افسانہ – دھرتی میری جان ! ش م احمد

You are currently viewing افسانہ – دھرتی میری جان ! ش م احمد

افسانہ – دھرتی میری جان ! ش م احمد

آرٹ ورک سب رنگ انڈیا/ روی روراج 

  ’’کالے قانون کی واپسی نہیں ، گھر واپسی نہیں‘‘

 اپنے بھاشن کے اختتام پر کسان نیتا کا اتنا بولنا تھا کہ ستنام سنگھ کی رَگ رَگ میں جوش کی بجلی دوڑ گئی:

 ’’ کسان ایکتا‘‘

 ستنام اُٹھ کھڑا ہوا ، مٹھیاں بھینچ لیں، ساری قوت کو زبان پر جمع کر کے تین زرعی قوانین کو ردکرنے کا مطالبہ نعرے میں ڈھالا ۔

 ’’زندہ باد‘‘

ہزاروں آندولن کاریوں نے بآواز بلند نحیف ونزار اور بیمارکسان کے نعرے کا جواب دیا :

ستنام سنگھ نوے سال کی پختہ عمر کابزرگ آندولن کاری کسان ہے۔ باپ دادا سے وراثت میں ملی دس بیگھہ زمین کو اَن داتا سمجھتااور کرم بھومی کہتا ہے۔ کھیتی کسانی کر تے ہوئے گوربانی اور بھجن دل کی دھڑکنیں بنانے والا بوڑھا کسان آج گھر سے بہت دور دلی کے سنگھو بارڈر پر مورچہ زن ہے ، معمولات یکسر بدلے بدلے ہیں کہ اس خیمہ بستی میں نعرے ہیں،احتجاجی ترانے ہیں، بھاشن ہیں ، بھیڑ بھاڑ ہے ، ٹی وی چنلوں کا ہجوم ہے، گرو کے لنگر ہیں ، سردی کا مقابلہ کر نے کے لئے الاؤ ہیں ،ہمتوں اور حوصلوں کی آزمائشیں ہیں ، لوہے کی نوکیلی میخیں ہیں ، کٹیلی تاروں کی قلعہ بندیاں ہیں ، پولیس کی بھاری نفری ہے، آہنی رُکاوٹیں ہیں ، پانی کی بندش ہے، بجلی پر قدغن ہے ۔

انہی کے بیچ ستنام کھلے آسمان تلے سڑک کے سنگلاخ فرش کو اپناگھر بنایا ہوا ہے۔ ایک ہی غم لاحق ہے کہ نئے کرشی قانون کے بل پر کوئی اُس کی زمین ہتھیانہ لے ، کہیں اُس کی خودداری اور خود انحصاری نیلام نہ ہو۔ ڈر اسہما خائف ہے کہ دیر سویر کوئی پونجی پتی اپنے لالچ کا پیٹ بھر نے کے لئےاس کی پشتینی پونجی پر ہاتھ صاف کرے گا۔  دیگر تمام آ احتجاجی کسانوں کی طرح ستنام کے لمبے دھر نے کا لب ِ لباب  اپنی موروثی امانت کو سر مایہ داروں سے بچا نا ہے۔

ستنام سنگھ نہتا ہوکربھی ایک عجیب جنگ لڑ ے جارہاہے ۔ ۔۔ تشدد سے پاک ، اشتعال انگیزی سے دور ، جذباتیت سے خالی۔ یہ جنگ 

اِ تہاس کی وہی جنگ ہے جوغریب کی محرومی اور امیر کی تجوری کے درمیان ہمیشہ سے چلی آرہی ہے۔ یہ جنگ اس وقت دلی کی سرحدوں سے لے کر ملک میں جگہ جگہ مہا پنچایتوں کی صورت میں برپا ہے ۔ جنگ میں دو فریق آپس میںگتھم گتھا ہیں: تکلیف دینے والا سنگھاسن، تکلیف سہنےوالا ستنام جیسے لاکھوں کاشت کار ۔ تکلیف دینے والا فریق ، اُس کے ڈھنڈور چی ، بانڈوں کی منڈلی سب مل کرکسانوں کی پسپائی کے لئے اُنہیں کیا کیا نہیں کہتے : آنتکی،خالصتانی، دیش دروہی ، آڑتھیوں کے کاسہ لیس، بچولیوں کے پٹھو، ترنگے کےاِہانت کار،نا سمجھ، دنگائی ، ٹکڑے ٹکڑٹے گینک ، نکسل وادی، ناکام اپوزیشن کے پیادے ۔ کسان یہ طعن وتشنیع اپنے دل پر تیز دھار خنجر کی طرح ضرورلیتے ہیں مگر آپا کھوتے ہیںنہ بدھی بھرشٹ ہونے دیتے ۔

