———————————-
افضل ضیائی
سمرالہ گجراں ھمارے آبائی گاوں پنڈی جہونجہ کے مضافات میں کوٹلہ (پاکستان ) کو جانے والی سڑک پہ واقع ھے ۔میری کم سنی کا دور تھا مجھے یاد پڑتا ھے کہ کوٹلہ روڈ سے سمرالہ گاوں کے اندر آتی ھوئی کچی سڑک کے کنارے گھنے درختوں کے جھنڈ میں ان دنوں ایک “ٹنڈوں” والا کنواں ھوتا تھا یہاں ماحول کی ٹھنڈک کی وجہ سے بیماری کے دنوں میں والد محترم کو سفر آخرت پہ روانگی سے پہلے مقیم ھونا پڑا ۔ اس کنویں سے “کوھلیں ” (نالیاں ) نکال کر کھیتوں کو پانی سے سیراب کیا جاتا تھا ان کوھلوں کے کناروں پہ سرخ گلاب کے پودے لگائے گئے تھے ۔ان گلابوں کی خوشبو ،مہک، ایسی شاندار اور عطر بیز تھی کہ اس کے بعد کبھی میسر نہ ھو سکی ۔زندگی میں شائید چند ایک بار ھی ویسی مہک مشام جاں ھو سکی اور جب بھی ھوئی تو ھماری یاداشت سمرالہ کے طواف کو ضرور لپکی ۔
دادا جان اور والد صاحب کے متصل ادوار میں معاشی آسودگی کا زمانہ تھا ۔والد صاحب مختلف نوع کے کاروبار کرتے تھے ۔بے جی بتایا کرتے تھے کہ ۔۔۔پتر ! پیسہ آپ کے والد پہ بہت عاشق تھا ۔اور دولت اتنی تھی کہ بعض اوقات اسراف کی حدوں کو جا چھوتی تھی ۔والد گلے میں سونے کی تویتڑیاں پہنے ھوتے تھے ،مجھ سے بڑے بھائی ڈاکٹر اکرم صاحب کی پیدائیش کی خوشی میں علاقہ بھر میں گڑ تقسیم کیا گیا، گاوں اور مضافات کے علاقوں سے عزیز و اقربا ء کو دعوت دیتے ھوئے دربار بابا شادی شہید بکرا چڑھانے کے لیئے میلہ لے کر گئے اس وقت ٹرانسپورٹ کا ابھی چلن شروع نہ ھوا تھا بے جی بتاتے ھیں کہ اس میلے میں سینکڑوں مرد و خواتین شامل تھیں ، دوران سفر مرد شغل میلا اور خواتین گیت گاتی جاتی تھیں اس میلے نے موجودہ آبشار ھوٹل کہانی پیل سے مغربی سمت بیچوں بیچ نالے میں سے پہاڑ کے رخ پہ دربار کو جانے والا روٹ اختیار کیا تھا ۔
دادا جان حیات ھی تھے کسی ایک کاروباری ٹھیکے میں اچھی بچت ھوئی تو محلہ چھپڑیاں سے مغرب کی طرف کس پنڈی کو جانے والے راستے پہ پانی کا بڑا اور گہرا کنواں تعمیر کروایا ۔۔۔
پھر وقت نے پلٹا کھایا ۔بیماری و مقدمات نے بستی کے اس آسودہ حال کنبے کی معاشی ایمپائر کو زمین بوس کر دیا۔
والد محترم کی وفات کے ڈیڑھ دو سال بعد ھم پنڈی جہونجہ سے سرائے عالمگیر ھجرت کر گئے مجھے اچھی طرح یاد ھے کہ برسات کے دن تھے ھمارا بے سروسامان قافلہ گھر سے پیدل نکل پڑا ۔موضع ساھنگ اور لینڈے کے قریب پہنچے ھوں گے کہ چرخ نیلی فام سے بھی ھماری لاچارگی دیکھی نہ گئ اس کے ضبط کے بندھن چھوٹ گئے اور
ساون ٹوٹ کے برس پڑا ۔
بے جی بتاتی ھیں کہ والد صاحب کی تعلیم واجبی تھی مگر زھین اور زیرک تھے،کاروباری حالات اچھے تھے اس وقت لالہ موسی ،سرائے عالمگیر اور جہلم تجارتی منڈیوں کے مرکز رکھتے تھے والد صاحب نے مالی آسودگی کے دنوں میں اور کچھ کاروباری ضروریات کی بناء پہ قیام پاکستان سے محض ساڑھے تین سال بعد 1951-52میں سرائے عالمگیر میں شہر کے وسط میں ایک بڑا قطعہ اراضی خرید کر اس کے فرنٹ پہ چار گودام اور پیچھے ایک بڑا مکان تعمیر کیا ۔