بڑے بھائی کی المناک موت پر رنج و غم میں ڈوبی تحریر

تحریر: عافیہ بزمی

جب چھوٹے تھے تو لگتا تھا زندگی تو بس خوشیوں کا نام ہے ۔ ایک پرسکون گھرانہ جس میں ہر دم محبتیں اور شفقتیں لٹانے والے والدین اپنی اولاد کو ہر دکھ ہر پریشانی اور ہر تکلیف سے بچانے کے لۓ ہر وقت کوشش کرتے رہتے ہیں اور اگر أپ کی زندگی میں ماں باپ کے ساتھ ساتھ  پیار محبت کرنے والے بڑے بہن بھائی بھی ہوں تو  کسی نعمت سے کم نہیں ، یقین کریں یوں لگتا ہے کہ جیسے زندگی جیسی مہربان چیز تو کوئی ہے ہی نہیں اور آپ تو دنیا کے سب سے خوش قسمت انسان ہیں ۔
لیکن زندگی کیا ہے کتنی بے اعتبار ہے یہ کیا کیا رنگ دیکھاتی ہے یہ تو وقت گذرنے کے ساتھ اس وقت پتہ چلتا ہے جب
أپ کے وہی اپنے پیارے رشتے جو أپ پر تا عمر محبتیں لٹاتے رہے ایک ایک کر کے دنیا سے رخصت ہونے لگتے ہیں . زندگی کا مفہوم بالکل بدل جاتا ہے ۔ أپ کی زندگی ان پیارے رشتوں کی کمی اور ان کی یادوں کے سہارے چلنے لگتی ہے ۔
قدرت کے ان فیصلوں کے اگے انسان بڑا بے بس ہے اور بحثیت مسلمان ہمارا یقین ہے کہ ہمیں پیدا کرنے والا رب کے ہر فیصلے پر  راضی رہنا ہے ۔
احمد خلدون میرا بڑا بھائی ، میرا ماں جایا میرے والدین کی سب سے بڑی اولاد 20 جولائی کی صبح فجر کے وقت دنیا سے رخصت ہو گیا