ان آندولن کاروں کی کسانی ہمت کا امتحاں کون نہیں لے رہا؟کٹھور حاکم ، موسلا دھار بارشیں ، کڑاکے کی ٹھنڈ ، اب بڑھتی گرمی، دھر نے کی جگہ پر ایک سنت کی خودکشی ،پامال نفسیات کے مارے کئی کسانوں کی آتم ہتھیا ، دل کے دوروں کی تکرار۔۔۔ ستنام دیکھ رہاہےکہ ا س سب کے باوجود کسانوں کے پائے ثبات میں کوئی لغزش آتی نہ قدم  ڈگمگاتے۔ ان کا سارا درد   جیت کی اُمید سہلاتی ہے اور حوصلوں میں جان ڈالتی ہے :

 ’’ بھیا ! موت بھی آؤئے ستنام سنگھ کسان آندولن سے نہ ہٹ جاوئے۔ جس دھرتی پر فصلیں لہلہائیں ، وہ میری جان مانگے، جان حاضر ہے ۔۔۔ بڑے لوگ ہمارے منہ کا نوالہ چھین لیں تو کیا ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھیں؟ ہم اپنی بھومی اپنی مٹی سے دغا کرنے والے نہیں۔ قسم اس کے ذرے ذرے کی، ایک ایک کھیت کی حفاظت پر ہماری سو سو جانیں قربان۔‘‘ ستنام نے چنل والے کے سوال کا

 د لیرانہ جواب دیا تو کسانوں نے تالیاں بجائیں ۔ 

’’باباجی! سرکار آپ کی مانگ کو رد کرتی ہے ، کب تک آندولن

 چلا ؤگے ‘‘ رپورٹر نے پوچھا

 ’’ مانگ پوری نہیںہوتی جب تک آند ولن چلتا جاؤے، بھلے یہیں سے ہمار ی اَرتھیاں اُٹھیں، پیچھے نہیں مڑنا ۔۔۔ نا بابا نا، قطعی نہیں۔ انگریج نے بھارت سے نہ جانے کی ٹھانی مگر بھاگ کھڑا ہوا،۔ دیکھناکالے قانون بھی جائیں گے ‘‘ ستنام کےمصمم ارادہ سے اَلاؤ کے چاروں طرف بیٹھے کسانوںنے جوش میں کسان ایکتا زندہ باد کا نعرہ لگا یا ۔   

 ’’کاہے کو کالے قانون بنائے ؟ ہم نے تھوڑی کہا مائی باپ یہ مہربانی کرو؟ انہیںکرشی سدھار قانون بولو یا سورگ کی کنجیاں بتاؤ، ہمیں یہ چاہیے نہیں ، بات ختم۔ ارے بابا یہ سب ہمارے منہ کا نوالہ چھین لینے کی رَن نیتی ہے، آگے ساری جنتا بھی روئے گی ،سب کے گلے  پونجی پتیوں کی غلامی کا پھندا ڈلوانےکا پربند ھ ہورہا ہے بھئی ۔ پرجا ہٹ ہے کہ قانون واپس لو، راج ہٹ ہےکہ نہیں ہوگی واپسی ۔ ۔۔ دیکھتے ہیں کس کی چلتی ہے۔۔۔ نیتا ورگ اپنے اَن داتا سے چھل کریں ، شوق سے کریں ، کسان اپنے اَن داتا کی سنتان ہے ، وہ اپنے کھیت کھلیان کا استھان نیلامی نہ چڑھاوئے‘‘ ستنام سنگھ نے تیکھے لہجے میں بولا ۔

 بوڑھے کاشت کار کے دل میں پتھر کی لکیر کی طرح نقش ہےکہ کھیت کھلیان میں اس کی روزی روٹی ہی نہیںپُر کھوں کی آشیرواد بھی پوشیدہ ہے ، زمین کی جتائی بوائی کٹائی کسان کا گہنہ ہے ، زمین ہاتھ سے گئی تو بھوکوں مر نا ہے۔ جب بھی ستنام کو اپنےکسی بیٹے نے اپنی موروثی زمینیں بیچ کر شہر جا بسنے کی تجویز دی تو وہ بہت بگڑ گیا:

 ’’ تم اپنے اَن داتا کا اَپمان کر نے کو کہتے ہو ؟؟؟ باڑھ میں جائے تم اور تمہارا شہر۔ پیدائش یہیں ،پالن پوشن یہیں ، انتم سنسکار بھی یہیں۔‘‘

