تحریر: نسیم امیر عالم
خالہ نصیبن بڑی خوش اخلاق،ہنس مکھ,پروقار خاتون تھیں۔بدترین خانگی حالات نے گو رنگ و روپ ماند کردیا تھالیکن آثار بتاتےتھےکہ عمارت کبھی حسین رہی ہوگی۔  بڑی بڑی غلافی سی بادامی آنکھیں۔۔۔۔۔ سنہرےدھوپ جیسے بال۔۔۔۔ پرکشش رنگت۔۔۔سڈول ہاتھ پاؤں اوراس پرستواں ناک مزاج کی تمکنت کو ظاہر کرتی نظر آتی تھی۔چہرے کا بھی مجموعی تاثربتاتاتھاکہ خاتون سطحی مزاج عادت واطوار کی مالک ہرگزنہیں ہیں۔چال ڈھال۔۔۔ رکھ رکھاؤ ۔۔۔سادگی مگر وقار کے ساتھ ۔۔۔۔ میکے میں بھی کم گو اور اصول پسند و اصول پرست اور سسرال میں بھی صبر و برداشت کا مرقع۔۔۔۔!! یہ تھیں خالہ نصیبن ۔
خالہ نگین کی پڑوسن تھیں ۔ نگین بھی انھیں سگی خالہ کی طرح چاہتی تھی۔اور کیوں نہ چاہتی ۔۔۔۔ خالہ تھیں ہی اتنی اچھی ۔۔۔۔۔!! سب کا خیال رکھنے والی ۔۔۔ کام سے کام رکھنے والی ۔۔۔ غیر ہوں یا اپنے کسی کو اُن سے شکایت نہیں ہوتی تھی ۔ میکےمیں بی کم گواور سسرال میں بھی خاموش طبع۔۔۔نگین نے سنا تھا کہ ان کے شوہر نے دوسری شادی کر لی تھی لیکن ان کے لب پرنہ شوہر کی ناالتفاتی کا گلہ تھا نہ شکایت زمانہ ۔۔۔۔ بس زندگی تھی کہ جہد مسلسل کی طرح بسر کیے جارہی تھیں۔جہد مسلسل اس طرح کہ چھ بیٹیوں کا بوجھ ، ان کی جوانیوں کا بوجھ ، کم سن بیٹے کی آرزوؤں اور امنگوں کا بوجھ ، شوہر کی بے وفائی کا بوجھ ، بڑی صابر خاتون تھیں ۔شوہر تو دوسری شادی کرنے کے بعد ہنی مون پریڈ میں مست و مگن رہا اور بے چاری بیوی ہو کر بھی  بیوہ کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئیں ۔ اور وہ بھی میکے میں ۔وقت اور حالات نے پلٹا کھایا تو میکہ چھوڑ بچوں کو لے کر علیحدہ مکان میں انتہائی دکھی دل کے ساتھ آگئیں کہ سگی ماں کو میکے میں رہنا پسند نہیں تھا ۔ یہ بھائی بھی کیسے ہوتے ہیں ناں سورہ نساء کی روشنی میں بہنوں کا حق کھا جاتے ہیں ۔۔۔۔۔!

خیر تو بات ہورہی تھی خالہ اپنے میکے کی بڑی تعریفیں کیا کرتی تھیں ۔ برائی تو کبھی سسرال کی بھی نہیں سنی ، لیکن بھائیوں سے محبت کے تذکرے کرتے تھکتی نہ تھیں ۔اپنے شوہر کی طرح میکے کی بھی بڑی تعریفیں کرتی تھیں اور نگین کو یقین تھا کہ خالہ کا میکہ واقعی زبردست ہوگا ۔ ورنہ اب تو خالہ نصیبن پاگل ہو جاتیں ۔ آج بھی وہ خالہ نصیبن کے گھرداری کی باتیں نصیحتوں کی صورت میں سن اور سیکھ رہی تھی اور کیوں نہ سیکھتی اس کی شادی جو ہونے والی تھی ۔ لہٰذا امی جان نے ڈیوٹی لگا رکھی تھی کہ ذرا اس کم عقل کو عقل سکھا دیں ۔ بس پھر کیا تھا ، اپنے مخصوص اور عاجزانہ انداز میں نگین کی تربیت کر رہی تھیں ۔ ” خالہ ! آپ کو کبھی اپنا شوہر یاد نہیں آتا ” ۔ نگین نے چٹیا باندھتی خالہ سے اچانک سوال کر لیا ۔ یوں لگا جیسے خالہ کو کسی نے تاریک ماضی میں دھکیل دیا ۔ نگین کو لگا جیسے بالوں پر خالہ کی گرفت سخت ہوگئی ہو۔۔۔۔
نہیں۔۔۔نہیں۔۔۔۔بیٹا!جانے والی چیز کا کیا غم کرنا۔۔۔اس دفعہ وہ ہنس پڑیں۔۔۔وہ ہی پھیکی سی ہنسی۔۔۔۔۔!!
