تحریر: ڈاکٹر عتیق الرحمن

اس ہفتے اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ملک بھر میں “فنانشل لٹریسی ویک” منایا، جس کا تھیم تھا:

Financial Inclusion with Innovation and Collaboration۔

 یعنی وسیع تر مالیاتی شمولیت ؛ ایجادات و تعاون کے ساتھ۔ اس موقع پر مالیاتی تعلیم کی اہمیت اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ مالی شمولیت کو فروغ دینے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ اس سلسلہ میں سٹیٹ بینک نے آزاد کشمیر یونیورسٹی میں بھی متعدد پروگرام ترتیب دیے، اور کل انھوں نے ایک واک کا اہتمام بھی کر رکھا تھا۔

ورلڈ بینک کے مطابق، “فنانشل انکلوژن سے مراد افراد اور کاروباروں کی مفید اور سستی مالی مصنوعات (جیسے لین دین، ادائیگیاں، بچت، قرضے اور انشورنس) تک رسائی ہے جو ذمہ دارانہ اور پائیدار طریقے سے فراہم کی جائیں”۔

پاکستانی تناظر میں فنانشل انکلوژن کے تین بنیادی پہلو ہیں:

  1. بنیادی بینک اکاؤنٹس تک رسائی
  2. کاروباری قرضوں کی دستیابی
  3. مناسب شرح سود پر مالی خدمات کا حصول

اکاؤنٹس تک رسائی: ایک ابتدائی قدم

پاکستان میں فنانشل انکلوژن کا سب سے نمایاں پہلو بینک اکاؤنٹ کی موجودگی ہے۔ آج ایک عام فرد بھی اگر ایزی پیسہ یا جاز کیش جیسے پلیٹ فارمز پر اکاؤنٹ رکھتا ہو تو وہ نہ صرف رقم بھیج اور وصول کر سکتا ہے، بلکہ آن لائن خریداری اور اپنی مصنوعات کی آن لائن مارکیٹنگ بھی کر سکتا ہے۔

بنیادی بینک اکاؤنٹ تک رسائی کے حوالے سے آزاد کشمیر بہتر پوزیشن میں ہے۔  سٹیٹ بینک کے ڈیٹا کے مطابق 2023 میں مجموعی طور پر پاکستان میں 65 فیصد افراد کے پاس بینک اکاؤنٹ موجود تھے۔ آزاد کشمیر کیلئے اگرچہ الگ سے اعداد وشمار دستیاب نہیں، تاہم یہ بات حقیقت ہے کہ دور دراز دیہاتوں میں بھی بینک موجود ہیں اور لوگ آسانی سے اکاؤنٹ کھلو اسکتے ہیں۔ ایزی پیسہ اور دیگر موبائل بینکنگ اکاأنٹ کے زریعے بھی بہت سے لوگ مالیاتی خدمات تک رسائی رکھتے ہیں۔ یہ ایک مثبت پیش رفت ہے، لیکن فنانشل انکلوژن کی مکمل تصویر اس سے کہیں وسیع تر ہے۔

فنانشل انکلوژن کا دوسرا، اور شاید سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کاروباری صلاحیت یا مہارت رکھتا ہے، تو اسے سرمائے کی کمی کا سامنا نہ ہو۔ یعنی، اسے آسان شرائط پر قرضے ملیں تاکہ وہ اپنی صلاحیت کو کاروبار میں ڈھال سکے۔ ترقی یافتہ قوموں کی معیشت اسی تصور پر استوار ہے۔

اٹلی کی مثال اس حوالے سے خاص طور پر سبق آموز ہے۔ 2020 میں کرونا وائرس کے باعث اٹلی چین کے بعد سب سے زیادہ متاثرہ ملک تھا۔ حالات یہاں تک پہنچ چکے تھے کہ لاشوں کی تدفین اجتماعی قبروں میں مشینوں سے کی جا رہی تھی، اور ایک ہی سہ ماہی میں اٹلی کی جی ڈی پی 20 فیصد کم ہو گئی تھی۔

اس بحرانی صورتحال میں اٹلی نے فنانشل انکلوژن کو بحران سے نکلنے کا ذریعہ بنایا۔ حکومت نے 400 ارب یورو کی قرض ضمانت اسکیم متعارف کرائی۔ اس اسکیم کے تحت، حکومت نے عوام کی طرف سے قرض کی ضمانت دے دی، یعنی اگر کوئی شخص کاروباری تجویز کے ساتھ بینک جاتا، تو بینک اس سے ضمانت کا مطالبہ نہیں کرتا — کیونکہ حکومت خود اس کی ضمانت دے چکی ہوتی۔ نتیجتاً، عوام نے بڑی تعداد میں قرضے حاصل کیے، اور اپنے متاثرہ کاروبار سنبھال لیے۔ اس اقدام کے نتیجے میں اٹلی صرف ایک سہ ماہی میں اس بحران سے باہر نکل آیا۔

پاکستان کی معیشت بھی اس وقت سخت دباؤ میں ہے، اور اس کا پائیدار حل بھی یہی ہے کہ عوام کو بڑے پیمانے پر، آسان شرائط پر، کم شرح سود کے ساتھ کاروباری قرضے فراہم کیے جائیں۔ جب عام لوگ خود روزگار کے مواقع پیدا کریں گے تو معیشت خود بخود مستحکم ہو گی۔

