عالمی بینک کے مطابق، پاکستان کا  پی پی پی کنورژن فیکٹر 2023 کے لئے 59 تھا۔ پی پی پی کنورژن فیکٹر مقامی کرنسی کی اس مقدار کو ظاہر کرتا ہے جو امریکہ میں ایک ڈالر کے برابر قوت خرید رکھتی ہو۔ چنانچہ  اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں  59 پاکستانی روپے کی قوت خرید امریکہ میں ایک امریکی ڈالر  کی قوت خرید کے برابر تھی۔ لیکن 2023 میں ڈالر کی شرحِ تبادلہ تقریباً 280 روپے تھی۔ یعنی، اگر ایک ڈالر سے پاکستان میں 280 روپے مالیت کی اشیا خریدی جا سکتی تھیں، جب امریکہ کی مقامی مارکیٹ میں ڈالرکی قوت خرید پاکستانی معیار کے مطابق صرف 59 روپے  تھی۔

یہ بڑا فرق ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان میں مارکیٹیں امریکہ اور دنیا کے کئی ممالک کے مقابلے میں کہیں سستی ہیں۔ اوسطاً، پاکستان میں ایک ڈالر کی قوت  خریدقت امریکہ کے مقابلے میں 4.7 گنا زیادہ ہے۔ سادہ الفاظ میں، اگر امریکہ میں ایک برگر ایک ڈالر میں ملتا ہے، تو پاکستان میں اسی معیار کا برگر 59 روپے میں مل سکتاہے ، اور ایک ڈالر میں تقریباً 4.7 برگر خریدے جا سکتے ہیں۔

کچھ اشیا کی قیمتوں  میں یہ فرق اور بھی زیادہ ہے۔ Numbeo.com کے مطابق، پاکستان میں ایک کلو سیب تقریباً 1.02 ڈالر میں ملتے ہیں، جبکہ امریکہ میں یہی سیب 5.27 ڈالر اور جنوبی کوریا میں 7.26 ڈالر میں فروخت ہوتے ہیں۔  گزشتہ سال میں نے ایک جرمن آن لائن اسٹور پر ملاحظہ کیا کہ  بھنڈی 9.9 یورو فی کلو دستیاب ہے، یعنی تقریباً 3000 پاکستانی روپے فی کلو،  جبکہ ان دنوں  پاکستان میں بھنڈی 30-40 روپے فی کلو تھی۔اسی کا مطلب ہوا کہ بھنڈی کی  قیمت میں تقریبا  100 گنا تک کا فرق موجود ہے۔

یہاں تک کہ پٹرول کی قیمتیں بھی پاکستان میں کئی تیل برآمد کرنے والے ممالک سے کم ہیں۔ مثال کے طور پر، کینیڈا جو سالانہ 120 ارب ڈالر کی پیٹرولیم مصنوعات برآمد کرتا ہے، وہاں پٹرول کی قیمت 1.12 ڈالر فی لیٹر ہے، جبکہ پاکستان میں یہ 0.92 ڈالر فی لیٹر ہے۔ اسی طرح، برازیل، میکسیکو اور ناروے جیسے متعدد پٹرول برامد کرنے والے ممالک میں پٹرول پاکستان کے مقابلے میں کہیں مہنگا ہے۔

درحقیقت پاکستان دنیا کے سستے ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ پاکستان کے دو بڑے شہر یعنی  کراچی اور لاہور، دنیا کے پانچ سب سے سستے شہروں میں شامل ہیں۔ اسلام آباد، جسے پاکستانی معیار کے لحاظ سے مہنگا سمجھا جاتا ہے، بین الاقوامی سطح پر انتہائی سستا ہے اور 15 سستےترین شہروں میں شامل ہے۔

اصل مسئلہ: کم آمدنی، 

اگر پاکستان میں قیمتیں اتنی کم ہیں، تو پھر ہمیں مہنگائی کا اتنا شدید احساس کیوں ہوتا ہے؟ اصل مسئلہ قیمتوں کا نہیں، بلکہ آمدنی کی سطح کا ہے۔ پاکستان میں اجرتیں اتنی کم ہیں کہ  اتنی کم قیمتوں کے باوجود لوگوں کے لیے بنیادی ضروریات پوری کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان میں بہت سے پرائیویٹ سکولوں  کی فیس 4 ڈالر ماہانہ ہے، لیکن یہ رقم بھی ، بہت سے والدین کے لیے بڑا بوجھ بن جاتی ہے۔  پاکستان میں کم سے کم قانونی اجرت 37000 ماہانہ ہے، جو ڈالر میں محض 132 ڈالر بنتی ہے۔ 6 افراد کے کنبہ کیلئے یہ رقم محض 22 ڈالر فی فرد ماہانہ  بنتی ہے،  یعنی یومیہ ایک ڈالر سے کم۔ ۔پاکستان میں فی کس سالانہ  آمدنی 1500 ڈالر ہے، یعنی ماہانہ  تقریبا 125 ڈالر  ہے۔

انتہائی کم آمدنی گھرانوں کی مالی حالت  کو بہت کمزور بنا دیتی ہے اور قیمتوں میں معمولی اضافہ بھی ان پر بہت بھاری پڑتا ہے، کیونکہ وہ پہلے ہی  بنیادی ضروریات زندگی کیلئے درکار رقم پوری نہیں کر سکتے۔ لیکن ان کے اس مسئلہ  کا حل قیمتیں کم کرنے میں نہیں، بلکہ آمدنی بڑھانے میں ہے۔