خالہ۔۔۔۔!آپ شوہر کے بغیر کتنی تکلیف دہ زندگی گزار رہی ہیں، آپ ان لوگوں کو جواب کیوں نہیں دیتیں جو آپ کی عاجزی اور آپ کی بچیوں کی پڑھائی پر باتیں بناتے ہیں ۔۔۔۔۔یہ عورتیں آپ کی طرح شوہر کے بغیر زندگی گزار کر تو دیکھیں ۔۔۔۔۔ نگین حساس اور جذباتی لڑکی تھی ۔۔۔۔ پھر خالہ کی بیٹیاں بھی اسی کی ہم عمر یا تھوڑی چھوٹی بڑی تھیں ۔ خالہ کے حوصلے اور برداشت پر اس کا دل کڑھتا تھا ۔خالہ کسی کے آگے اپنے غموں کا رونا نہیں روتی تھیں ۔ بس محنت کر رہی تھیں ۔۔۔۔ سلائی کڑھائی ۔۔۔۔۔ چوڑیاں بنانا ۔۔۔۔ بچیاں ٹیوشنز پڑھا کر تعلیم کا خرچہ نکالتی اور بیٹا ہنر سیکھنے جاتا۔ خالہ نگین کی جذباتی باتیں سن کر مسکرانے لگیں اور پھر اپنی پسندیدہ غزل گنگنانے لگیں:

*کبھی تھک کےسوگئےہم,کبھی رات بھرنہ سوئے*
*کبھی ہنس کےغم چھپایا,کبھی منہ چھپاکےروئے*

خالہ ! میں آپ سے کیا پوچھ رہی ہوں ۔۔۔۔ آپ کو اپنے شوہر کی یاد نہیں آتی ؟ اُن کے ادھورے جواب سے نگین کی تشفی نہیں ہوئی تھی ، لہٰذا اُس نے بےصبری سے دوبارہ سوال داغ دیا۔
بیٹا ! میری عادت نہیں ہے شوہر کی برائی کرنے کی یا اپنے معاملات سب سے کہنے کی ۔۔۔۔۔ خالہ نے پر سکون مسکراہٹ سے گویا نگین کو ٹھنڈا کیا ۔ ہاں یہ بات تو ہے ۔۔۔ نگین نے دل ہی دل میں قائل ہوتے ہوئے سوچا ۔ اس نے کبھی ان کے منہ سے کسی کی برائی نہیں سنی تھی ۔ البتہ اپنے بھائیوں کی بڑی تعریفیں کرتی تھیں ۔۔۔۔ میرے بھائی بہت اچھے ہیں ۔۔۔۔ بہت قابل ہیں ۔ نگین کو ان کے بھائیوں سے ملنے کا بڑا اشتیاق تھا ۔ گو کہ خالہ بھائیوں سے اپنی محبت کے تذکرے خوب سناتیں لیکن عجیب بات یہ تھی کہ اس نے خالہ بھائیوں سے اپنی محبت کے تذکرے خوب سناتیں لیکن عجیب بات یہ تھی کہ اس نے خالہ کے آٹھوں بھائیوں میں سے کس ایک کو بھی آتے جاتے نہیں دیکھا ، لیکن ہاں ۔۔۔۔ ایک دو دفعہ شروع شروع میں جب خالہ نئی نئی آئی تھیں ، تب ایک دو بھائی آئے تھے ۔ کیوں کہ اتفاقاً وہ وہیں تھی ، اور اسے یہ دیکھ کر بہت کوفت ہورہی تھی کہ ان ایک دو بھائیوں کا محور صرف اور صرف ان کی بیویاں تھیں ۔ خیر وہ بات تو آئی گئی ہوگئی ، لیکن سالوں گزرنے ، نگین کو باقی بھائیوں سے ملنے کا اشتیاق تھا ۔ بس خالہ اور خالہ کے بچے زندگی کی گاڑی مل کر کھینچ رہے تھے ۔ میری بھابھیاں بہت اچھی ہیں! ساتھ ساتھ اُسے یہ بھی سمجھا دیا کہ میکے جاؤ تو کبھی سسرال کی برائی نہیں کرنا اور سسرال جاؤ تو میکے کا بھرم رکھنا۔۔۔۔!اور میکہ بھائیوں کے دم سے ہوتا ہے کسی پر بوجھ نہیں بننا ۔۔۔ کتنی صابر عورت ہیں ۔۔۔ چلو میکے کی طرف سے تو”سپورٹ” ہے ناں!نگین نےدل میں تسلی دیتے ہوئےخودکوسمجھایا۔

