از قلم : مریم محمددین
سلطان صلاح الدین ایوبی ایک دلیر اور غیرت مند انسان تھے۔ وہ القدس پر صلیبیوں کے تسلط، شام کے ساحلوں پر ان کے قبضے، اور اسلامی شہروں میں ان کی غارت گری کو بڑی تشویش کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ جب اللہ نے انہیں منصبِ قیادت عطا کیا، تو انہوں نے امت کی امیدوں پر پورا اترنے کا فیصلہ کر لیا۔
وہ بڑی ناگواری کے ساتھ مصر آئے تھے، مگر اللہ نے وہاں ان کے لیے تختِ حکمرانی تیار کر رکھا تھا۔ برسوں بعد، اس عظیم فاتح نے اپنے ساتھیوں کے سامنے مصر آنے کے وقت اپنی کیفیت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
“مصر آنا میری رضا مندی سے نہیں ہوا تھا، میرا معاملہ بالکل ویسا ہی ہے جیسا کہ قرآن میں کہا گیا ہے:
وَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا۟ شَيْـًٔا وَهُوَ خَيْرٌۭ لَّكُمْ
(ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور وہ تمہارے لیے بہتر ہو)”
جلد ہی اللہ کی قدرت اور مصلحت واضح ہوگئی۔ انہیں اقتدار اس لیے سونپا گیا تھا کہ وہ القدس اور دیگر اسلامی علاقوں کو نصرانیوں کے ناجائز تسلط سے آزاد کرائیں۔
سلطان صلاح الدین ایوبی نے اسکندریہ کا معرکہ، شام کی مہمات، رملہ میں شکست کا بدلہ، اور حلب کی فتح جیسے کئی اہم مراحل طے کیے۔ انہوں نے حکمتِ عملی اپنائی کہ حلب کو مستقل جنگی محاذ بننے سے بچایا جائے، اور عماد الدین زنگی سے مذاکرات کر کے یہ شہر حاصل کر لیا۔
اس کے بعد موصل کا محاصرہ کیا گیا، جہاں گستاخ نصرانیوں کو سزا دینے کے دوران حاکمِ موصل عزالدین مسعود نے صلح کی بات کی۔ اسی دوران سلطان کو شدت سے احساس ہوا کہ ان کے وسائل اور اوقات کا ایک بڑا حصہ مسلمان حکمرانوں سے تنازعات میں صرف ہو رہا ہے، جبکہ اصل دشمن صلیبی ہیں۔
ان کے وزیر قاضی فاضل نے بھی یہی مشورہ دیا کہ مسلمانوں کے ساتھ جنگ و جدال ترک کرکے تمام تر توجہ اہلِ کفر و شرک کے خلاف جہاد پر مرکوز کی جائے۔ اس پر سلطان نے اللہ سے عہد کیا کہ وہ دوبارہ کسی مسلمان حکمران سے جنگ نہیں کریں گے۔
اللہ کی مدد اور سلطان کی تدبیر نے جلد ہی انہیں صلیبیوں پر فیصلہ کن ضرب لگانے کا موقع فراہم کر دیا۔ یروشلم (القدس) کا تاجدار بالڈون پنجم مر چکا تھا، اور اس کی جانشینی کے مسئلے پر صلیبی آپس میں بٹے ہوئے تھے۔ سلطان نے اس صورتحال کو نعمت سمجھتے ہوئے القدس کی طرف حتمی منصوبہ بندی کر لی۔
جنگِ حطین میں سلطان نے صلیبیوں کو زبردست شکست دی۔ گستاخِ رسول ریجنالڈ کو جب گرفتار کیا گیا تو سلطان نے اسے اس کے جرائم یاد دلا کر اسلام کی دعوت دی، مگر وہ نہ مانا۔ یہ وہی گستاخ تھا جس نے رسول اللہ ﷺ کی شان میں نازیبا الفاظ کہے تھے، سلطان نے موقع پر ہی اپنے ہاتھوں سے اس کا سر قلم کر دیا۔
