1985

 سے 2025 کے درمیان بچوں کے ادب نے ایک طویل سفر طے کیا ہے۔ یہ سفر صرف وقت کا ہی نہیں بلکہ تہذیب، ٹیکنالوجی، معاشرتی رویوں اور تعلیمی رجحانات میں تبدیلی کا بھی عکاس ہے۔

 زبان اور انداز بیان

گزشتہ دور کی کہانیوں میں زبان نہایت سادہ، شائستہ اور خالص اردو پر مشتمل ہوتی تھی۔ بچے ان کہانیوں سے نہ صرف سبق سیکھتے بلکہ زبان و بیان کی مہارت بھی حاصل کرتے تھے۔ آج کے دور میں کہانیوں کی زبان زیادہ غیر رسمی ہو گئی ہے۔ انگریزی الفاظ کا بے جا استعمال، تیز رفتار جملےاور بول چال کے انداز میں لکھی گئی تحریریں عام ہو گئی ہیں۔ اس سے زبان کی خوبصورتی کم ہونے لگی ہے۔

تربیت و اخلاقیات

گزشتہ دور کی کہانیاں واضح تربیتی پہلو رکھتی تھیں۔ سچائی، دیانت، بڑوں کا ادب، صفائی، وقت کی پابندی اور مہمان نوازی جیسے اوصاف کو کہانی کے پلاٹ میں اس طرح سمویا جاتا کہ بچہ غیر محسوس طریقے سے ان خوبیوں کو اپنا لیتا۔ آج کل کی کہانیوں میں اگرچہ اخلاقی پیغام موجود ہوتا ہے لیکن وہ اکثر ثانوی ہوتا ہے یا تفریح کے پیچھے دب جاتا ہے۔

کرداروں اور ماحول میں تبدیلی

گزشتہ سالوں میں لکھی گئی کہانیوں کے کردار اپنے گرد و نواح سے تعلق رکھتے تھے۔دادا دادی، استاد، ہمسائے، جانور، یا گاؤں کے لوگ۔ یہ کردار بچوں کو اپنے معاشرے سے جوڑتے تھے۔ اب کہانیوں میں خیالی کردار، روبوٹس، خلائی مخلوق یا سپر ہیروز آ گئے ہیں۔ بچے دنیا سے جڑنے کے بجائے خوابوں کی دنیا میں زیادہ وقت گزارنے لگے ہیں۔

موضوعات میں وسعت

پہلے کی کہانیاں محدود مگر موثر موضوعات پر مشتمل ہوتی تھیں۔جیسا کہ سچ بولنا، جھوٹ سے بچنا، دوستی، قربانی وغیرہ۔ اب بچوں کی کہانیاں سائنس، ماحولیات، مصنوعی ذہانت، ماحولیاتی تبدیلی، خود اعتمادی اور ذہنی صحت جیسے جدید موضوعات کا احاطہ کر رہی ہیں۔ یہ ایک مثبت پیش رفت ہے مگر اخلاقی توازن کے  اگر بغیر ہوں تو  فائدہ محدود ہو جاتا ہے۔

 اشاعت، تصویر کشی اور پیشکش

گزشتہ سالوں  میں کہانیوں کی اشاعت سادہ ہوتی تھی۔ سیاہ و سفید تصاویر،  نارمل کاغذ اور محدود رنگوں میں طباعت عام تھی۔ اس کے باوجود کہانی کی جان اس کا مواد ہوتا تھا۔ آج کے دور میں کتابیں رنگین، دیدہ زیب اور اعلیٰ طباعت کے ساتھ شائع ہو رہی ہیں لیکن بعض اوقات یہ خوبصورتی مواد پر حاوی ہو جاتی ہے۔ تصویریں زیادہ اور کہانی کم ہو جاتی ہے۔(اختلاف رائے کا حق آپ رکھتے ہیں)

ذرائع اور رسائی کا فرق

اس دور میں کہانیاں زیادہ تر رسالوں، کتابوں یا بڑوں کی زبانی حاصل ہوتی تھیں۔ بچوں کو مطالعہ کا ذوق از خود پیدا کرنا پڑتا تھا۔ آج کہانیاں موبائل ایپلیکیشنز، یوٹیوب، آڈیو بکس اور اینی میٹڈ سیریز کے ذریعے مل رہی ہیں۔ یہ آسانی فائدہ مند بھی ہے اور نقصان دہ بھی۔کیونکہ مطالعہ کی عادت اور تخیل کی پرورش کمزور پڑ رہی ہے۔

میری رائے:

گزشتہ  سالوں  کی کہانیاں سادگی، تہذیب اور خالص تربیت کا آئینہ دار تھیں۔ آج کے دور  کی کہانیاں معلومات، تنوع اور ٹیکنالوجی کی نمائندہ ہیں۔ دونوں میں خوبیاں اور خامیاں ہیں۔ اگر آج کی کہانیوں میں پرانے وقتوں کی اخلاقیات، زبان کی شائستگی، اور کردار کی حقیقت پسندی شامل کر لی جائے تو بچوں کے لیے ایک متوازن اور مؤثر ادب تشکیل دیا جا سکتا ہے۔

آپ سب سے سےایک  سے سوال

آپ کے خیال میں آج کی بچوں کی کہانیاں ان کی شخصیت سازی، تربیت اور زبان دانی میں کس حد تک کامیاب ہیں؟؟؟؟؟؟؟


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

Skip to content