آج نگین کی شادی تھی ۔ خالہ کی جانب سے دی گئی ” ٹریننگ” بھی مکمل ہو چکی تھی ۔ خالہ خلاف ِ معمول بہت اداس تھیں ۔۔۔ ماشاءاللہ بہت پیاری لگ رہی ہو ۔۔۔۔ خالہ نے محبت سے کہا ۔۔۔۔ پھر حسرت زدہ لہجے میں ۔۔۔۔۔ آنکھوں میں نمی لیے دھیمے سے گویا ہوئیں :
” میری بیٹیوں کے لیے بھی دعا کرنا بیٹا ۔ ” ( ان کی بڑی بیٹی کی عمر نکلی جارہی تھی) ۔ باپ سر پر نہیں ہے اور بیٹا بھی چھوٹا ہے ۔ پہلی دفعہ وہ بہت بوڑھی اور متفکر نظر آئیں ۔ آپ کے بھائی نے بھی تو نو عمر بیٹی کی منگنی کی ہے ۔۔۔۔ ان سے کہیں ناں خالہ ۔۔۔۔۔ نگین نے خالہ کے بہت دولت مند ، صاحبِ حیثیت اور غریبوں کی مدد کرنے والے بھائی کا حوالہ دیتے ہوئے خالہ کو دلایا ۔۔۔۔۔ اور خالہ آپ کے ایک بھائی تو ماشاءاللہ خود بہت سماجی حلقہ رکھتے ہیں اور باقی بھائی جس طرح اپنی بیٹیوں کا سوچتے ہیں ۔۔۔ آپ کی بیٹیوں کے لیے بھی سوچیں ۔۔۔۔ بھائیوں کے ذکر پر نامعلوم کیوں خالہ کی آنکھیں جھک سی گئیں ۔۔۔۔ یوں لگا جیسے وہ نظریں چرا رہی ہوں ۔ نگین رخصت ہو کر پیا دیس آگئی ۔
اور پھر نگین ملک سے باہر چلی گئی ۔ اس دوران خالہ کی جانب سے خبریں ملتی رہیں کہ بیٹے نے اپنا کام شروع کر دیا ۔ بیٹیوں کی شادی ہوگئی ۔ خالہ بہت خوش اور مطمئن ہیں ۔ خالہ کے خط آتے جن میں بھائیوں کی تعریف ، انکی امارات ، شرافت ، عبادت اور عمرے کا بیان ہوتا۔ ان کے بھائی بہت قابل تھے ۔ خوب بہن کا ساتھ دیا ہوگا ۔ نگین خالہ کے ہر خط کے بعد ان کے بھائیوں سے مزید مرعوب ہوجاتی ۔ بیٹیوں کی شادی میں باپ بن کر آگے آگے ہوں گے ۔ جہیز میں بھی خوب مدد کی ہوگی ۔ پڑھی لکھی بھانجیوں کے سر پر ہاتھ رکھا ہوگا ۔ بھابیاں بھی بڑی نند کی خوب عزت کرتی ہوں گی ۔ لیکن خطوط میں خالہ کی پسندیدہ غزل کے اشعار پڑھ کر چونک سی جاتی ، ابھی کل ہی کی بات ہے ، خالہ نے خط کے آخر میں اسی غزل کا ایک شعر لکھا تھا ۔ شعر کیا تھا ۔۔۔۔ نشتر تھا جو دل میں اتر سا گیا:
*شب غم کی آپ بیتی جو سنائی انجمن میں*
*کئی مسکرائے ، کئی مسکرا کے روئے*

اور جواب میں نگین غصیلے انداز میں پوچھتی کہ اس طرح کے اشعار کا کیا مطلب ہے تو جواب میں معصوم سا تبسم اور بس۔۔۔۔ اور پھر نگین پاکستان آگئی ۔ خالہ کو سرپرائز دینے کی غرض سے ان کے کے گھر جانے لگی تو محلے کی ملنے والی عورتوں نے ملنے کے لیے روک لیا ۔ ان سے ملنے کے بعد شام ہوگئی ۔ نگین نے سوچا کہ آج ہی مل لوں ۔ سردیوں میں یوں بھی شامیں جلدی ہو جایا کرتی ہیں ۔۔۔۔ یہ سوچ کر وہ چادر سنبھال گھر سے نکلنے لگی تو پڑوس والی باجی آگئیں ۔۔۔ ارے کہاں چلیں ۔۔۔۔!