 ایک بار دلال رنجیت سنگھ نے سرگوشی میں ستنام سے راگھو سنگھ زمیندار کے ہاتھ موٹے دام پر زمین بیچنے کی صلاح دی:

 ’’موقع غنیمت ہے بابا ‘‘

 ستنام کا پارہ چڑھااور سارا غصہ ایک زناٹے دار تھپڑ سے نکال کر رنجیت کا گال لال کرڈالا:

 ’’کم بخت اَ ن داتا کو بیچ کھاؤں؟ یہ دھرتی میرا گرودوراہ ہے ۔ میری نظروں سے دورہوجا، پاجی۔‘‘     

 حالانکہ کھیتی کسانی کی سخت جان مشقت اٹھانے کے باجود ستنام کی غربت کا زخم کبھی مندمل نہ ہوا ، احسا س ِ محرومی نے عمر بھر ا ُس کاساتھ نہ چھوڑا۔ غریبی سے دودو ہاتھ کر نا، موسموں کی مارسہنا ، بنک قرضوں تلے دبے ر ہنا ستنام کو منظور ہے مگر ایک بالشت بھرزمین ہاتھ سے جائے ،یہ قبول نہیں ۔ زمین کی محبت میں گرفتار بوڑھا کسان ہمیشہ

’’ میرے دیش کی دھرتی سونا اُگلے ، اُگلے ہیرےموتی، میرے دیش کی دھرتی‘‘ گنگناتا رہا۔

بوڑھے کسان کے گھر آنگن برسوں سےخوشیاں راستہ بھول کر بھی نہیں آئیں مگر غم دھڑا دھڑڈیرا جمائے بیٹھے رہے۔ سپاہی بیٹا گرونام سنگھ کرگل ید ھ میں کام آیا ، ستنام کے کندھےپر دو معصوم پوتوں اور بیوہ بہو کا مزیدبوجھ آن پڑا۔ وہ تو اُوپر والے کی دَیا تھی کہ گرونام کی تھوڑی بہت پنشن سے غم زدہ پریوار کی سانسیں چلیں ۔ محاذ پر فوجی بیٹے کی ہلاکت سے اُس کی ماں گرمیت ٹوٹ کر بہت جلد پرلوک سدھارگئی۔ اس سے ستنام مزید اکیلا پڑگیا۔ دوسرا بیٹا اَجے سنگھ کھیتی کسانی میں من لگاکر خون پسینہ ایک کرتا مگر گزارہ چلانا دشوار سے دشوار تر ۔

اَ جے نےہل جوتنے کی بجائے ٹریکٹر کے پہیوں سے اپنے حسین سپنے جوڑے، بنک کا قرضہ اُٹھایا مگر چگتا ئی کوہ کن کا کدال بنا ۔ ساہو کار بنک نے پیسوں کا تقاضا کیا، مگر برسات وقت پر نہ ہونے سے فصل خراب ہوئی، اَجے کے پاس اب پھوٹی کوڑی بھی نہ تھی۔ چاہے وہ اپنی کھڑی فصل کی خرابی کا رونا روئے ، پیارے منے کی بیماری کا دُکھڑا سنائے، اپنی مجبوریوں کی دہائیاں دئے مگر اس سے نہ بنک کھاتے میں اصل رقم سے زیادہ بیاج بڑھانے والی سوئی رُک جاتی نہ پیٹ کی آگ سر دہوتی ۔ آخر عدم ادائیگی اور بےسروسامانی کے اژدھے سے خوف کھاکر اَجے نے خودکشی کی۔

اجے سنگھ کے خوابوں کی کہانی شمشان گھاٹ میں ختم ہوئی مگرجاتے جاتے باپو کےکندھے پرایک اور بیوہ اور دو بچوں کا بوجھ ڈال دیا ،ستنام کی کمر مزیددوہری ہوئی ۔ ستنام نے اجے کی ہمت بڑھا ئی تھی مگر وہ مرنے پر ہی اٹل رہا۔ بوڑھے باپ نے اپنی کسانی ہمت سے دوسری بیوہ بہو اور یتیم بچوں کا بوجھ سہارنے میں انسانیت کی اچھوتی مثال قائم کی۔ گھر میں دوبیواؤں اور یتیم بچوں کی کفالت بھی کھیت کھلیان سے جڑی رہی ۔

ستنام کا چھوٹا بیٹا کرپال سنگھ محاذ پر ڈیوٹی کر رہاہے۔اپنےباپو کی طرح وہ بھی یتیم بچوں کو ایک پل بھی اپنے باپ  کے سائےسے محروم ہونےکا احساس نہیںدلاتا۔    

