ناولٹ نگاری کا فن قصہ تحریر کرنے کا جدید فن ہے جسے انسانی زندگی سے مربوط کیے بغیر، تخلیق کرنا ناممکن ہے۔جس شد و مد سے ناول اور افسانہ زندگی سے انسلاک رکھتا ہے بالکل اسی طرح ناولٹ بھی زندگی سے جڑا ہوتا ہے۔ناول اور افسانہ کے مانند یہ بھی جدید دور کی نمایندہ صنف ہے۔اس صنف کی بنیاد تقسیم ِ ہندوستان سے پہلے پڑ چکی تھی لیکن اس کو فروغ تقسیم کے بعد ہوا۔علامہ نیاز فتح پوری کے ناولٹ ” ایک شاعر کا انجام” اور” شہاب کی سرگزشت” سے ہی اس کے خدوخال واضح ہو گئے تھے۔اس کے بعد کشن پرشاد کول،راجندر سنگھ بیدی،کرشن چندر،سہیل عظیم آبادی،سید سجاد ظہیر،خواجہ احمد عباس،جوگندر پال اور انتظار حسین جیسے تخلیق کاروں نے اس سلسلے کو آگے بڑھایا۔ان میں سے ایک نام عبداللہ حسین کا بھی ہے جنھوں نے “رات” اور” قید” جیسے اہم ناولٹ تحریر کیے۔
“رات” کی کہانی کا مرکزی کردار شوکی ہے جو اپنی بیوی کی آمدن پر زندگی کے بقیہ دن گزار رہا ہے۔وہ صحافت کے پیشے سے وابستہ ہے جو اپنے مثالی تصورات اوراخلاقی اقدار کےحد سے زیادہ قائل ہونے کے باعث صحافت کی دنیا میں پیسہ کمانے کے لیے ناموزوں ہے۔ایک وقت میں اس کی ریڈرشپ لاکھوں میں تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ صحافت کے انداز بدل گئے، جس کے باعث اب وہ معمولی صحافی بن کر رہ گیا۔اس کی بیوی کا نام جمال افروز انصاری ہے جسے جال کہ کر پکارا جاتا ہے۔وہ جسم اور روح کا رشتہ قائم رکھنے کے لیےملازمت کی تلاش میں ہے تاکہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ہزیمت سے بچا جا سکے۔ایک وقت میں آسائشات کا سامان جو انھوں نے خریدا تھا، اب وہ باری باری بکتا چلا جا رہا ہے لیکن ضروریات پھر بھی پوری نہیں ہو پارہیں۔اس صورتِ حال سے قاری پر انکشاف ہوتا ہے کہ معاشرے میں عزت اور برتری قائم رکھنے کے لیے دولت کماناکتنی ضروری ہے۔
کہانی کے گزشتہ واقعات کی پردہ کشائی کی غرض سے مصنف فلیش بیک کی تکنیک سے کام لیتا ہے جس سےشوکی کا بچپن، جوانی اور کالج کے ایام قاری پر ظاہر ہوتے ہیں ۔ جال اور شوکی کے علاوہ ،تیسرا اہم کردار ریاض ہے جو شوکی کا کالج کے دنوں میں دوست رہا ہے۔ پھر وہاں کے الیکشن میں دونوں دوست ایک دوسرے کے آمنے سامنے آجاتے ہیں جس سے ان کے مابین مسابقت کی دوڑ شروع ہوجاتی ہے ۔ دونوں کالج میں شہرت اور عزت کے بامِ عروج پر ہیں لیکن شوکی محنت، لگن اور شخصیت کے کرشمے سے، ریاض کو شکست سے دوچار کر دیتا ہے۔ وہ کالج چھوڑ کر چلا جاتا ہے اور زندگی میں محنت کرتا ہے۔ معاشرتی اتار چڑھاؤ کو سمجھتا ہے ۔ اس کے والد انگریزی اخبار چلاتے ہیں ،وہ اسی پیشے کو منتخب کرتا ہے اور ملک کا نامور صحافی اوراخبارات کا مالک بن جاتا ہے۔ وہ شوکی جس نے اسے کالج میں شکست سے دوچار کیا تھا ، اب اس کے سامنے ایک شکست خوردہ انسان ہے۔ اس لمحے پر قاری کو احساس ہوتا ہے کہ زندگی میں کوئی شکست عارضی شکست نہیں ہوتی اور نہ ہی کوئی جیت مستقل جیت ہوتی ہے۔ایک وقت کا فاتح مستقبل میں مفتوح بھی ہو سکتا ہے۔