خالہ نصیبن سے ملنے ۔۔۔ نگین نے مسکرا کر کہا ان کی طبیعت خراب ہے ۔ اس لیے اچانک جاکر سرپرائز دوں گی ۔۔۔۔۔ اچھا وہ خالہ نصیبن!!باجی تمسخر انداز میں بولیں ۔۔۔ کیوں کیا ہوا ۔۔۔۔!! نگین کو ان کا انداز اچھا نہیں لگا ۔۔۔ ارے وہ ہی ناں جو ہر وقت اپنے بھائی اور بھابھیوں کی تعریفیں کرتی رہتی ہے ۔۔۔۔! ہاں وہی ان نگین کے انداز میں الجھن سی تھی ۔۔۔ کیوں کیا ہوا ۔۔۔۔۔!! نگین پوچھے بنا نہ رہ سکی ۔۔۔ ارے چھوڑو نگین ۔۔۔ ان کے بھائی ایک نمبر کے فراڈیے ، مغرور ۔۔۔ اپنی بیویوں کے غلام ہیں  ۔ اور تو اور غریب نصیبن سے ایسے مقابلہ کرتے ہیں جیسے وہ اور اس کی بچیاں ان بھائیوں کے برابر کی ہوں ۔
” کیا کہہ رہی ہیں باجی ۔۔۔۔ !! ” نگین کے سر میں دھماکے سے ہونے لگے ، لیکن باجی اپنی دھن میں مگن ایٹم بم گرائے جارہی تھیں ۔۔۔ تمہیں پتہ ہے اُن کے بھائی اپنے سسرالوں کے غلام اور بھابھیاں اپنی ماں اور بہنوں کی عزت کرانے میں پوری رہتی ہیں ۔ ماسی کے برابر اوقات نہیں ہے نصیبن کی ! اور وہ خالہ کی بیٹیوں کی شادی ۔۔۔ بچے کا کاروبار ۔۔۔ !! نگین نے صدمے کی سی کیفیت میں پوچھا ۔۔۔ ارے وہ سب تو اس صابر عورت کا صبر تھا ۔ ورنہ بھائی تو اس کی تباہی کی خبریں سننے کے لیے بےچین اور خوش رہتے ہیں ۔ ابھی گئی تھی دو بھائیوں کی تقریبوں میں ۔۔۔ بے چاری کو اسٹییج تک پر نہیں بلایا ۔ بھابھیوں نے اوقات میں رکھا ۔ بھائیوں کو اللہ پوچھے گا !
انشاءاللہ ۔۔۔!!