ان فتوحات کے بعد سلطان نے بیت المقدس کا رخ کیا، جہاں شام کے تمام صلیبی جنگجو، راہب، مذہبی پیشوا، اور جنگجو نائٹس ٹیمپلرز اور ہاسپٹلرز موجود تھے۔
15 رجب 583 ہجری کو اسلامی لشکر القدس پہنچا۔ کئی دن تک جنگ ہوئی، یہاں تک کہ مسلمانوں کی منجنیقوں نے فصیل کا ایک حصہ گرا دیا۔ اس شکست کے بعد عیسائیوں کے پاس دو ہی راستے تھے:
. یا تو ہتھیار ڈال دیں
یا مرتے جائیں
آخرکار ایک صلیبی وفد سلطان کی خدمت میں حاضر ہوا اور شہر سلطان کے حوالے کر کے جان کی امان طلب کی۔
اسلام کا سکہ بیت المقدس میں دوبارہ جما دیا گیا، نصرانیوں کو گھٹنوں کے بل جھکنے پر مجبور کر دیا گیا، اور یہ مقصد مکمل ہو چکا تھا۔ اسی لیے اہلِ شہر کو جان کی امان دی گئی، اور انہیں مقررہ فدیہ ادا کر کے رہا ہونے کا موقع دیا گیا۔
صلیبیوں نے مسجد اقصیٰ اور گنبدِ صخرہ کی اصل شکل کو مسخ کر دیا تھا۔ انہوں نے دیواریں چنوا کر محراب مسجد چھپا دی تھی اور صخرہ کو سنگِ مرمر سے ڈھانپ دیا تھا۔ سلطان کے حکم پر مسجد کو صلیبیوں کی غلاظتوں سے پاک کیا گیا، گنبدِ صخرہ کو دھو کر اس کی اصل شکل میں بحال کیا گیا۔
مسجد اقصیٰ میں پہلا جمعہ دمشق کے قاضی القضاة محی الدین ابوالمعالی نے پڑھایا۔ ان کا خطبہ اتنا فصیح و بلیغ تھا کہ لوگ جھوم اٹھے، اس میں اظہارِ مسرت، احساسِ تشکر، جوش، اور سنجیدگی سب کچھ تھا۔
مغربی مؤرخین بھی سلطان کی انصاف پسندی کے معترف
مشہور مؤرخ لین پول سلطان صلاح الدین ایوبی کے احسانات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے
“جب ہم سلطان صلاح الدین ایوبی کے احسانات کو یاد کرتے ہیں، تو ہمیں وہ وحشیانہ مظالم بھی یاد آتے ہیں جو صلیبیوں نے بیت المقدس فتح کرتے وقت کیے تھے۔ سلطان نے جہاں طاقت دکھائی، وہاں رحم اور انصاف کی اعلیٰ مثال بھی قائم کی۔”
سلطان نے بیت المقدس کو دوبارہ اسلامی تہذیب و ثقافت کا گہوارہ بنا دیا۔ پورے شہر میں علماء، حفاظ، فقہا، صالحین، اور صوفیا کی جماعتیں تشکیل دی گئیں۔
جنگ کے دوران بھی سلطان قرآن کی تلاوت اور حدیث کے درس سے غافل نہ ہوتے۔ انہوں نے نہ صرف بیت المقدس کو فتح کیا، بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے یہ پیغام بھی چھوڑا کہ:
آپسی اتحاد میں خیر و برکت ہے۔
جب ہم ایک قوم بن کر متحد ہوتے ہیں، تو دشمن خود ہی لرز کر بھاگنے لگتا ہے۔
صرف نعرے لگانے یا آپس میں گولہ باری کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
ہمیں رسول اللہ ﷺ کے گستاخوں اور اسلام کے دشمنوں کے مقابلے میں ایک ساتھ، متحد ہو کر، تمام اختلافات مٹا کر کھڑا ہونا ہوگا۔
*”اگر ہم ٹکڑوں میں بٹے رہے، تو دشمن ہمیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتا رہے گا۔ لیکن اگر ہم *سلطان صلاح الدین ایوبی کے اصولوں پر چلیں، تو اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.