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ

اس کا دنیا سے یوں اچانک جانا بہت بڑا اور المناک صدمہ ہے ہمارے لۓ کیونکہ والد محترم پروفیسر خالد بزمی کے دنیا سے جانے کے بعد یہ صرف بھائی ہی نہیں باپ کا درجہ رکھتا تھا ہمارے لۓ ۔
اللہ نے اگر اس کو بڑا بھائی بنایا تھا تو واقعی اس نے بڑا بن کر دیکھایا بھی تھا اس نے والد محترم کے جانے کے بعد ہر ذمینداری دل سے نبھا کر یہ ثابت کیا تھا کہ والد محترم اپنی ہر تکلیف اور پریشانی میں جو کہا کرتے تھے کہ ; خلدون تو میرا ذہنی سہارا ہے اس سے بات کر کے میں پرسکون ہو جاتا ہوں ;  تو وہ بالکل درست کہتے تھے ۔ خلدون واقعی صرف رشتے میں ہی بڑا نہیں وہ حوصلوں میں بھی بہت بڑا تھا ۔
بے لوث محبتیں بانٹنے والا ، سب کی مدد کرنے والا ، سب کو حوصلہ دینے والا اور دل سے رشتے نبھانے والا احمد خلدون واقعی ہمارا فخر تھا ۔
جن لوگوں نے سن ستر کے اخیر سالوں اور اسی کی دہائی میں بچوں کا مشہور رسالہ تعلیم و تربیت پڑھا ہے وہ اس نام سے نا صرف بخوبی واقف ہیں بلکہ اس کی لکھی کہانیوں کو بہت دلچسپی سے پڑھتے رہے ہیں ۔ اس کی لکھی انہی کہانیوں کو ; أخری گولی ; کے نام سے کتابی صورت بھی دی گئی تھی لیکن بدقسمتی سے أج اس کا ریکارڈ ہمارے پاس محفوظ نہیں ۔
کچھ عرصہ سے وہ ہلکی پھلکی شاعری بھی کرنے لگا تھا ۔ میں اس کو بھی کتابی صورت میں لانے کی پوری کوشش کروں گی ۔
میرا پیارا بھائی احمد خلدون 4 مارچ 1961 میں والدین کی سب سے پہلی اولاد بن کر دنیا میں أیا تھا ۔
میں اس کی چھوٹی بہن ہوں ۔ عمر میں بھی کافی فرق ہے لیکن اس کے باوجود بھائی بہن والے چھوٹے چھوٹے جھگڑے شرارتیں روٹھنا منانا میری أنکھوں کو نم کر رہا ہے ۔
گھر میں اس کی الگ ہی رونق ہوتی تھی ۔ والدین کے ساتھ چھوٹے بہن بھائیوں کو پیار کرتا محبتیں لٹاتا فرائض نبھاتا أج منوں مٹی تلے جا سویا تو احساس ہوا وقت کتنی تیزی سے گذرا ہے ۔ سوچنے بیٹھوں تو ابھی کل کی بات لگتی ہے کہ ایک پیارے سے خاندان کا حصہ تھے ہم لوگ ۔
اس کی ابتدائی تعلیم گورنمنٹ مسلم لیگ ہائی سکول کی تھی ۔ وہاں سے میٹرک کرنے کے بعد خلدون بھائی نے ایف اے اور بی اے اسلامیہ کالج ریلوے روڈ سے کیا اور پھر یونیورسٹی کے لاء کالج میں داخلہ لیا ۔ میری طرح یہ بھی کالج اور یونیورسٹی میں اسلامی جمیعت طلباء کا سرگرم اور انتہائی متحرک رکن تھا بلکہ یہاں یہ کہنا زیادہ بہتر ہے کہ میں بھی اس کی طرح جمیعت  میں کافی متحرک تھی (( کیونکہ اسی کو دیکھ کر تو ہم سیکھتے تھے سب ))
لاء کی تعلیم مکمل نہیں کر سکا اور بہنوں کی ذمہ داریوں میں والد محترم کا مظبوط سہارا بنتے ہوۓ یہ صرف باییس سال کی عمر میں معاشی أسودگی کے لۓ سعودی عرب چلا گیا ۔وہاں جاتے ہی اللہ تعالی نے اس کو باییس سال کی عمر میں حج اکبر کی سعادت عطا فرمائی ۔ میرے والدین کا لاڈلا چھوٹی عمر میں حاجی بنا تو سب کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نا تھا ۔
بیٹیوں کے فرائض کے ساتھ ساتھ والدین کو خلدون کے سر پر سہرا سجانے کا بھی جنون تھا ۔ چھوٹی عمر میں ہی اس کی شادی بھی ہوگئی ۔
پھر جب یہ مستقل طور پر واپس پاکستان أیا تو والد محترم کو پھر سے شوق ہوا کہ یہ اپنی تعلیم مکمل کرے اور اس کو ایم اے اردو کرنے کے لۓ اوریئنٹل کالج میں ایڈمیشن کروا دیا ۔
قائدانہ صلاحیتوں کا مالک احمد خلدون مقرر بھی کمال کا تھا ۔ چونکہ بڑی اولاد ہونے کے ناتے یہ والد محترم کے بہت قریب رہا تو اس نے اس قربت سے بہت کچھ سیکھا اور پھر آگے سیکھایا بھی ۔ والد محترم کے ساتھ ادبی محفلوں میں جانا ادبی اور نامور لوگوں سے ملنا اور خاص طور پر گھر میں ہونے والی ادبی محفلوں میں اس کا بڑا بھرپور کردار ہوتا تھا بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ والد محترم ایسی محفلوں کو منعقد کرتے ہوۓ یہی کہتے تھے کہ خلدون سب دیکھ لے گا اور اس کا جواب ہوتا تھا
جی ابو جی ! میں سب کر لوں گا أپ نے فکر ہی نہیں کرنی ۔
پھر جب والد محترم دنیا سے رخصت ہوۓ تو اس پر ذمیداریاں مزید بڑھ گئی ۔ بڑا تو یہ تھا ہی یہ پہلے سے بھی زیادہ ذمیدار ہو گیا ۔
ماں کے پاؤں چومنے والا ، بہنوں کا مان بڑھانے والا ، اولاد پر محبتیں لٹاتا اور بیوی پر جان نثار کرتا وقت سے بہت پہلے میچور ہو گیا اور کیوں نا ہوتا أخر بیٹا کس کا تھا ایک انتہائی خوبصورت اور پیارے انسان خالد بزمی صاحب کا اور اب اس کو والد محترم کی پرچھائی تو بننا ہی تھا کیونکہ وہ بڑا جو تھا ہم سب کا ۔
خوش اخلاقی ، خوش گفتاری اور خوش لباسی اس کی شخصیت کی نمایاں خوبیاں تھیں ۔
وہ بچوں میں بچہ اور بڑوں میں بڑا تھا ۔ہنستا مسکراتا مذاق کرتا زندہ دل انسان تھا
بہادر بھی تھا اور حوصلہ مند بھی ۔
کتنی ہی بڑی مشکل کیوں نا ہو نا خود ہمت اور حوصلہ چھوڑتا تھا اور نا ہمیں کبھی وقت اور حالات کے أگے ٹوٹنے دیتا تھا ۔ بہادری سے ہر کام میں ڈٹ جایا کرتا تھا ۔
مجھے لکھنے کا شوق اس کو اور بڑی بہن خلدیہ مرحومہ کو دیکھ کر ہی ہوا تھا ۔ یہ دونوں تعلیم و تربیت کے نامور رائٹر رہے تھے ۔
دو ہزار نو میں اللہ تعالی نے اس کو یہ سعادت بھی بخشی کہ والدہ مرحومہ کو یہ حج پر لے کر گیا ۔ والدہ خود بتاتی تھیں کہ اس موقع پر کس طرح کس کس جگہ پر اس نے ماں کو گود میں اٹھا کر مناسک حج کی ادائیگی کی ۔ میں ہمیشہ کہتی تھی کہ بھائی ساری اولاد میں سے یہ سعادت بھی اللہ پاک نے أپ کو ہی عطا فرمائی ہے اور ہمیشہ مسکراتے ہوۓ جواب دیتے ۔ الحمد للہ
پچھلے پچیس سال سے پراپرٹی کے کام سے وابستہ تھا اور اس میدان میں بھی اپنی قائدانہ اور دلیرانہ صلاحیتوں کی وجہ سے کامیاب رہا تھا ۔ لاہور میں سٹیٹ لائف سوسائٹی کے بانی اراکین میں شامل تھا ۔
اس کی اتنی اچانک اور ناگہانی موت نے زندگی ہلا کر رکھ دی ہے اور بار بار دل یہی کہہ رہا ہے کہ
یہ کیسی موت تھی کہ کوئی سو کر ہی نا اٹھے ۔ بھلا رات کو سوتے  ہوئے اس نے سوچا ہو گا کہ صبح میں اٹھوں گا ہی نہیں
والد محترم کے دنیا سے جانے کے بعد یہی تو تھا جو   ماتھا چوم کر سر پر پیار  دیتا تھا اس وقت یوں لگتا تھا کہ والد محترم سامنے أ کھڑے ہوۓ ہیں اور اس کا یہ کہنا کہ