نگین نے دھیمے سے بددعا کے انداز میں کہا ۔ اور اس کے قدم خالہ کے گھر کی طرف اٹھنے لگے ۔۔۔!! گھر گئی تو خالہ مسلسل کھانس رہی تھیں ۔۔۔ سردی کی اداس شام دھیرے دھیرے تبدیل ہو رہی تھی ۔ خالہ کیس ہو۔ نگین نے خالہ کے گلے لگتے ہوئے دکھ سے پوچھا ۔ ٹھیک ہوں بیٹا ۔۔۔ شکر ہے بیٹیوں کی شادی ہوگئی ۔ بیٹا دوائی لینے گیا ہے ۔ اور آپ کے بھائی ۔۔۔۔ !! نگین سے رہا نہ گیا ۔ وہ پوچھ بیٹھی ۔۔۔ بھائی !! خالہ نے خلافِ معمول گہرا سانس لیا اور ہنس کے بولیں ۔۔۔۔
” ٹھیک ہیں ۔۔۔ ابھی تقریب ہوئی تھی شادی کی ۔ مجھے ہاتھ پکڑ کر اسٹیج پر لے گئے ۔۔۔ فوٹو اتروائے ۔۔۔۔ موویاں بنوائیں ۔۔۔۔ آخر بڑی پھپھو ہوں میں ۔۔۔ خالہ نصیبن نے ہنس کر کہا اور گنگنانے لگیں :
*میری داستانِ حسرت وہ سنا سنا کے روئے*
*مجھے آزمانے والے مجھے آزما کے روئے*
نحیف ۔۔۔۔ لاغر ۔۔۔ مگر حوصلے کی چٹان بنی خالہ نصیبن کو نگین دکھ سے دیکھتی رہ گئی ، جن کے چہرے پر ابھی بھی تھکی تھکی سی مسکراہٹ تھی ۔ نگین کا دل جیسے کسی نے چیر دیا ۔۔۔۔۔ خالہ کی سانسیں جیسے اکھڑنےسی لگیں برسوں سے اندر پلے ہوئے سانپ جیسے غم اپنا اثر دکھا چکے تھے آپ کے بھائی ۔۔۔ نگین نے کچھ کہنا چاہا ، لیکن خالہ نے سرسراتی آواز میں اس کی بات کاٹ دی ۔۔۔ وہ مصروف ہوں گے بچوں کی شادیوں میں ۔۔۔۔ بیٹیوں کے ناز اٹھانے میں ۔۔۔ بیویوں کی خوشامد میں ۔۔۔ دولت کے حصول میں ۔۔۔ میری بربادی کا تماشہ دیکھنے کے شوق میں ۔۔۔۔ میری دولت مند چھوٹی بہن کے ناز اٹھانے میں ۔۔۔ !! پھر بہ مشکل اپنی کھانسی پر قابو پاکر بولیں ، جو غزل میں اکثر گنگنایا کرتی تھی ۔ وہ آج پوری کردوں ۔۔۔ نگین ہچکیوں کے ساتھ رونے لگی :

*میں ہوں بےبےنوامسافر,میرا نام بےکسی ہے*
*میرا کوئی بھی نہیں ہے جو گلے لگا کے روئے*
*میرے پاس سے گزر کر میرا حال تک نہ پوچھا*
*میں کیسے مان جاؤں وہ دور جاکے روئے*
خالہ آخری ہچکی لے رہی تھیں۔ سردیوں کی اداس بھری شام اب رات میں ڈھل چکی تھی۔۔۔۔ نگین !! میرے بھائیوں کو میرا سلام کہنا اور میرا آخری پیغام دینا کہ جب تم بوڑھے ہو جاؤ گے اور تمہاری بیٹیوں کو ان کے بھائی اسی طرح سلوک کریں جیسے تم نے مجھ بے سہارا ۔۔۔۔ شوہر اور سسرال والوں کی ستائی ۔۔۔ غم کی ماری کے ساتھ کیا ۔۔۔۔ تو میری قبر پر معافی مانگنے آجانا ۔۔۔ میں معاف کردوں گی !! لیکن تاریخ تمہیں” یوسف کے بھائیوں” کے طور پر یاد رکھے گی ۔
خالہ کی اداس بجھی ہوئی آنکھیں گواہی دے رہی تھیں ، بھائی واقعی بہت اچھے تھے ۔ نگین میری لحد پر یہ شعر ضرور لکھوا دینا ۔۔۔۔ یہ کہہ کر خالہ کی گردن ایک طرف ڈھلک گئی۔
*وہ ملے جو راستے میں بس اتنا کہنا اس سے*
*میں اداس ہوں اکیلا میرے پاس آکے روئے


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact
Skip to content