ویسے تو سفر اور سقر اس وقت برابر لگتے جب طویل فاصلہ قلیل وقت میں طے کرنا ہو لیکن ہم سفر اور میزبان “دوست احباب اور مہربان” ہوں تو “سفر وسیلہ ظفر” بھی بن سکتا۔ اب کے مداع سفر پروفیسر ایوب صاحب کے بیٹے کیپٹن طلال ایوب کی شادی میں شرکت تھی۔ مظفرآباد سے ہم سفر راجا فیصل اقبال صاحب، چوہدری الطاف صاحب اور راقم الحروف جبکہ ارجہ سے راجا سہیل صاحب شامل ہوئے۔
قافلہ سخت جاں جب مظفرآباد سے روانہ ہوا تو ابھی سورج نے شہر اقتدار کا مکمل طواف نہیں کیا تھا۔ غازی آباد، چوہدری الطاف صاحب نے کچھ پیشن گوئیاں کی جو کوٹلی تو درکنار راولاکوٹ پہنچنے تک ہی یکہ بعد دیگر درست ثابت ہو گئیں۔ کھائی گلہ، سہیل صاحب کے تجویز کردہ “لائن کا ہوٹل” (جو کہیں سے بھی لائن کا لگتا نہیں تھا) پر ان کی طرف سے ناشتہ کیا۔
چوہدری الطاف صاحب کی برق رفتار ڈرائیونگ کے طفیل گیارہ بجے ڈگری کالج ہجیرہ تھے۔ گو کہ ہجیرہ اس سے قبل بھی آنا جانا ہوا ہے لیکن راولاکوٹ سے ہجیرہ کا یہ راستہ میرے لیے نیا تھا اس لیے وطن عزیز کے کچھ علاقوں کو پہلی دفعہ دیکھنے کا موقع ملا۔
باغ سے راجا عجائب صاحب، شوکت صاحب، شہزاد صاحب، اور چوہدری ارشد صاحب بھی روانہ ہو چکے تھے۔ طے پایا کے ڈگری کالج ہجیرہ کی زیارت بھی کر لی جائے تا کہ یہاں سے آگے کوٹلی کیلئے اکٹھے روانہ ہوا جائے۔ ہجیرہ کالج کے شاندار گراؤنڈ میں سپورٹس کا ایونٹ پوری آب و تاب سے جاری تھا۔ ادارہ کی عمارت، نظم و نسق، اور صفائی ستھرائی کو لائق ستائش پایا۔
پرنسپل ادارہ سردار لطیف صاحب نے مختصر وقت میں پر تکلف چائے کا اہتمام کر رکھا تھا۔ یہاں پرانے کولیگ معروف صاحب، منشاء صاحب، شاہد صاحب (فزکس)، شاہد اشرف صاحب (ریاضی) سے مختصر ملاقات رہی لیکن وقت کی قلت کے سبب تشنگی باقی رہی۔ اب کے الطاف صاحب کی برق رفتار ڈرائیونگ کے ساتھ گوگل میپ کی بدولت دو بجے انڈسٹریل ایریا کوٹلی کے مطلوبہ شادی ہال پہنچنے میں کامیاب ٹھہرے، البتہ ساتھ والے کچھ دیر کوٹلی کی بھول بھلیوں میں گم ہو گئے۔ ایوب صاحب نے ہال کے صدر دروازے پر پرتپاک استقبال کیا۔ باغ سے ڈاکٹر یاسر عرفات صاحب، عمران صاحب، اور خالد بشیر صاحب بھی ہال میں تشریف لا چکے تھے اور کچھ ہی دیر میں ہال مہمانوں سے کچھا کھچ بھر چکا تھا۔ ہمارے مدینہ تالمساجد “کوٹلی” کی مہمان نوازی ویسے بھی ضرب المثل ہے اور اس کا اظہار ایوب صاحب کی پر تکلف ضیافت میں بدرجہ اتم موجود تھا۔ ایم ایس سی دور کے کلاس فیلو ظفر الاسلام کے ساتھ کوٹلی کے کلاس فیلوز عامر زیب، اشفاق بادل، ضرار اور ذولفراز کو یاد کرتے ہوئے لنچ کیا۔ ان دوستوں سے بھی ملاقات کر کے پرانی یادوں کو تازہ کرنے کا بہت جی چاہتا تھا لیکن وقت کی قلت آڑے تھی۔ نائب تحصیلداری دور کے رفیق کار بھی موجود تھے۔ بہت سارے ان کتاب چہرہ دوستوں سے بھی ملاقات ہوئی جن سے اس سے قبل فیس بک پر ہی شناسائی تھی۔
کوٹلی سے قدیر صاحب اور واصل صاحب نے “بیٹھک” پر چائے کا اہتمام کر رکھا۔ بعد ازاں راجہ وحید صاحب، شاہ صاحب، کی آمد پر قہوے کا ایک مذید دور چلا جہاں کچھ تنظیمی معاملات بھی زیر بحث آئے۔ ساڑھے چھ کے لگ بھگ کوٹلی سے واپسی کیلئے روانہ ہوئے اور واپس گھر پہنچنے تک کلینڈر پر تاریخ بدل چکی تھی۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.