھارت کے قومی اوسط یعنی تقریباً 2400  ڈالر سے کہیں زیادہ ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ سِکم کی فی کس آمدن بھارت کی صنعتی ریاست گجرات، اور آئی ٹی کے گڑھ کرناٹک (بینگلور) اور تلنگانہ (حیدرآباد) سے بھی زیادہ ہے۔ اپنی ڈالر ویلیو میں ریاست کی آمدن اپر مڈل انکم گروپ سے مطابقت رکھتی ہے۔ اگر اس آمدن کو قوتِ خرید (Purchasing Power) کے حساب سے دیکھا جائے تو سِکم بعض ترقی یافتہ ممالک کے برابر کھڑا ہو جاتا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک چھوٹی اور دور دراز ریاست اتنی خوشحالی کیسے حاصل کر سکتی ہے؟ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ آزاد کشمیر جو جغرافیائی لحاظ سے سِکم سے کافی  مشابہت رکھتا ہے، اس ماڈل سے کیا کچھ سیکھ سکتا ہے؟

سِکم اور آزاد کشمیر میں کئی نمایاں مشابہتیں پائی جاتی ہیں۔ دونوں علاقے ہمالیائی خطے میں واقع ہیں، بین الاقوامی سرحدوں سے متصل ہیں، فطری وسائل اور قدرتی خوبصورتی سے مالا مال ہیں۔  دونوں علاقے پہاڑی، دور افتادہ، اور انفراسٹرکچر کی کمی سے دوچار ہیں۔ لیکن سِکم نے اپنی مشکلات کو مواقع میں تبدیل کیا، جبکہ آزاد کشمیر ابھی بھی غربت، پسماندگی اور ماحولیاتی بگاڑ جیسے مسائل میں پھنسا ہوا ہے۔

——پن بجلی——-

سِکم کی معیشت کا سب سے بڑا ستون پن بجلی ہے۔ سکم نے اپنی برفانی ندی نالوں سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے بنائے ہیں، جو ریاست کی ضروریات سے زائد بجلی پیدا کرتے ہیں، اور فاضل بجلی دوسرے بھارتی علاقوں کو فروخت کی جاتی ہے۔ اس سے ریاستی حکومت کو مستقل اور خود مختار آمدن حاصل ہوتی ہے۔

آزاد کشمیر میں بھی ایسی ہی صلاحیت موجود ہے۔ منگلا، کروٹ، پترنڈ،  گل پور، نیلم جہلم،  جیسے منصوبے بڑی مقدار میں بجلی پیدا کرتے ہیں، لیکن اس کے باوجود ریاست کا بجٹ وفاق پر انحصار کرتا ہے۔ آزاد کشمیر کے  ان  آبی منصوبوں کا انتظام وفاقی حکومت کے پاس ہے، اور ان سے حاصل ہونے والی آمدن آزاد کشمیر کو براہِ راست نہیں ملتی۔ بعض منصوبوں سے انتہائی محدود مقدار میں واٹر یوزیج چارجز ملتے ہیں جو آزاد کشمیر کے بجٹ کا 2 فیصد بھی نہیں بناتے۔ نتیجتاً آزاد کشمیر کو وفاقی گرانٹس پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ یہی حال دیگر وفاقی اکائیوں کا بھی ہے، اور اس انتظام کی وجہ سے وفاق کو صوبوں سے اور صوبوں کو وفاق سے شکایتیں رہتی ہیں۔ وسائل کے  انتظام کا یہ طریقہ  اصلاح طلب ہے۔  میرے نزدیک وفاق کو چاہئیے کہ تمام وفاقی اکائیوں کو اپنے وسائل کا انتظام اپنے ہاتھ رکھنے کی اجازت دے، اور ہر وفاقی اکائی اپنی  آمدن کا ایک حصہ وفاق کے ساتھ شیئر کرے۔ اس سے نہ صرف وفاقی اکائیوں کی آمدن میں اضافہ ہو گا بلکہ مرکز و صوبہ کے درمیان ہم آہنگی بھی پیدا ہو گی۔

——ایکو ٹورزم——–

سِکم کی دوسری اہم طاقت ایکو ٹورزم ہے — یعنی سیاحت کا ایسا ماڈل جو ماحول کو نقصان پہنچائے بغیر ترقی کا ذریعہ بنے۔ سِکم نے اپنے خوبصورت قدرتی مناظر، بدھ مت کے قدیم مقامات، اور صاف ستھری فضا کو سیاحت کے ایک پرکشش ماڈل میں تبدیل کیا ہے۔ یہاں سیاح تجارتی مراکز کے لیے نہیں، بلکہ سکون، روحانیت، اور فطرت کے قرب کے لیے آتے ہیں۔ ریاست نے ماحولیاتی تحفظ، صفائی ستھرائی، ویسٹ مینجمنٹ، اور مقامی گائیڈز کی تربیت پر وسیع تر  سرمایہ کاری کی ہے۔

اس کے برعکس آزاد کشمیر ابھی تک اس راستے پر نہیں چل سکا۔ یہاں قدرتی خوبصورتی تو  ضرور موجود ہے، لیکن کوئی ویسٹ مینجمنٹ کا نظام نہیں، صفائی کے انتظامات کمزور ہیں، اور سیاحت بے ہنگم انداز میں بڑھ رہی ہے۔ نتیجتاً ماحول گندا ہوتا جا رہا ہے۔ آزاد کشمیر کو چاہیے کہ سِکم کی طرز پر ایک مکمل “ایکو ٹورزم پالیسی” ترتیب دے، جس میں مذہبی مقامات تک محدود رسائی، ماحول دوست ہوٹلز، مقامی تربیت یافتہ گائیڈز، اور سیاحت سے حاصل آمدن کو ماحولیاتی تحفظ پر خرچ کرنے کی حکمت عملی شامل ہو۔