غلط معاشی پالیسیاں  

معاشی مسائل کا صحیح تشخیص کرنا حل نکالنے کے لیے ضروری ہے۔ پاکستان میں قیمتیں دنیا میں سب سے کم ہیں، چنانچہ  ہماری معیشت کا بنیادی چیلنج مہنگائی نہیں، بلکہ کم آمدنی ہے۔ لیکن ہماری معاشی پالیسیاں آمدن بڑھانے کی بجائے  قیمتوں کو کنٹرول کرنے پر مرکوز ہیں۔آمدنی بڑھانے اور قیمتیں کنٹرول کرنے کے لیے درکار معاشی حکمت عملی ایک دوسرے کا بالکل الٹ ہوتی ہے۔ آمدنی بڑھانے کے لیے عمومی معاشی پالیسی  میں  شرح سود کم کرنا،اور سرکاری اخراجات  کو بڑھانا شامل ہے، جبکہ  قیمتیں کنٹرول کرنے کے لیےشرح سود بڑھانا، اور سرکاری اخراجات کو کم کرنا تجویز کیا جاتا ہے۔ ہم افراط زر کنٹرول کرنے کی پالیسیپر عمل پیرا ہیں، جس کا نتیجہ آمدن میں مزید کمی کی صورت میں برامد ہوتا ہے۔

 کرنسی کی قدر کم کرنے کا مغالطہ  

کچھ معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستانی روپے کی قدر زیادہ ہے اور اسے ڈی ویلیو (Devalue) کرنے سے ہماری برآمدات بڑھیں گی۔ لیکن  یہ حکمت عملی  متعدد مرتبہ استعمال کی گئی اور ہر بار یہ  ناکام رہی۔  ہو چکی ہے۔  جیسا کہ اوپر بیان کیا  گیا، کچھ اشیا ایسی بھی ہیں جن  کی قیمتیں بعض ممالک میں  پاکستان کے مقابلے میں 100 گنا زیادہ ہیں۔ اگر ہم 1:100 کے فرق سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے، تو روپے کی قدر مزید گرا کر 1:105 کر دینے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ برآمدات میں رکاوٹ کی اصل وجوہات  کوالٹی سٹینڈرڈز  اور برامدی طریقہ کارسے ناواقفیت، اور کم پیداواری صلاحیت ہیں۔ یہ بنیادی مسائل کرنسی کی قدر کم کرنے سے حل نہیں ہوسکتے۔

پیداکاروں کا مسئلہ  

ایک اہم نکتہ جو نظرانداز کیا جاتا ہے، وہ مقامی کاشتکاروں اور  صنعتکاروں

کے ساتھ ہمارا  رویہ ہے۔ اگر مقامی صنعتکار  اور کاشتکار اپنی پیداوار کے لئے خام مال بین الاقوامی قیمتوں پر خریدتے ہیں، تو پھر انہیں اپنی مصنوعات بین الاقوامی قیمتوں سے کہیں کم پر فروخت کرنے پر مجبور کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ ایسی پالیسیاں پیداوار کو مایوس کرتی ہیں۔ صنعتکاروں اور کاشتکاروں  کو ان کی مصنوعات کی منصفانہ قیمت ملنی چاہیے، ورنہ سرمایہ کاری اور  کاشتکاری میں لوگوں کی دلچسپی کم ہوتی رہے گی۔

مسائل کا حل

زیادہ شرح سود (مہنگائی کنٹرول کرنے کے لیے) اور روپے کی قدر میں کمی (تجارتی خسارہ کم کرنے کے لیے) دونوں ہی ناکام ثابت ہو چکے ہیں۔ یہ پالیسیاں حقیقی آمدنی کو کم کر کے مہنگائی کو مزید بڑھا رہی ہیں۔ پاکستانی صنعتوں کو پیداوار کے لئے درآمدی مشینری اوردرامدی  خام مال کی ضرورت ہوتی ہے، جب روپے کی قدرمیں  کمی ہوتی ہے تو پیداواری لاگت  مزید بڑھ جاتی ہے، جس سے  صنعتکار کے لئے مقابلہ کرنا اور  مشکل ہو جاتا ہے۔

چنانچہ مسئلہ کا حل یہ ہے کہ قیمتوں پر کنٹرول کے بجائے، آمدنی بڑھانے پر توجہ دی جائے  اور مقامی  قیمتوں کو بتدریج بین الاقوامی سطح کے قریب تر  لایا جائے۔ چنانچہ اگر سالانہ  افراطِ زر 10فیصد ہو تو یہ عوام کیلئے مسئلہ نہیں ہو گا بشرطیکہ  آمدنی میں 12-15فیصد اضافہ ہو۔ ایسے میں  عوام کی حقیقی آمدنی بڑھے گی اور معیارِ زندگی بہتر ہوگا۔

پائیدار ترقی کے لیے ہمیں افراط زر کی پرواہ کئے بغیر  6-8فیصد سالانہ حقیقی آمدنی کا ہدف رکھنا ہوگا، تاکہ پاکستان اپنے ہمسایہ ممالک کے برابر آ سکے۔ ورنہ ہم  ترقی کی دوڑ میں مزید پیچھے رہ جائیں گے۔

حاصل کلام:

خلاصہ کلام یہ کہ پاکستان کا بنیادی معاشی مسئلہ مہنگائی نہیں، بلکہ کم آمدنی ہے۔ چنانچہ پالیسی سازوں کو قیمتوں پر زیادہ توجہ دینے کی بجائے آمدنی بڑھانے پر توجہ دینی چاہیے۔ شرح سود میں اضافہ اور روپے کی قدر میں کمی جیسی آمدن میں مزید کمی کا سبب بنتی ہیں اور اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام ثابت ہو چکی ہیں۔ آمدنی بڑھانے، معیارات بہتر بنانے اور پیداواری صلاحیت میں اضافے پر کام کرنا ہی پائیدار ترقی کا راستہ ہے۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact
Skip to content