ڈاکٹر عتیق الرحمن

ایسوسی ایٹ پروفیسر

آزاد جموں و کشمیر یونیورسٹی، مظفرآباد

حال ہی میں حکومتِ پاکستان نے کرپٹو کرنسی کے لیے ایک مشیر مقرر کیا ہے۔ یہ پیش رفت ظاہر کرتی ہے کہ حکومت اس بات پر غور کر رہی ہے کہ آیا کرپٹو کرنسی کو قانونی حیثیت دی جائے یا نہیں۔ اگرچہ یہ قدم بین الاقوامی مالیاتی رجحانات کا ساتھ دینے کے لیے اٹھایا گیا دکھائی دیتا ہے، مگر ضروری ہے کہ ہم کرپٹو کرنسی سے حاصل ہونے والے ممکنہ فوائد اور نقصانات کا سنجیدگی سے تجزیہ کریں۔

اس حوالے سے سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا واقعی پاکستان کو کرپٹو کرنسی سے کوئی ایسا اضافی فائدہ حاصل ہو سکتا ہے جو اس موجودہ مالیاتی نظام میں ممکن نہیں؟ میں نے یہ سوال مصنوعی ذہانت (AI) سے پوچھا، جس نے کئی ممکنہ فوائد کی فہرست پیش کی۔ ان میں غیر مرکزی نظام (Decentralization)، کم لاگت اور فوری لین دین، شفافیت، گمنامی، حکومت کے کنٹرول سے آزادی، مالیاتی شمولیت، بین الاقوامی منڈیوں تک رسائی، اور افراط زر پر قابو پانے کی صلاحیت شامل ہیں۔

ان دعووں کا تفصیلی تجزیہ کیا جائے تو حقیقت کچھ اور ہی سامنے آتی ہے۔ مثال کے طور پر، جہاں تک لین دین کی لاگت اور سہولت کا تعلق ہے، پاکستان میں جاز کیش اور ایزی پیسہ جیسے ڈیجیٹل پلیٹ فارم پہلے ہی مؤثر طریقے سے فعال ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر پے پال PayPal  جیسی سروسز بھی موجود ہیں، جو فوری لین دین کی سہولت فراہم کرتی ہیں، اور وہ بھی انتہائی کم لاگت پر۔ لہٰذا، کرپٹو کرنسی اس میدان کوئی اضافی فائدہ فراہم نہیں کرتی

مصنوعی زہانت نے کرپٹو کرنسی کے فوائد میں شفافیت اور گم نامی دونوں کا تذکرہ کیا۔ ان دونوں کا بیک وقت ذکر بھی تضاد پیدا کرتا ہے۔ بلاک چین پر لین دین کا ریکارڈ موجود ہوتا ہے، لیکن اس کے زریعے رقم بھیجنے والے کی شناخت انتہائی مشکل ہے۔ یہی گمنامی منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کے لیے ایک مثالی راستہ فراہم کرتی ہے۔ اس اعتبار سے یہ “فائدہ” دراصل ایک سنجیدہ خطرہ بن جاتا ہے۔

مالیاتی شمولیت کا دعویٰ بھی حقیقت سے دور ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ بینکنگ سسٹم سے محروم افراد کرپٹو کرنسی کے ذریعے مالیاتی نظام میں شامل ہو سکتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کرپٹو کرنسی ایزی پیسہ جیسے سادہ پلیٹ فارمز سے زیادہ قابل فہم یا قابل رسائی ہے؟ ایک عام شخص کے لیے ایزی پیسہ جیسے ڈیجیٹل والٹ کا استعمال کرپٹو کرنسی کی نسبت کہیں زیادہ آسان ہے، جبکہ کرپٹو کرنسی میں خریدو فروخت، والٹ کا تحفظ، اور تکنیکی پیچیدگیاں عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہیں۔

اسی طرح، بین الاقوامی منڈیوں تک رسائی کا فائدہ بھی گمراہ کن ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ کرپٹو کرنسی کے ذریعے ریگولیٹری حدود سے بچا جا سکتا ہے، جو کہ بظاہر فائدہ ہے لیکن درحقیقت غیر قانونی سرگرمیوں کو فروغ دینے کا سبب بن سکتا ہے۔