 وقت کاسردو گرم سہنے والےبوڑھے کسان میں محبت، ہمت ، آستھا اور وشواس کا وسیع خزانہ موجود ہے۔ اچھی فصل پر دان پنیہ کرنا ، فصل کی خرابی پر ٹوٹ کر مہینوں آنسو ؤں کی شکل میں دُکھ کی ندی آنکھوں کے پرنالے سے نیچے گرانا،اس کامعمول بنتا ۔اب کی بار اس کی  بوڑھی آنکھوں میں صدمے کے آنسو نہیں بلکہ غم و غصے کی سلگتی چنگاریاں بھڑک رہی ہیں جو اسے آندولن کاری جماوڑے میں ڈٹا رہنے کاحوصلہ دے رہی ہیں ۔

نئے زرعی قوانین کی دُھوم سے گاؤں دیہات میں ہرطرف بے چینی ہلچل مچی۔ ایک ایک کسان کر کے کرشی قانون کو اپنے لئے نحوست سمجھ کر اِکھٹ کرگئے۔ راستہ روکو ، دھرنے، ہڑتالیں، مورچہ بندیاں ، لاٹھی چارج ، پتھراؤ۔ یہ لوگ چشم ِتصور سے دیکھ رہے ہیں کہ دولت مند لٹیرے تاک میں ہیں کہ کب  کسانوںکی غربت کا ناجائز فائدہ اُٹھا ئیں ،،اۃن کی زمینیں ہڑپ جائیں ، غریب جنتا کو بھوکا ننگا تڑپا کر دھرتی کے خدا بن جائیں۔

’’ نہیں ہی ہی ہی ہی۔۔۔ تم ہمارے پُرکھوں کی سمپتی لوٹ نہیں سکتے، مکار پونجی پتیو میں تمہارا خون پی جاؤں گا۔ ہم غریب سہی، مشکلوں کے بھنور میںآتم ہتھیا کر نے والے بزدل بھی کہلائیںمگر ہماری ہمت کی رَگوں میں غیرت کا گرم خون دوڑ رہاہے ۔ یہ خون قطرہ قطرہ اپنی دھرتی کی رکھشا میں بہہ کر تمہاری حویلیوں کو بہا لے جائے گا‘‘ سڑک روکو مورچہ کے دوران ستنام ایک موقع پربے اختیاری کے عالم میں چلّا چلّا کر بولا۔ 

    کسانوں پر اپنی زمینوں کے بچاؤ کی دُھن ان کے مضطرب دلوں پر سوار ہے ۔ یہی دُھن ستنام کو کھیتی کسانی، گھربار ، اپنی بے خوابی کی شدید تکلیف نظرانداز کر نے پر آمادہ کر گئی ۔وہ گاؤں کے دوسرے کسانوں کے ہمراہ اپنے پوتے اجیت سنگھ کے ٹریکٹر میںدلی دھر نے میںپہنچا ۔ بہوؤں سے وداع لیتے ہوئے ستنام نے ترنگا اور نشان صاحب اپنے ساتھ اُٹھائے، ایک چھوٹی سی پُڑیا میں کھیت کی مٹی رکھ کر پگڑی میں چھیایا تاکہ ا س کی سگندھ بوڑھے کسان کو اپنے فرض کی کھونٹی سے بندھی رکھے :

’’ بابا! آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں، نہ جائیں دلی، اجیت اکیلا جائے گا‘‘ ستنام کی بیوہ بہو نے اصرار کیا۔

’’ کنول جیت ! کوئی غم نہیں بیٹا ، ساری دوائی اُٹھالی ہے ۔ واہے گرو سب ٹھیک کرے گا ۔۔۔ یہ ترنگا میرے دیش کا رکھوالا ، نشان صاحب دھرم کا محافظ۔ تینوں کا لے قانون کیا گئے، اجیت کے ساتھ اُلٹے پاؤں واپس آجا ؤں گا۔ فون جیب میں ہے ، روزبات کریں گے،بچوں کو اسکول کالج بھیجتی رہنا، بھینس کو میری غیر حاضری کا کبھی پتہ نہ چلے ، خیال رکھنا سب کا۔ ست سری اَکال‘‘ ستنام فون ، دوائیوں کا تھیلا ، ٹرانزیسٹر ، تھوڑی بہت نقدی لے کر ٹریکٹر میں دلی کو روانہ ہوا۔ 