ناولٹ کی کہانی میں شوکی اور ریاض کی رفاقت اس وقت رقابت میں بدل جاتی ہے جب ان کی زندگی میں جمال افروز انصاری داخل ہوتی ہے۔ وہ اس کی خوب صورتی اور شخصیت کے جادو میں اس طرح مسحور ہوئے کہ باہمی،دوستی اور رفاقت منظر سے غائب ہو گئی۔ وہ جو ایک دوسرے پہ جان دیتے تھے اور دوستی کی خاطر ساری دنیا سے لڑائی کا خطرہ مول لینے سے گریز نہیں کرتے تھے، وہ اب ایک دوسرے کے مدِ مقابل تھے۔عبداللہ حسین کے الفاظ میں ” اس کی شخصیت اور دلکشی کو دونوں نے اپنی اپنی جگہ پر الگ الگ دیکھا اور محسوس کیا اوربڑھنے لگے۔۔۔دور ہونے لگے،پہلے اس کا ذکر آپس میں بند ہوا،پھر طنزیہ جملوں پر نوبت آئی،پھر آہستہ آہستہ سب کچھ ختم ہوگیا اور وہ اپنے اپنے رستوں پر بڑھتے گئے۔”اس طرح ان کے مابین ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی دوڑ شروع ہوئی اور شوکی نے جال کو ریاض سے جیت لیا۔مگر یہ جیت عارضی ثابت ہوئی۔ وہ معاشی ترقی کے میدان میں ان سے آگے نکل گیا۔آخر کار جس کے سامنے انھیں گھٹنے ٹیکنے پڑے۔
مذکورہ ناولٹ میں ہمارے معاشرے میں صحافت کے زوال اور حقیقی صحافت سے گریز پر بھی طنز ملتا ہے۔اس وقت معاشرے میں صحافتی ادارے میڈیا ہاؤسز میں تبدیل کر دیے گئے ہیں، جن سے کاروباری مالکان،ملٹی نیشنل کمپنیاں،بینکس،کمرشل ادارے اورسٹیٹ ایجنٹ حکومت کے ساتھ مل کر ناجائز منافع کما رہے ہیں۔صحیح معنوں میں جو صحافی ہے وہ مناسب تنخواہ نہ ملنے کے باعث خود کشی کرنے پر مجبور ہے۔ہوس پرست سوچ اور منافع کے لالچ نےتخلیقی صحافت کے سوتے خشک کر دیے ہیں اور دنیا میں جس تیزی سے جدت آرہی ہے ، اس سے ہمارا صحافی محروم ہے۔یہی صورتِ حال شوکی کے ساتھ درپیش ہے جو تخلیقی اور اصلاحی بنیادوں پر کام کرنا چاہتا ہے لیکن مارکیٹ میں اس کی گنجایش موجود نہیں جبکہ جس طرح کی زرد صحافت موجود ہے ،اس کی طبیعت اس سے رغبت نہیں رکھتی۔میڈیا مالکان منافع اورتجارتی مفادات کو اوّلیت دیتے ہیں ، ان کے نزدیک عوام کو حقائق سے آگاہ کرنا اور ان کے سماجی شعور کوبہتر بنانا، ان کی ذمہ داری میں شامل نہیں ۔اسی لیے ریاض جیسے میڈیا مالکان کامیاب ہیں اور شوکی جیسے نظریاتی اورسچ کا ساتھ دینے والے صحافی دو وقت کی روٹی کے حصول کے لیے ان کے محتاج ہیں۔اسی لیے وہ ناکامی کے باعث ذہنی الجھنوں،پریشانیوں اورنفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں۔ شوکی کے ساتھ بھی یہی مسئلہ ہے ، اسی لیے وہ سستی اور کاہلی کا شکار ہے اور اپنی بیوی کی خوشیوں سے بھی لاتعلق ہو جاتا ہے۔حالاں کہ وہ سراپا محبت اور وفادار ہے۔ ریاض جب اسے اپنی امارت سے مرعوب کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ ذرہ بھر متاثر نہیں ہوتی اور نہ ہی شوکی سے علاحدگی کا خیال ذہن میں لاتی ہے۔ یہاں تک کہ اسے شوکی سے شادی کرنے پر کوئی پچھتاوا بھی نہیں ۔ وہ مشکل وقت میں اس کے ساتھ کھڑی ہے۔اس کے پاس علم ، حسن اور اعتماد ہے لیکن تکبر اور احساسِ برتری نام کو نہیں۔اس کردار کے ذریعے عبداللہ حسین نے مشرقی عورت کا مثالی روپ قاری کے سامنے پیش کیا ہے۔
“رات” کے کردار متحرک کردار ہیں جنھیں مصنف نے المیہ کا شکار دکھایا ہے۔شوکی اپنی ہی نظروں کے سامنے زوال کے بعد عروج دیکھتا ہے۔ ریاض کا کردار مادی ترقی تو کر جاتا ہے لیکن اس کے اندر سے جال کو نہ پانے کا دکھ اپنی جگہ موجود ہے ۔ دولت اور رتبہ ہونے کے باوجود اسے حقیقی خوشی میسر نہیں۔پاکستان کی صحافتی صورتِ حال اور سرمایہ دارانہ کلچر میں مسابقت کو موضوع بناتا ہوا یہ ناولٹ ،اثر انگیز ہے جو قاری کے سامنے وجودی، سماجی اور ثقافتی سطح پر کئی سوالات سامنے لاتا ہے۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.