از قلم : مریم محمددین
میری اس تحریر کا مقصد اندلس کے شاعری کے سنہرے دور کو اجاگر کرنا ہے، جو نہ صرف ادب کی بلندیوں کا مظہر ہے بلکہ انسانی جذبات، محبت، اور بہادری کے عظیم تر اظہار کا آئینہ دار بھی ہے۔
اندلس، جو موجودہ دور میں اسپین اور پرتگال کے خطے پر مشتمل ہے، اسلامی تاریخ کا ایک درخشاں باب ہے۔ 711ء سے 1492ء تک جاری رہنے والی مسلم حکومت کے دوران یہاں علم و ادب، فلسفہ، سائنس، اور فنون کے ساتھ ساتھ شاعری نے بھی نمایاں ترقی کی۔ اندلس کی شاعری نے عربی زبان، اسلامی تہذیب، اور مقامی ثقافت کو یکجا کرتے ہوئے منفرد ادبی روایات کو جنم دیا، جو آج بھی اپنی مثال آپ ہیں۔
اندلس میں مسلمانوں کی آمد کے ساتھ ہی علم و تہذیب کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ یہاں کے شعرا نے مشرقی عربی روایت کو اپنایا اور اسے مقامی رنگوں سے مالامال کیا۔ قرطبہ، غرناطہ، اور اشبیلیہ جیسے شہروں نے ادب اور ثقافت کے مراکز کی حیثیت اختیار کی، جہاں شعرا، ادبا، اور دانشوروں نے اپنی تخلیقات پیش کیں۔
اندلس میں شاعری نہ صرف ذاتی احساسات کے اظہار کا ذریعہ تھی بلکہ یہ حکمرانوں کے لیے عوام کو متحرک کرنے کا ایک موثر وسیلہ بھی تھی۔ شعرا کے کلام میں محبت، تصوف، بہادری، اور شجاعت کے موضوعات نمایاں تھے۔ ان اشعار نے قوم کو حوصلہ دیا، جنگی جذبے کو ابھارا، اور محبت کے لطیف جذبات کو الفاظ کی خوبصورتی میں سمویا۔
اندلسی شعرا کی محفلیں نہ صرف ادبی مباحث کا مرکز تھیں بلکہ ان کا مقصد اعلیٰ تہذیبی اقدار کو فروغ دینا بھی تھا۔ محبت اور شاعری کا تعلق ازل سے ہے، اور اندلس میں یہ تعلق اپنی بلند ترین سطح پر پہنچا۔ محبت اشعار کے بغیر ادھوری محسوس ہوتی ہے، اور اندلس کے شعرا نے اس حقیقت کو اپنے کلام میں بہترین انداز میں بیان کیا۔
ولادہ بنت المستکفی
اندلس کی ادبی تاریخ میں ولادہ بنت المستکفی کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ وہ نہ صرف عربی زبان کی بہترین شاعرہ تھیں بلکہ اندلس کے اموی گھرانے کی شہزادی بھی تھیں۔ ان کے والد، محمد المستکفی باللہ، اندلس کے گیارھویں حکمران تھے۔ ولادہ کی شاعری میں فصاحت و بلاغت کے اعلیٰ نمونے نظر آتے ہیں۔ وہ قرطبہ میں شعر و ادب کی محفلوں کا انعقاد کرتی تھیں، جہاں شعرا اور ادبا ادب و ثقافت پر گفتگو کرتے تھے۔ والد کے قتل کے بعد ان کی زندگی نے ایک نیا رخ اختیار کیا، لیکن ان کے کلام نے ادب میں ہمیشہ کے لیے اپنی جگہ بنائی۔
ولادہ کے مشہور اشعار
ولادہ بنت المستکفی کے چند مشہور اشعار ان کی شخصیت، آزادی اور جذبات کا عکس پیش کرتے ہیں:
“أنا والله أصلحُ للمعالي … وأمشي مشيتي وأتيهُ تيها وأمكنُ عاشقي من صحنِ خدّي … وأعطي قُبلتي من يشتهيها”
(ترجمہ: میں، خدا کی قسم، بلندیوں کے لیے پیدا ہوئی ہوں… اور اپنی چال میں فخر سے چلتی ہوں۔ میں اپنے عاشق کو اپنے رخسار کا صحن پیش کرتی ہوں… اور جو چاہے، اسے اپنی بوسہ عطا کرتی ہوں۔)
یہ اشعار ان کے جرات مند اور آزاد خیالات کے غماز ہیں، جو ان کے ادبی مقام کو منفرد بناتے ہیں
اندلس کے شعرا نے بہادری، شجاعت، اور قومی حمیت کے جذبات کو اشعار میں پیش کیا۔ ولادہ بنت المستکفی کے یہ اشعار ان کے حوصلے، بہادری، اور قوم کی حفاظت کے جذبے کا منہ بولتا ثبوت ہیں:
ابن عبد کے یہ اشعار
“رأيتُ صدوع الأرض بالسيف راقعا…
وقدْماً لأمت الشعب مذ كنت يافعا”
ان اشعار میں شاعر اپنے جنگی عزم و استقلال کو بیان کرتے ہیں۔ وہ زمین پر تلوار کی چمک سے فتح کے آثار دکھاتے ہیں اور اپنے نوجوانی کے دنوں سے ہی قوم کی خدمت میں سرگرم رہنے کا اظہار کرتے ہیں۔
یہ اشعار محض الفاظ نہیں بلکہ ان میں جذبات کی گہرائی اور عمل کا جذبہ واضح ہے۔ شاعر قوم کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ جو اپنی عزت کی حفاظت نہیں کرتا، وہ ذلت کا شکار ہو جاتا ہے۔ اندلس کے شعرا کے یہ کلام آج بھی قوموں کو حوصلہ اور درس دیتے ہیں۔
اندلس کی شاعری نے نہ صرف عرب دنیا بلکہ یورپ پر بھی اپنے اثرات مرتب کیے۔ اس نے ادبی سرحدوں کو وسیع کیا اور مختلف تہذیبوں کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کیا۔ اندلس کے شعرا کی تخلیقات میں محبت، تصوف، اور شجاعت کے پیغامات آج بھی نئے دور کے ادب کے لیے مشعلِ راہ ہیں
اندلس کی شاعری، ایک ایسی میراث ہے جو انسانی جذبات، تہذیب، اور ادب کی بلندیوں کی گواہ ہے۔ اس شاعری نے نہ صرف تاریخ کو زندہ رکھا بلکہ آنے والی نسلوں کو محبت، بہادری، اور علم کی روشنی فراہم کی۔ اندلس کے شعرا کے اشعار ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ علم و ادب انسانیت کا مشترکہ اثاثہ ہیں، جنہیں محفوظ رکھنا ہر دور کی ضرورت ہے۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.