اکثر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ پاکستانی عوام قرض لے کر واپس نہیں کرتے، اور کرپشن عام ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ عوام کی ایک غالب اکثریت  فطرتا کرپٹ نہیں ہوتی،  تاہم جب وہ حالات کو مشکل دیکھتے ہیں تو بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لیتے ہیں۔  جب عوام کی امدن ان کی بنیادی ضروریات زندگی کیلئے ناکافی ہوں تو دیانتداری کی نصیحت بے معنی رہتی ہے۔ اگر لوگوں کو مدد کی جائے  کہ وہ اپنا مستحکم زریعہ آمدن بنا سکیں تو ان میں سے اکثریت ایماندار رہنا چاہتی ہے۔

یہ بھی مدنظر رہے کہ اگر حکومت کے چند سو ارب اس طرح خرچ ہوں کہ واپسی ممکن نہ ہو تو اس سے حکومتیں دیوالیہ نہیں ہوتی۔ حکومت بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت سالانہ سینکڑوں ارب روپے بغیر کسی واپسی کی امید کے خرچ کر سکتی ہے، تو کیا کاروباری قرضے، جن کی واپسی کا امکان بھی ہو، زیادہ بہتر پالیسی نہیں؟

تاہم اس قسم کے قرض کی بہتر واپسی کیلئے متعدد اقدامات کئے جاسکتے ہیں۔مثا اگر کوئی شخص قرض واپس نہ کرے تو اسے آئندہ کے لیے کسی بھی سرکاری  ملازمت، عوامی عہدہ اور رعایتی مالیاتی سہولیات سے مستقل طور پر محروم قرار دے دیا جائے۔

فنانشل انکلوژن کا تیسرا اہم پہلو قرض  اور مالیاتی خدمات کی قیمت ہے؛  یعنی شرح سود۔ عوام کا نہ صرف یہ کہ مالیاتی خدمات رسائی ہونی چاہئے بلکہ مالیاتی خدمات کی قیمت بھی اتنی کم ہونی چاہئے کہ کوئی بھی ضرورت مند شخص قرض لینے پر آمادہ ہو۔ لیکن پاکستانی فائنانشل مارکیٹ اس حوالے سے انتہائی ناقص کارکردگی کی حامل ہے۔ چند ماہ پہلے تک اسٹیٹ بینک نے بنیادی شرح سود 22 فیصد پر رکھی ہوئی تھی۔ ایسے میں کون شخص ہے جو بینک سے قرض لے کر کاروبار شروع کرنے کا رسک لے گا؟

ایسے میں آپ ہر شخص کو قرض لینے کی  اجازت دے دیں تب بھی لوگ لینے پر تیار نہیں ہوں گے۔ ادھر حکومت کا حال یہ ہے کہ تمام بینکوں کے تمام تر قرض لینے کے لیے حکومت خود تیار ہے اور اس کے عوض کوئی بھی شے سود ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔ جب بینکوں کو حکومت کی شکل میں اتنا بڑا کلائنٹ دستیاب ہو تو وہ آخر کیوں کر عوام کو قرض دینے پر تیار ہوں گے؟

آزاد کشمیر میں قرض تک رسائی کے حوالے سے  فنانشل انکلوژن کی صورت حال خاصی مایوس کن ہے۔ یہاں مختلف بینکوں میں 550 ارب روپے سے زائد کے ڈپازٹس موجود ہیں، لیکن اس کے مقابلے میں تمام بینکوں کی طرف سے جاری کردہ قرض صرف 27 ارب روپے سے زائد ہے، جو کہ محض چند فیصد بنتا ہے۔

ان میں بھی زیادہ تر قرضے کنزیومر لونز ہیں، جیسے گاڑیاں یا سامانِ تعیش خریدنے کے لیے۔ کاروباری قرضوں کی مقدار تو 10 ارب روپے تک بھی نہیں پہنچتی۔ سوال یہ ہے کہ جب بینک عوام کی جمع شدہ رقم لے کر دوسرے علاقوں میں سرمایہ کاری کرتے ہیں، تو آزاد کشمیر کے نوجوانوں کو اپنا کاروبار شروع کرنے کے لیے وسائل کیوں فراہم نہیں کیے جاتے؟

فنانشل انکلوژن صرف یہ نہیں کہ ہر شخص کا بینک اکاؤنٹ ہو — بلکہ اس کا اصل مطلب ہے کہ ہر شخص کو اس کی مالی ضروریات کے لیے موزوں، سستی، اور بروقت مالی سہولیات فراہم کی جائیں۔ اسٹیٹ بینک اور کمرشل بینکوں کو چاہیے کہ وہ واضح حکمت عملی کے ساتھ یہ بتائیں کہ آزاد کشمیر میں کاروباری نوجوانوں کو کتنی فنانسنگ دستیاب ہے، اور کس قیمت پر۔

اگر ہم اس تصور کو مکمل اور منصفانہ طور پر اپنائیں، تو یہی فنانشل انکلوژن پاکستان کی معیشت کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

Skip to content