———نامیاتی زرعی پیداوار———

سِکم کا ایک اور کارنامہ یہ ہے کہ یہ بھارت کی پہلی 100 فیصد نامیاتی (Organic) ریاست بن چکی ہے۔ اس کی تمام زراعت، کیمیکل کھاد اور زہروں سے مکمل طور پر پاک ہے، اور اسے باضابطہ طور پر سرٹیفائیڈ کیا گیا ہے۔ اس کی زرعی اجناس جیسے الائچی، ادرک، ہلدی، اور نارنگیاں عالمی مارکیٹ میں بہترین داموں فروخت ہوتی ہیں۔ کسانوں کو بہتر آمدن ملتی ہے اور ماحولیاتی توازن بھی برقرار رہتا ہے۔

آزاد کشمیر میں ابھی تک نامیاتی زراعت کا کوئی  تصور تک  موجود نہیں۔ جبکہ یہ علاقہ اپنی قدرتی صفائی، کم کیمیکل استعمال، اور پہاڑی پانی کی وجہ سے بہترین نامیاتی زون بن سکتا ہے۔ اگر حکومت مناسب اقدامات کرے تو آزاد کشمیر نامیاتی شہد، سیب، اخروٹ، دیسی مرغی، ٹراؤٹ مچھلی، اور جڑی بوٹیوں کی پیداوار کا ایک عالمی مرکز بن سکتا ہے۔

——–ہائی ویلیو زراعت———

سکم نے عام زراعت کی بجائے ہائی ویلیو اگریکلچر پر توجہ دی ہے۔  سِکم میں الائچی، ادرک اور ہلدی  کی کاشتکاری ہوتی ہے، جن کی قیمت مارکیٹ میں کافی زیادہ ہوتی ہے۔ اگر آزاد کشمیر بھی ہائی ویلیو اگریکلچر پر توجہ دے تو  آزاد کشمیر میں ادرک وغیرہ کے ساتھ ساتھ  گچھی،  زعفران، جڑی بوٹیاں، اور مخصوص پھل اگائے جا سکتے ہیں۔ ان فصلوں سے کم رقبے پر زیادہ منافع حاصل ہو سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ یونیورسٹیاں اور زرعی محکمے مل کر تحقیقی اور عملی منصوبے شروع کریں تاکہ ان پیداوار کو تجارتی سطح پر لے جایا جا سکے۔

———–ادویات سازی اور مقامی صنعت——–

سکم دور دراز علاقہ ہونے کی وجہ سے بڑی صنعتوں کیلئے غیر موزوں ہے۔ لیکن اس کے باوجود سِکم میں فارماسیوٹیکل (ادویات سازی) کی ایک چھوٹی مگر مؤثر صنعت موجود ہے، جو  زیادہ تر یہاں کے مقامی جڑی بوٹیوں پر منحصر ہے۔ یہاں ماحول صاف ہے اور پیداواری لاگت کم ہے ، اس لئے کئی بڑی کمپنیاں یہاں پلانٹ لگا چکی ہیں ۔ اس سے روزگار، ٹیکس آمدن، اور ٹیکنالوجی کی منتقلی بھی ہو رہی ہے۔

آزاد کشمیر بھی ہربل مصنوعات، قدرتی کاسمیٹکس، جڑی بوٹیوں پر مبنی ادویات، اور چائے جیسے شعبوں میں سرمایہ کاری کر سکتا ہے، اگر حکومت ان کی پیکنگ، برانڈنگ، اور مارکیٹ تک رسائی کو یقینی بنائے۔

————اصل محرک: قیادت اور وژن————-

سِکم کی کامیابی کے پیچھے ایک بصیرت افروز، دیانت دار، اور مقامی سطح پر مربوط طرزِ حکمرانی ہے۔ یہاں ترقی کی راہیں عوامی شرکت، شفافیت، اور مرکز سے مثبت تعاون کی بنیاد پر بنی ہیں۔

آزاد کشمیر میں اس کے برعکس، سیاسی عدم استحکام، کمزور ادارے، اور وفاق پر انحصار کی روایت ہے۔ جب تک ایک واضح، دیرپا اور مقامی قیادت پر مبنی ترقیاتی وژن نہیں ہو گا، فطری وسائل ضائع ہی ہوتے رہیں گے۔ آزاد کشمیر کو چاہیے کہ ایک 10 سے 15 سالہ جامع ترقیاتی حکمت عملی مرتب کرے، جس میں سِکم جیسے ماڈلز سے سیکھنے کا جذبہ شامل ہو۔

———–پاکستان کا سکم———

سِکم کی ترقی کوئی معجزہ نہیں، بلکہ مقامی وسائل کے بہتر استعمال اور ماحول دوست حکمت عملیوں کا نتیجہ ہے۔ اس کی کہانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ پہاڑی اور دور افتادہ علاقے بھی خوشحال ہو سکتے ہیں، اگر ان کے ساتھ منصوبہ بندی، دیانتداری، اور عوامی شرکت ہو۔ آزاد کشمیر کے لیے پیغام واضح ہے: فطرت ہماری کمزوری نہیں، طاقت بن سکتی ہے — بشرطیکہ ہم سیکھنے کو تیار ہوں۔ سِکم نہ صرف ایک ماڈل ہے، بلکہ ایک قابلِ تقلید راستہ ہے، جسے اپنا کر آزاد کشمیر بھی “پاکستان کا سِکم” بن سکتا ہے۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

Skip to content