 بوڑھے کاشت کار کا احتجاج میں بیٹھنا خود ایک بلیدان تھا۔ چہرہ جھریوں کا جنگل ، ہاتھوں میں رَعشہ ، جسم تیزہوا میں کسی کمزور پودے کی مانند تھرتھرکا نپتا ہوا ، آنکھوںپر پُرانا چشمہ ، کمر خمیدہ مگر سماعت اور گویائی بالکل دُرست۔ بے پناہ جرأت ، اَٹل ارادہ ، غیر متزلزل عزم ، آدمی دنگ رہے کہ بوڑھی ہڈیوں میں اتنی ساری حرارت کہاں سے آتی ۔ اپنی بیماریوں سے بے فکرستنام پہلے دن سے اب تک کسان آندولن میں شامل ہے ۔

مختلف پرانتوں اور جاتیوں سے آئے کسان   اُسےپریم اور آدر سے چاچا ، تایا، بابا پکاریں۔ ہرکوئی اس کا خاص خیال رکھ رہا ہے۔ اس کو دیکھ دیکھ کر لوگ باگ اونچا اُڑنے کا حوصلہ پاتے ہیں ۔ نیند تو پہلے ہی ستنام سے روٹھ چکی ہے مگر افسوس آج سہ پہر سے اس کی طبیعت بہت زیادہ ناساز ہے ۔ شاید ۲۶ ؍ جنوری کے ٹریکٹرمارچ کی دل خراش یادیں اُس کے دل میں چھیل رہی ہیں ۔ وہ دُکھ ہو رہاہے کہ کسانوں کو کیسے کیسے بدنام کیا جارہاہے، بڑبولے کس

 دھڑلے سے اُن پر تخریب کاری کا جھوٹا الزام دھرے جارہے ہیں۔ اتنا کچھ کیا کم پڑا کہ فولادی دیواروں اورنوکیلی میخوں کے جنگل میں آندولن کاروں کومحصور کیا گیا ۔ نوکیلی میخوں کوستنام اپنے دل میں چبھا محسو س کر رہاہے۔ 

 ستنام ا س وقت اپنے کٹے پھٹے قناط میں بیماری کی حالت میں لیٹا ہے ، بدن بخار سے جل رہاہے ، نبضیں ڈوب رہی ہیں، آنکھیں نیم وا ہیں، جسم پر کپکپاہٹ طاری ہے۔ اجیت اور گاؤں کے کئی دوسرے کسان تیمارداری میں لگے ہیں، کوئی نبض ٹٹول رہاہے ، کوئی آہیں بھر رہاہے۔ ڈاکٹر نے ملاحظہ کرکےکچھ دوائیاں دیں ، افاقہ نہ ہوا۔ ہر گزرتے پل کے ساتھ تکلیف میں شدت بڑھ کر ستنام کی بے قراری میں اضافہ کررہی ہے۔

اجیت کی آنکھوں میں آنسو کا سیلاب لاکھ روکے نہیں رُک رہا ، اپنے بڑی ہمت والے داد اکی مردنی ا س سے کہاں دیکھی  جاتی۔ کسان اُترے ہوئے چہرے اور غم کی پرچھائیوں میں سوگوار ہیں۔ بے قراری میں ہانپ رہے ستنام نے اپنی نیم مردہ آنکھیں  تھوڑی سی کھولیں ، بڑی نقاہت کے ساتھ اجیت کا سہارا لے کرتھوڑاسا اوپر اُٹھا اور تکیے سے ٹیک لگائی ۔۔۔ اجیت نے پانی پلایا، مشکل سے دوایک گھونٹ لئے ، اپنی پگڑی سے مٹی کی پڑیا نکالی ،  اسے دیکھ کرہلکی سی مسکان ہونٹوں پر پھیلی، دَم سادھ کر مشکل سے بولا: 

 ’’ بے بے بے بیٹے۔۔۔ اجیت ۔۔۔ سمئے گھر واپسی کا ۔۔۔ بیٹا۔۔۔ گرمیت بلائے ، گرنام کہے آؤ باپو، اجے آواز دے کہاں ہو باپو۔۔۔ مٹی پکارے۔ ۔۔ دھرتی کی کھلی بانہیں ۔۔۔ میںجارہاہوں۔۔۔ میرا شَو ٹریکٹر میں۔۔۔ ترنگا، نشان صاحب ٹریکٹر پر لہرا نا۔۔۔ مٹی کی پُڑیا  سینے پر باندھ لینا ۔۔۔آتما کو شانتی۔۔۔ آندولن ج ج ج جاری۔۔۔ کالے قانون۔۔۔ نہیں نہیں چ چ چ چاہیے۔۔۔ شانتی  شانتی شانتی۔۔۔‘‘

  نبضیں ڈوب گئیں اور ہمیشہ کی خاموشی!


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.