قدم رکھا تو رحمت اتری،
دعاؤں نے در کھٹکھٹائے۔
جب عائشہ پیدا ہوئی تو دادا کی پیشانی پر شکنیں تھیں، دادی کی آہ و بکاء جاری تھی، امی خاموش تھیں، اور ابو… شکر کے بجائے “صبر” کہہ رہے تھے، کیونکہ ان کی دہلیز پر ایک نعمت کی جگہ رحمت نے قدم رکھا تھا۔
لوگوں نے طنز کے تیر چلانے شروع کر دیے:
“اگر بیٹا ہوتا، تو وہ وارث بنتا۔ یہ لڑکی ہے، کیا کرے گی؟ آخرکار رخصت ہی ہونا ہے نا!”
لیکن پھر وقت گزرتا گیا…
ننھی عائشہ دادا، دادی کی باتیں سن کر، رشتے داروں کے طنز کے تیر کھا کر، باپ کی بے رخی سہہ کر، اور ماں کی خاموشی محسوس کر کے چھوٹی عمر میں ہی بڑی ہو گئی۔ ماں کے کاموں میں مدد کرتی، دادی کی تیمارداری، دادا کی خدمت، اور جب وہی ابو کام سے تھکے گھر آتے تو اُنھیں پانی کا گلاس دیتی، ان کے سارے کام اپنے ہاتھوں سے انجام دیتی۔
وہ اپنی ہم عمر کی طرح کھیل کود نہیں کرتی تھی۔ کیونکہ گھر والوں کو پسند نہیں تھا۔
بیٹی تھی نا، بیٹا تھوڑی!
غرض وہ صرف آٹھ سال کی عمر میں ہی جوان ہو گئی تھی، خاموش اور تنہا پسند۔
یہ سب دیکھ کر، ابا نے ہی کہا:
“یہ بیٹی نہیں، برکت کا قدم ہے!”
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.