از قلم : عصمت اسامہ ۔
زعم اور فخر کسی بھی چیز کا ہو ،انسان کو خوار ہی کرتا ہے ،اس لئے کہ یہ دنیا ہے ہی دھوکہ دینے والی ،بے ثبات ،عارضی ،تغیر پسند مگر انسان کو اس دنیا کی حقیقت کا اندازہ اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک وہ اس کی بے وفائی کے تجربے سے خود نہ گزر جاۓ ۔ ایک بار کسی ڈاکٹر کے کلینک پر میرے ساتھ بیٹھی ایک خاتون سے یوں ہی بات چیت ہورہی تھی ،ہم دونوں کی باری آنے میں ابھی وقت تھا تو ہم کسی اسلامی موضوع پر گفتگو کر رہے تھے ،برسبیل ـ تذکرہ وہ خاتون کہنے لگیں کہ آج کل ہر دوسرا مسلمان داعی بنا ہوا ہے ۔انھوں نےسوشل میڈیا پرموجود ،عصر حاضر کے کچھ اسکالرز کے نام لئے ،ان کے بقول یہ سب دعوت دین کے پردے میں اپنی پروموشن کر رہے تھے۔
میں نے عرض کیا کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور اتنا واضح اور روشن دین ہے کہ کوئی اس کے نام پر گمراہی نہیں پھیلاسکتا، کیوں کہ ایک عام مسلمان بھی اسلام کی روح کو سمجھتا ہے۔ دوسری بات جو نبیء آخرالزمان صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے حجۃالوداع کے موقع پر تعلیم فرمائی ہے ،وہ یہ ہے کہ “اگر ایک آیت بھی تمہیں معلوم ہوتو اسے دوسروں تک پہنچا دو ۔۔۔۔۔۔!”۔اسلام ایک عالم گیر دین ہے ،اس پر کسی کا اجارہ تو نہیں ہونا چاہئیے۔یہ وقت تو دعوت عام کا ہے ،ساری انسانیت کو اس کی ضرورت ہے۔
جن فتنوں کے دور ہم سانس لے رہے ہیں ،ہر مسلمان کو دین کا علم سیکھ کر داعی بن جانا چاہئیے
لیکن اس خاتون نے بہت نخوت سے اس بات کو تسلیم نہیں کیا،پھر اپنے خاندان کے بارے میں بتایا کہ فلاں جگہ ان کا ایک آبائی مدرسہ ہے جہاں ان کا خانوادہ ،دعوت دین کی جدی پشتی تاریخ رکھتا ہے ،جس نے دین سیکھنا ہو ،وہاں داخلہ لےلے۔
اس طرح کے لوگ مختلف شعبہ ہاۓ زندگی میں قدم قدم پر ملنے لگے جو ہر جگہ اپنی اجارہ داری قائم کرلیتے ہیں ،چاہے وہ شعبہ تعلیم ہو یا بزنس کی فیلڈ۔ کہتے ہیں کہ بڑے درختوں کی ایک قسم ہوتی ہے جو اپنے ارد گرد کوئی چھوٹا پودا ،اگنے نہیں دیتی ،کئی انسان بھی بالکل ایسے ہی ہوتے ہیں جو اپنی ذات کو اتنا نمایاں کرنا چاہتے ہیں کہ ان کے سوا کوئی دوسرا وہاں دکھائی ہی نہ دے بلکہ وہ تعلق واسطہ بھی صرف اپنے جیسے لوگوں سے رکھتے ہیں جن سے ان کے مفادات وابستہ ہوں اور جن کے ساتھ مل کے وہ اپنا آکٹوپس بنا سکیں۔رفتہ رفتہ یہ گٹھ جوڑ ایک مافیا کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ یہ مافیا کسی بھی نظام کو تہس نہس کرنے کے لئے کافی ہوجاتا ہے بلکہ اکثر تو گھن کے کیڑے کی طرح اندر ہی اندر سے نظام کو کھا ہی جاتا ہے ۔
جب اور جہاں انھیں محسوس ہو کہ کوئی دوسرا فرد اپنی محنت اور لگن کی وجہ سے ان سے کام میں آگے بڑھ رہا ہے تو وراثتی پندار میں مبتلا یہ لوگ ، اسے نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ! ایسے وقت میں اپنی انا کی تسکین کی خاطر وہ دوسرے کو گرانے میں ہر حد پار کر جاتے ہیں، نہ انھیں اپنے بڑے قد کاٹھ کی حیا آتی ہے اور نہ خدا کا خوف یاد رہتاہے
درحقیقت بڑا انسان تو وہ ہوتا ہے جس کی موجودگی میں کوئی دوسرا انسان خود کو چھوٹا محسوس نہ کرے ان اکرمکم عند اللہ اتقکم: یعنی اللہ کے نزدیک تو عزت والا وہ ہے جو اس سے ڈرتا ہے
صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی پاکیزہ زندگیوں کو دیکھیں کہ ہر شخص دوسرے کے بارے میں اچھا گمان رکھتا تھا، اقامت دین کے راستے میں ایک دوسرے کی نیکیوں کو بڑھانے والے اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جانے والے لوگ تھے ، کچھ صحابہ کرام کا خاندان مسلمان نہیں ہوا ،کئی اسلام قبول کرنے کے بعد ،اپنے ہی قبیلے کی جانب سے سب سے زیادہ ستاۓ گئے مگر کسی نے دوسرے کو حسب نسب کا طعنہ نہیں مارا ، بلکہ ہر معرکہ میں محمود و ایاز ایک ہو جایا کرتے تھے ۔
قرآن پاک میں نصیحت کی گئی ہے
” اور جب اس سے کہا جاتا ہے کہ اللہ سے ڈرو تو اپنی عزت کا خیال اسے گناہ پر جمادیتا ہے ،ایسے لوگوں کے لئے بس جہنم کافی ہے اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے !( سورہء بقرہ آیت 296).
بقول شاعر ~
احساس کےمیخانےمیں کہاں اب فکرونظر کی قندیلیں
آلام کی شدت کیاکہیئے،کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے
کچھ حال کےاندھےساتھی تھےکچھ ماضی کےعیار سجن
احباب کی چاہت کیاکہیئے،کچھ یادرہی کچھ بھول گئے
کانٹوں سےبھرا ھےدامنِ دل،شبنم سےسلگتی ہیں پلکیں
پھولوں کی سخاوت کیاکہیئے،کچھ یادرہی کچھ بھول گئے !