کرپٹو کرنسی کا سب سے نمایاں پہلو اس کا غیر مرکزی ہونا بتایا جاتا ہے۔ روایتی کرنسیوں پر مرکزی بینکوں کا کنٹرول ہوتا ہے، جو عوام کو ان کے نمائندہ اداروں کے ذریعے جواب دہ ہوتے ہیں۔ لیکن کرپٹو کرنسی کے ذریعے مالیاتی طاقت ان افراد یا اداروں کو منتقل ہو جاتی ہے جو ٹیکنالوجی تک بہتر رسائی رکھتے ہیں، اور وہ کسی کے سامنے جواب دہ نہیں ہوتے۔ اس سے مالیاتی نظام میں طاقت کا توازن شدید طور پر بگڑ سکتا ہے۔

کچھ لوگ یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ کرپٹو کرنسی افراط زر پر قابو پانے میں مدد دیتی ہے کیونکہ اسے لامحدود مقدار میں “پرنٹ” نہیں کیا جا سکتا۔ سوال یہ ہے کہ کسی کرپٹو کرنسی کی حد مقرر کون کرتا ہے؟ اگر کوئی ادارہ یا ڈویلپرز کی ٹیم یہ حد مقرر کرتی ہے، تو یہ بھی ایک قسم کی مرکزیت ہے۔ اور وہ جب چاہیں اس حد کو تبدیل کر کے مارکیٹ کو متاثر کر سکتے ہیں۔

اس وقت درجنوں کرپٹو کرنسیاں موجود ہیں اور کوئی بھی شخص ایک نئی کرنسی تخلیق کر سکتا ہے۔ ایسے میں یہ کہنا کہ کرپٹو کرنسی محدود ہے، ایک بے بنیاد دعویٰ بن جاتا ہے۔

یہ کہنا کہ کرپٹو کرنسی افراط زر پر قابو پانے کا ذریعہ بن سکتی ہے، مضحکہ خیز ہے۔ ایک ایسی کرنسی جس کی اپنی قیمت روزانہ بنیادوں پر بڑے پیمانے پر اتار چڑھاؤ کا شکار ہو، کیا وہ کسی معیشت میں قیمتوں کے استحکام کو ممکن بنا سکتی ہے؟ یہ دعویٰ کسی مذاق سے کم نہیں لگتا۔

کرپٹو کرنسی کی قانونی حیثیت سے حکومت مالیاتی نظام پر اپنا کنٹرول کھو سکتی ہے۔ ایسے نظام میں جہاں مالیاتی خواندگی کم اور ریگولیٹری ادارے کمزور ہوں، کرپٹو کرنسی جیسی غیر شفاف ٹیکنالوجی کا داخل ہونا معیشت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔

لہٰذا، حکومتِ پاکستان کو چاہیے کہ وہ کرپٹو کرنسی کے امکانات کا مکمل اور گہرائی سے تجزیہ کرے۔ اگر اس سے کوئی واضح اور منفرد فائدہ حاصل نہیں ہو رہا تو اس کے نفاذ کی کوئی فوری ضرورت نہیں۔ ہمیں خطے کے دوسرے ممالک سے پہلے اس سمت میں قدم نہیں بڑھانا چاہیے۔

درحقیقت، پاکستان میں کرپٹو کرنسی کی حمایت اکثر اس خواہش سے جڑی ہے کہ جلدی اور بغیر محنت کے امیر بنا جائے۔ مگر یہ سوچ خطرناک ہے۔ امریکہ میں حالیہ برسوں میں صرف دو بڑے بینک دیوالیہ ہوئے ہیں، اور دونوں  کی کرپٹو میں کاروبار کے لیے مشہور تھے ۔ یہ واقعات ہمارے لیے وارننگ ہونے چاہئیں۔

خلاصہ یہ کہ جدید رجحانات سے باخبر رہنا ضروری ہے، لیکن غیر یقینی، غیر شفاف اور غیر مستحکم نظام کو اختیار کرنا دانشمندی نہیں۔ پاکستان کو کرپٹو کرنسی جیسے پرخطر تجربات سے پہلے اس پر کئی بار سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact
Skip to content