پتر فکر نہیں کرنی کسی چیز کی جب تک میں زندہ ہوں ، میں ہوں نا سب فکروں کے  لیے))
ہائے  دل ڈوب رہا ہے یہ لکھتے ہوۓ کہ یہ الفاظ کہنے والا میرا ماں جایا , میرا ویر , میرا بھائی اب دنیا میں نہیں ۔
کہنے کو تو وہ بھائی تھا
لیکن وہ باالکل ابو جی کی پرچھائی تھا

سینکڑوں لوگوں کے روزگار کا وسیلہ بننے والا ، سب کو راستہ دیکھانے والا ، ہمدرد , حوصلے بڑھانے والا خاموشی سے صدقہ جاریہ کی نیت سے لوگوں کی مدد کرنے والا,  سفید پوشوں کا بھرم رکھنے والا خلدون اب ہم میں نہیں ۔
اس کا یہ کہنا کہ ویسے تو زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ بہتر فیصلہ کرنے والا ہے لیکن خواہش ہے کہ عمر نبی پاک جتنی ہی ہو ، نا ایک بھی سال کم اور نا ایک بھی سال زیادہ
لگتا ہے اللہ نے بڑے قریب سے اس کی یہ خواہش سنی اور پوری کی ہے ۔
4 مارچ کو وہ تریسٹھ سال کا ہوا اور 20 جولائی کو دنیا سے رخصت ہو گیا ۔
اس کے جانے پر دل ڈوب کر رہ گیا ہے ۔ یوں سمجھیں کہ وقت نے ایک بار پھر یتیم کر دیا ہے ۔
دنیا سے رخصت ہونے والے میرے پیارے شہزادے ویر
(( جا تینوں رب دے حوالے کیتا ))
اللہ تیری ساری اگلی منزلیں أسان کرے ۔ تیری قبر میں ٹھنڈک رکھے اور تجھے , تیرے اور میرے پیارے مرحومین کے ساتھ جنت مکین کرے ۔ أمین
میرے پیارے بہن بھائی احمد خلدون اور خلدیہ فردوس جو شادی کے بعد خلدیہ ناصر تھی ، والد محترم اور اماں کے ساتھ ان شاء اللہ بہت اچھی جگہ پر ہوں گی ۔
اللہ پاک میرے پیارے مرحومین سے رحم والا معاملہ فرمانا ۔
أمین

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact