ابھی کچھ دیر پہلے گھر پہنچی تو پریس فار پیس پبلیکیشنز کی ڈائریکٹر پروفیسر فلک ناز نور کی طرف سے بھجوایا گیا پیارا سا پارسل موصول ہوا ۔ یہ وہ پارسل تھا جس کا میں بڑی شدت سے انتظار کر رہی تھی ۔ جھٹ پٹ پارسل کھولا اور فائنلی ایک شاہکار کتاب میرے ہاتھ میں تھی ۔ جی (طِفلِستان ) میرے والد محترم کی بچوں کے لیے لکھی پیاری پیاری نظموں سے سجی شاندار کتاب ہے جسے پریس فار پیس نے بہت دل سے شاندار طریقے سے شائع کیا ہے ۔
پیارے پیارے بچوں کی تصاویر سے سجا خوبصورت سرورق انتہائی دیدہ زیب ہے جو بچوں کو اپنی طرف ضرور متوجہ کرے گا ۔ ان شاء اللہ
رنگین طباعت ، نفیس پیپر ، جاذبِ نظر رنگوں کا امتزاج اور اور اور سب سے بڑھ کر کتاب کا دل موہ لینے والا سائز ، سچ پوچھیں تو طِفلِستان ہاتھ میں آتے ہی دل جھوم جھوم اٹھا ہے کہ
واہ پریس فار پیس تو اِک واری فیر چھا گئی ہے ۔
والد صاحب کی نظموں کا انتخاب میں نے کیا تو دل سے شائع اسے پریس فار پیس نے کیا ۔

طِفلِستان نام سے بچوں کے لۓ اگلا مجموعہ لانے کا ارادہ دنیا سے جاتے جاتے والد محترم کا تھا تو سرورق پر طِفلِستان کا جہان آباد سید ابرار گردیزی صاحب نے خوبصورت انداز میں کر دیا ۔
تزئین و آرائش امِ زینب نے کی تو طباعت کا فرض ابو موسیٰ نے سر انجام دیا اور یوں سب کی محنت کا منہ بولتا ثبوت بن کر ایک انتہائی خوبصورت کتاب اس وقت میرے ہاتھ میں ہے ۔
بچوں کے لیےلکھی خوبصورت حمد و نعت کے ساتھ ساتھ پیاری پیاری نظمیں اس کتاب کی خوبصورتی کو چار چاند لگائے ہوئےہیں ۔
مجھے پتہ ہے کہ جب یہ کتاب کسی سٹال پر پڑی ہوگی تو بچے بے اختیار اس کو اٹھا کر اپنے والدین کی طرف ملتجی نظروں سے دیکھیں گے کہ
پلیز پلیز پلیز مجھے یہ لینی ہے اور والدین بھی اپنے بچوں سے محبت میں اسے خرید کر ضرور دیں گے ۔
میری طرف سے ادارے کو ایک اور بہت پیاری کتاب شائع کرنے پر دل سے ڈھیروں مبارکباد ۔
طِفلِستان کا شائع ہونا میرے ان خوابوں میں سے ایک اور خواب کی تکمیل ہے جو میں اپنے والدِ محترم کے کام کو سمیٹنے کے حوالے سے دیکھتی ہوں ۔
پریس فار پیس کے روحِ رواں ظفر اقبال بھائی پر ہمیشہ میں اگر مان کرتی ہوں تو وہ بھی بھائیوں والا مان دیکر میرے دل میں اپنی عزت و احترام میں ایک درجہ اوپر ترقی پا جاتے ہیں ۔
ادارے کی مزید کامیابی کے لۓ بہت ساری دعائیں اور نیک خواہشات
اگر دنیا سے جانے والے پیاروں کو واقعی پتہ چلتا ہے کہ ان کے پیچھے ان کا کوئی چاہنے والا ان کے ادھورے کام دل سے سمیٹنے کی کوشش کرتا ہے تو میں آنکھیں بند کر کے تصور کی آنکھ سے اُس دنیا میں دیکھ سکتی ہوں کہ جنت میں بیٹھے میرے پیارے ابّو جی مسکرا دیۓ ہوں گے کہ اُن کی محبت میں ان کی جنونی بیٹی نے ایک قدم اور آگے بڑھا دیا ہے ۔
ہاں بس جب جب والِد صاحب کی کوئی کتاب میرے ہاتھ میں آتی ہے تو قطار در قطار آنکھوں سے نکلنے والے پانی کے قطرے میرے رخسار تک آ کر مجھے ان کی کمی کا احساس ضرور دلاتے ہیں اور دل بے اختیار خواہش کرتا ہے کہ
کاش ابّو جی آج آپ میرے ساتھ ہوتے .
عافیہ خالد بزمی
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.