“خدا تجھے کعبہ کا امام بنا دے”
قاری عبد الرحمن السدیس نے اپنی زندگی کا اہم ترین واقعہ بیان کیا کہ جب وہ کم عمری میں تھے تو بہت شرارتی تھے ایک بار انہوں نے کھانے میں مٹی ملادی جو ان کی والدہ نے تیار کر کے رکھا تھا۔ان کی والدہ کو جونہی پتہ چلا انہوں نے غصے میں بیٹے کے لیے یہ الفاظ کہے
“خدا تجھے کعبہ کا امام بنا دے”
یہ ہے مبارک ماؤں کا کردار۔۔۔جو غصے میں بھی بچوں کو بددعا نہیں دیتیں بلکہ ایسی دعا دیتی ہیں جو انہیں مبارک بنادے۔
بچوں کی پیدائش،ان کی پرورش،تعلیم و تربیت یہ ایسے نازک معاملات ہیں جن کے لیے والدین کا خود اس ذمہ داری کو احسن طریقے سے قبول کرنا اور انجامِ دینا ضروری ہے کیونکہ جب تک آپ کسی ذمہ داری کو ذہنی طور پر قبول نہیں کرتے آپ اسے ادا کرنے کی نہ تو کوشش کرتے ہیں اور نہ ہی کوئی حکمت عملی اختیار کرتے ہیں۔
دور حاضر ڈیجیٹل دور ہے لہذا والدین کو بھی خود کو زمانے کے لحاظ سے جدت پسند بنانا ہوگا اور صرف دنیاوی لحاظ سے نہیں بلکہ فطری طور پر انہیں دین و دنیا دونوں کی کامیابی کے لیے بچوں پر محنت کرنا ہوگی۔
بل گیٹس نے بھی کہا تھا
“تم مجھے بہترین مائیں دو میں تمہیں بہترین قوم دوں گا”۔
تو کامیاب معاشرہ یونہی پروان نہیں چڑھتا اس کی ابتداء اپنے گھر،اپنے بچے سے کرنی ہوتی ہے تاکہ وہ معاشرے میں اپنا اہم کردار ادا کر سکیں۔گوکہ بچے کی پرورش ماں اور باپ دونوں کی ذمیداری ہوتی ہے لیکن چونکہ بچہ اپنا زیادہ تر وقت ماں کے ساتھ گزارتا ہے اور باپ روزہ روٹی کا بندوست کر رہا ہوتا ہے اسلئے ماں کی ذمیداری زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
ڈاکٹر ذاکر نائک نے اپنے ایک انٹرویو کے دوران شئر کیا کہ جن دنوں وہ میڈیکل کی پریکٹس کر رہے تھے تبھی ان کا رجحان دین کی طرف ہونے لگا۔انہوں نے اپنی والدہ سے پوچھا کہ میں ڈاکٹر بنوں یا داعی دین۔۔؟ان کی والدہ نے انہیں دین کی خدمت کا مشورہ دیا اور آج ہم دیکھتے ہیں کہ کتنے ہی لوگ ان کی دعوت سے اسلام قبول کر چکے ہیں۔یہاں بھی ہمیں ایک ماں کا کردار پتہ چلتا ہے کہ کیسے انہوں نے اپنی اولاد کو بہترین مشورہ دیا ۔
دیکھیں جہاں آج ہم اتنی ترقی کر گئے ہیں کہ میٹا ال۔۔اے آئی جیسی اصطلاحات ہماری زندگی میں شامل ہو چکی ہیں اور چیٹ جی پی ٹی کے ذریعے آپ کے تمام معاملات طے ہو رہے ہیں وہیں بہت سے فتنہ بھی سر اٹھائے ہوئے ہیں۔ان فتنوں سے اپنے بچوں کو بچانے کیلئے بحیثیت والدین ہماری ذمیداری بڑھ جاتی ہے۔
آج ہمیں بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے جیسے اپنے اہلِ خانہ کو بہترین طرزِ زندگی فراہم کرنا، ان کی تعیشات جو کہ ضروریات بن چکی ہیں انہیں پورا کرنا۔۔
والدین خود مشین بنے ہوئے ہیں۔نتیجتا ہمارا بچہ بھی لا محالہ اسی سسٹم کا حصہ بنتا جا رہا ہے۔بچے اور والدین کا تعلق محدود ہوتا جا رہا ہے۔اس کا زیادہ تر وقت اسکرین کے ساتھ گذرتا ہے۔اسے محدود کرنا بہت ضروری ہے۔۔اس کے لیے آپ کیا کر سکتے ہیں؟؟؟
1-اپنے اور اپنے بچوں کے اسکرین اوقات محدود کریں اور کوشش کریں کہ انہیں کوالٹی ٹائم دے سکیں۔۔
2-بچوں کے ساتھ مضبوط تعلق رکھیں اور اس میں توقف نہ آنے دیں۔
3- آپ کو پتہ ہونا چاہیئے آپ کا بچہ کون سی ایپ،کون سی سوشل میڈیا ویب سائٹ استعمال کرتا ہے اور اس کےمشاغل کیا ہیں۔
4- بچوں کے اندر خوداعتمادی پیدا کریں۔انہیں نئ چیزوں کو دریافت کرنے دیں لیکن ان کے لیے حد مقرر کر دیں ساتھ انہیں صحیح اور غلط کی رہنمائی بھی کریں ۔
5-سب سے اہم بات دین اور دنیا کو الگ نہ کریں بلکہ ان کی پرورش اسی طرح کریں کہ وہ ان دونوں میں توازن قائم رکھ سکیں اور اپنی شخصیت میں شامل کر سکیں۔ایسا تب ہی ممکن ہے جب والدین کی اپنی زندگی متوازن ہوگی تو ہی آپ کے بچے میں اس کی جھلک نظر آئے گی کیونکہ بچہ اپنے والدین کو ہی دیکھتا ہے۔۔ان کے ہی طور طریقوں کو اپناتا ہےاور کہیں نہ کہیں ماں باپ بچے کے آئیڈیل ہوتے ہیں۔
6- والدین کی شخصیت میں شفافیت ہونی چاہیے یعنی قول و فعل میں تضاد نہ ہو مثال کے طور پر اگر آپ انہیں کسی غلط بات پر ٹوکتے ہیں لیکن آپ خود وہی عمل کرتے ہیں تو آپ کے الفاظ اور آپ کی بات کی اہمیت ماند پڑ جاتی ہے کیونکہ آپ کے الفاظ سے زیادہ آپ کا عمل اسے متاثر کرتا ہے اس لیے قول و فعل میں مطابقت ضروری ہے۔۔
آخر میں بچوں کو کبھی بھی “نہ” نہ کہیں کیونکہ جب آپ کوئی بھی بات منفی انداز سے شروع کریں تو اس کی اثر پذیری ختم ہو جاتی ہے۔اسلیے اپنے الفاظ و انداز کو مثبت رکھیں ۔کوشش کریں کہ انہیں ہر بات منطقی انداز سے سمجھائیں کیونکہ یہ ڈیجیٹل دور ہے۔یہاں بچے ہر چیز کی وجہ پوچھتے ہیں۔تو والدین کو بھی ڈیجیٹل ہونا پڑے گا تاکہ آپ ان کی پرورش بہترین طریقے سے کر سکیں۔انہیں زمانے کے ساتھ ترقی کی منازل طے کرنے دیں۔لیکن ساتھ ساتھ اخلاقی اقدار بھی قائم رکھیں.
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.