ہمارے بچپن میں رشوت لینا  بہت بُرا عمل سمجھا جاتا تھا۔ رشوت لینے والے کو سماج میں ناپسند کیا جاتا تھا۔ لوگ  ایک راشی کے ساتھ سماجی تعلقات رکھنے  سے گریز اور ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتےتھے۔ میں نے ایسے لوگوں کو بھی دیکھا ہے جنھوں نے اپنے حقیقی بھائیوں تک سے تعلقات محض اس لیے  منقطع کررکھے تھے کہ وہ رشوت لیتے تھے۔ اُس دور میں اگر کوئی رشوت لیتا تھا تو اُسے دُور دُور تک لوگ اسی حوالے سے جانتے تھے۔ صحافتی زبان میں وہ ایک خبر ہوتی تھی کہ فلاں راشی ہے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے سماج زوال کے راستے پر چل نکلا اور چند دہائیوں میں گہری کھائیوں میں لُڑھکتا چلا گیا۔ آج نوبت یہ ہے کہ کوئی دیانت دار شخص ڈھونڈنے سے ملتا ہے۔ گویا آج خبر یہ بات کہلائے گی کہ فلاں دیانت دار ہے۔

یوں تو ہر محکمے میں بددیانتی بدرجہ اُتم موجود ہے مگر محکمہ پولیس اس حوالے سے بہت بدنام ہے۔ظلم و زیادتی کا شکار عوام جب داد رسی کے لیے پولیس کے پاس جاتے ہیں تو پھر وہ پولیس کے ظلم کا شکار ہوتے ہیں۔عام تاثر یہ ہے کہ اس محکمے سے وابستہ افراد مال بنانے کے چکر میں عوام سے مال پانی طلب کرتے ہیں مگر سو فیصدی ایسا نہیں ہے۔ اس محکمے سے وابستہ افراد  کو کبھی  مجبوری اور اُوپر سے آنے والے احکامات کی تعمیل کے لیے بھی رشوت لینے کی راہ اپنانی پڑتی ہے۔ایک ایس ایچ او کو انتہائی محدود بجٹ دیا جاتا ہے جو کہ معمول کی گشت کے لیے درکار فیول اور گاڑی کی مرمت کے لیے بھی ناکافی ہوتا ہے۔ پھر اُوپر سے کبھی آئی جی اور کبھی کسی کے دورے کے موقع پر کھانے کے انتظامات کے احکامات موصول ہونے پر  اُس کے پاس دو ہی آپشن ہوتے ہیں، وہ اپنی تنخواہ سے اخراجات کرے یا پولیس اسٹیشن آنے والے عوام سے رشوت طلب کرے۔ بعض جگہوں پر تو سنیئر آفیسرز پولیس اسٹیشن کے انچارج سے مبینہ طور پر منتھلی بھی وصول کرتے ہیں۔یوں اس محکمے سے وابستہ افراد کو محکمانہ طور پر رشوت ستانی کی طرف دھکیلا جاتا ہے۔ مگر کیا اس کانِ نمک میں آنے سے سب ہی نمک ہوجاتے ہیں؟ نہیں ایسا بھی نہیں ہے، کچھ مثالیں ایسی ضرور ہیں کہ ہم کہہ سکیں دیکھو فلاں نے اپنا دامن ان آلائشوں سے پاک رکھا۔ ایسی ہی ایک مثال ہمارا دوست فیاض سرور ہے۔ کبھی میں دوستوں کے بارے میں لکھنے سے گریز کرتا تھا مگر پھر یہ سوچ کر میں نے اپنی پالیسی سے رجوع کیا کہ اگر کوئی میرٹ پر پورا اُترتا ہے تو اُسے محض اس لیے کیونکر نظرانداز کردیا جائے کہ اُس کے ساتھ آپ کی دوستی یا ذاتی تعلق ہے۔ نوے کی دہائی میں جب ہم  راولاکوٹ کالج میں پہنچے تو نواحی علاقے متیالمیرہ سے تعلق رکھنے والے لمبے قد کے گھنگریالے بالوں اور مسکراتے چہرے والے فیاض سرور سے ملاقات ہوئی۔ کلاس، مضامین اور سیکشن تک ایک ہونے کی وجہ سے فیاض سرور کے ساتھ ہر روز کافی وقت گزرتا، یوں اُس کے ساتھ تعلق جلد ہی گہری دوستی میں بدل گیا۔ اُس وقت کے ہمارے سارے دوست خدا کے فضل اور اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ کسے معلوم تھا کہ فیاض سرور ایک روز محکمہ پولیس جوائن کرے گا۔ وہ پشاور یونیورسٹی میں بی ایس سی آنرز کا سٹوڈنٹ تھا جب رونامہ نوائے وقت میں چھپا محکمہ پولیس ‘‘آزادکشمیر‘‘ کا اشتہار اُس کی نظروں سے گزرا جس میں اسسٹنٹ سب انسپکٹرز(اے ایس آئی) کی بھرتیوں کے لیے درخواستیں طلب کی گئی تھیں۔ فیاض سرور نے یہ سوچ کر یونہی درخواست ڈال دی کہ بھرتیاں تو سفارش پر  ہی ہوں گی، چلو کوشش کرنے میں کیا حرج ہے۔ خیر سے اُس کی میرٹ پر سلیکشن ہوگئی۔ محکمہ پولیس کے سنیئرز نے اُس کے ساتھ کمال مہربانی اور شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اُسے بی ایس سی آنرز کا امتحان دینے تک چند ماہ کی مہلت دے دی۔ پھر وہ محکمانہ تربیت کے بعد مختلف تھانوں میں تعینات رہا۔ جہاں بھی گیا، رشوت، سفارش سے دور رہنے،خوش اخلاقی سے پیش آنے اور  مظلوموں کی داد رسی کرنے کے باعث وہ خلقِ خدا کے دلوں میں گھر کرتا گیا۔ ڈیپوٹیش پر موٹروے پولیس میں گیا تو اعزازوں کے حصول کے بعد واپس اے جے کے پولیس میں لوٹا۔ پھر اُسے اُس کے تجربے کی وجہ سے ٹریفک پولیس میں تعینات کیا گیا تو ہر طرف اُس کی دھوم مچی۔ پھر احتساب بیورو میں بطور انسپکٹر چند سالہ تعیناتی کے بعد حال ہی میں ترقی یاب ہوکر بطور ڈی ایس پی تعینات ہوا ہے۔ فیاض سرور جیسے لوگ پولیس کا مثبت چہرہ ہیں جو پولیس کا امیج بہتر کرنے کے باعث بنتے ہیں۔ ضروریات اور خواہشات سے کون مبرا ہے مگر کرپش کے ذریعے ضرویات پوری کرنے اور خواہشات کی تکمیل کے مواقع ہونے کے  باوجود اپنے آپ کو اپنی تنخواہ تک محود رکھنے والوں کا میری نظر میں بڑا مقام ہے۔ اچھی باتیں کرکے داد تو ہر ایک وصول کرنا چاہتا ہے مگر اچھائی اور بھلائی کے راستے پر چلنا میرے جیسے ہُما شُما کے بس کا روگ نہیں ، یہ مقام و اعزاز فیاض سرور جیسے قناعت اور صبر والے  اصحابِ کو ہی نصیب ہے۔ خدا اُسے خلقِ خدا کی خدمت کے راستے پر قائم رکھے ، ڈھیروں کامرانیوں اور خوشیوں سے نوازے۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

Skip to content