مگر خود انہیں رھنا نصیب نہ ھوا اب خیال آتا ھے کہ قدرت نے انہیں جلد دم واپسیں کا حکم دینا تھا سو ان سے ضروری ضروری وہ کام سرانجام دلائےجا رھے تھے جن کی انجام دھی انکے بچوں کے لیئے ضروری تھی۔ والد محترم کی دور اندیشی کی وجہ سے سرائے عالمگیر کی اس قیام گاہ نے ھمارے لیئے “تعلیمی پلیٹ فارم ” کا کردار ادا کیا۔اللہ کا کرم ھوا اور والد محترم کے اٹھائے گئے بروقت اقدام اور پھر بے جی کی مشقت،ایثار اوراحساس زمہ داری نے گھر کے بچوں کو تعلیم کی دولت سے خوب خوب نوازا ۔الحمد للہ الحمد للہ۔
اس نکتہ پہ کہانی دردناک رخ اختیار کر جاتی ھے ۔ایک شخص تنکا تنکا اکٹھا کرتا ھے اپنا سکون اور آرام تج کر دیتا ھے بڑی محنت اور مشقت سے باغ لگاتا ھے اسے اپنے خون جگر سے سینچتا ھے مستقبل کے خواب اس کی آنکھوں میں اترتے ھیں وہ ترقی کے سنگ میل طے کرتے کرتے عین جب منزل کے قریب پہنچتا ھے تو فرشتہء اجل باغباں کو آخری بار گلستان کو مڑ کے دیکھنے کی مہلت بھی نہیں دیتا اور “اٹھو چلیں “۔۔۔کی صدا لگا دیتا ھے
آسے آسے عمر گزاری جھلے خار ھزاراں
مالی باغ نئیں ویکھن دیندا آئیاں جدوں بہاراں
والد محترم کا جنازہ اٹھانے کا وقت قریب آیا ۔میت کے گرد ھجوم تھا ۔آہ بکا کا شور تھا ۔میں کم عمری کے علاوہ ،نحیف و نزار بدن کا مالک تھا، عین جنازے کے اٹھانے سے چند لمحے قبل کسی شخص نے مجھے ازراہ ترحم اٹھا کے والد کے منہ کے قریب چارپائی کے پائے کے پاس کھڑا کردیا اب میں والد محترم کا چہرہ دیکھ سکتا تھا۔والد محترم کے دیدار کا صرف وہ لمحہ میری یادداشت میں محفوظ ھے اس سے پہلے مجھے نہیں یاد پڑتا کہ میں نے اپنے والد کو کبھی دیکھا یا سنا ھو۔ میرا وجدان کہتا ھے کہ قدرت کو یہ گوارا نہ ھوا کہ ایک معصوم بچہ ساری زندگی اپنے باپ کے دیدار سے محروم رھے لہزا قدرت نے ٹھیک جنازہ اٹھانے سے ذرا پہلے نہ صرف مجھے شعور دید عطا کر دیا بلکہ انکے چہرے کے خدوخال بھی میرے حیطہ ء یاداشت میں محفوظ کر دیئے ۔
جولائی 1964 کو منگل وار تھا
والد صاحب موجودہ بوائز ھائی سکول پنڈی سے جانب شمال (کوئی دوسوگز) چونگی کی پرانی بلڈنگ کے قریب کھلی جگہ پہ قیام پزیر تھے،رات لمحہ لمحہ اپنے پاوءں پسار رھی تھی موت کی پرچھائیں پڑنے لگیں تھیں والد صاحب کو اندازہ ھو گیا تھا آپ نے میری بے جی کو قریب بلایا ۔سب سے پہلے گزری رفاقت کے دوران کسی قسم کے دکھ تکلیف اور کوتاھی پہ بے جی سے معافی کے خواستگار ھوئے ،ایک بڑے اور کشادہ دل انسان کی طرح ممکنہ طور پہ انسانی لغزشوں کا اقرار کیا ،اور فرمایا کہ ممکن ھے مجھ سے تمہاری کوئی حق تلفی ھوئی ھو ۔میری بیماری کے دوران تم نے بڑی تکلیف اٹھائی ۔ سو مجھے معاف کر دینا اور ھاں میرے بچوں کی تعلیم پر کوئی سمجھوتہ نہ کرنا بے شک اس کے لیئے سرائے عالمگیر والی جائیداد ھی فروخت کیوں نہ کرنی پڑے ۔ نماز عشاء کا وقت قریب تھا اور میرے کنبے کی۔۔۔ بیڑی کا ملاح۔۔۔ بھی تیار تھا۔۔۔ کہ اسی اثناء میں میرے پیارے والد۔۔۔۔ کا بیڑہء حیات موت کے دریا کے اس پار جا اترا۔
اللہ پاک میرے والد مرحوم کی مغفرت فرمائے ۔آمین ۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.