تعلیم کسی بھی معاشرے کی ترقی کی ضامن ہے، اور عورت کی تعلیم صرف خاندان ہی نہیں بلکہ پوری سوسائٹی کی تعمیر و ترقی میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
“علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔”
تاریخ کے صفحات پلٹ کر دیکھیں تو ہمیں بے شمار ایسی خواتین ملتی ہیں جنہوں نے اپنے علم و عمل سے نمایاں مقام حاصل کیا۔
حضرت عائشہ صدیقہؓ فقہ، حدیث، طب اور دیگر علوم میں مہارت رکھتی تھیں۔ صحابہ کرامؓ نہ صرف آپ سے رہنمائی لیا کرتے بلکہ کئی مواقع پر فقہی معاملات میں آپ کی رائے کو مقدم جانتے۔
حضرت حفصہؓ قرآنِ کریم کے اولین نسخے کی محافظہ تھیں۔
شیخہ فاطمہ السمرقندی فقہ میں کمال رکھتی تھیں اور کئی جید علما کی استاد تھیں۔
فاطمہ الفہری نے قرطبہ میں القرویین یونیورسٹی کی بنیاد رکھی، جو آج بھی دنیا کی قدیم ترین تعلیمی درسگاہوں میں شمار ہوتی ہے۔
رابعہ بصری نے علمِ تصوف میں اپنی عظمت کا سکہ جمایا۔
یہ تمام مثالیں ثابت کرتی ہیں کہ عزت و مقام درحقیقت تعلیم سے وابستہ ہے، اور یہ تعلیم اسلام نے ہی عورت کو عطا کی۔
اسلام سے پہلے عورت کو محض نفسانی خواہشات کی تسکین کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔ معاشرتی سطح پر اس کی کوئی عزت و حیثیت نہ تھی۔ مگر اسلام نے عورت کو نہ صرف تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا بلکہ اسے عزت، وقار اور معاشی خودمختاری بھی عطا کی۔
اس کی سب سے روشن مثال حضرت خدیجہؓ ہیں، جو ایک کامیاب تاجرہ تھیں اور خواتین کے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اسلام نے عورت کو تجارت، وراثت اور ملکیت کے حقوق دیے، ورنہ اس سے پہلے عورت کو ایک اضافی بوجھ سمجھا جاتا تھا۔ حضرت خدیجہؓ کی کاروباری صلاحیتوں کو نبی کریم ﷺ نے سراہا اور انہیں مزید اعتماد بخشا۔
آپ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپ سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والی خاتون تھیں اور مکہ کی کامیاب ترین تاجرہ بھی۔ نبی کریم ﷺ نے ان کے ساتھ تجارت کا آغاز کیا، اور جب حضرت خدیجہؓ نے آپ ﷺ کی سچائی اور امانت داری کو دیکھا تو خود نکاح کا پیغام بھیجا، جسے رسول اکرم ﷺ نے قبول فرمایا۔
یہاں اسلام نے ایک اور معاشرتی روایت کو توڑا کہ بڑی عمر کی بیوہ سے نکاح کو باعثِ عار سمجھنے کے بجائے ایک مثال قائم کی۔ حضرت خدیجہؓ نے ہر مشکل گھڑی میں نبی کریم ﷺ کا بھرپور ساتھ دیا اور آپ کی سب سے بڑی حامی و مددگار ثابت ہوئیں
حضرت عائشہ صدیقہؓ کو 2000 سے زائد احادیث یاد تھیں، اور آپ کی علمی برتری اس قدر تھی کہ اکابر صحابہؓ بھی فقہی مسائل میں آپ سے رجوع کرتے۔
حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ کو ذات النطاقین کا لقب دیا گیا کیونکہ آپ ہجرت کے دوران رسول اکرم ﷺ اور حضرت ابوبکرؓ کے لیے خفیہ طور پر کھانا پہنچایا کرتی تھیں۔
حضرت سمیہؓ اسلام کی پہلی شہید خاتون ہیں، جنہیں ابوجہل نے ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا۔
حضرت شفاء بنت عبداللہؓ کو مدینہ میں خواتین کی تعلیم کی ذمہ داری سونپی گئی۔
حضرت فاطمہؓ کی زندگی صبر، شکر، حیا اور استقامت کی عملی تصویر تھی۔
آج کی دنیا اور عورت کے حقوق
اگر ہم دیگر مذاہب اور جدید ترقی یافتہ اقوام میں خواتین کی حالت پر نظر ڈالیں تو آج بھی ان کے معاشروں میں عورت حقیقی عزت و وقار سے محروم نظر آتی ہے۔ لیکن جب مارچ کا مہینہ آتا ہے تو حقوقِ نسواں کے نام پر خاص طور پر مسلم خواتین کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔
اصل مسئلہ عورت کی آزادی یا مغربی تصورات نہیں، بلکہ اس کی تعلیم اور شعور ہے۔ وہ خواتین جو تعلیم سے محروم رہتی ہیں، وہ نہ اپنی شخصیت کو سنوار پاتی ہیں اور نہ ہی اپنی اولاد کی بہترین تربیت کر سکتی ہیں۔
حقوقِ نسواں کے نام پر بے جا آزادی کے نعرے لگانے کے بجائے ہمیں عورت کی تعلیم پر زور دینا ہوگا، کیونکہ ایک تعلیم یافتہ عورت، شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے، ایک بہترین معاشرہ تشکیل دے سکتی ہے۔
اگر ہم اپنی تاریخ کو کھنگالیں تو ہمیں ایسی بے شمار خواتین نظر آئیں گی جو علم، کاروبار، بہادری اور حکمت میں نمایاں مقام رکھتی تھیں۔ یہی وہ روشن نقوش ہیں جو ہر دور کی عورت کے لیے مشعل راہ ہیں۔
یومِ خواتین: اسلامی خواتین کی عظمت کے نقوش تازہ کرنے کا دن
یومِ خواتین پر ہمیں اپنے اس عظیم ورثے کو اجاگر کرنا ہوگا۔ جب دنیا کی قیادت بھی ہمارے ہاتھ میں تھی اور آخرت کی فضیلت بھی ہمارے لیے تھی۔ جب ہم نے اپنی تاریخ کو بھی فروزاں کیا تھا اور ہمارا جغرافیہ بھی وسعت پا رہا تھا۔
آئیے، اپنے حصے کی شمع جلائیں اور اس جال سے بچیں جو ہمیں حقوقِ نسواں کے نام پر ذلت کی کھائی میں دھکیلنے کی کوشش کر رہا ہے۔
ہمیں عزت دی ہے اسلام نے، قرآن نے، اور ہمارے رسول ﷺ نے۔
اب ہمیں صرف عمل کرنے کی ضرورت ہے!
“عورت کمزور نہیں، وہ امتوں کی معمار ہے— اگر ایک پڑھی لکھی ماں قوم کو سنوار سکتی ہے، تو ایک باعلم عورت دنیا کا رخ موڑ سکتی ہے!”
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.