تحریر:  انعم طاہر
بظاہر وہ دونوں چائے کی چسکیاں لے رہے تھے لیکن ان کی ساری توجہ اپنے پانچ سالہ بیٹے ریان کی طرف تھی جو کافی دیر سے اپنی اسکول کی نوٹ بک ہاتھ میں پکڑے چند سوالات کے لکھوائے گئے جوابات یاد کر رہا تھا۔ ایک جواب کو وہ کئی کئی بار دہرا رہا تھا اور اسکی کوشش تھی کہ جو جواب وہ تیار کر رہا تھا، اسکا ایک لفظ بھی لکھوائے گئے جواب سے مختلف نہ ہو۔ جہاں صنم اپنے بیٹے کی مہارت دیکھ کر دل ہی دل میں صدقے واری جارہی تھی وہیں سعد یہ دیکھ کر تشویش میں مبتلا ہوگیا تھا۔
مروجہ تعلیمی نظام سے وہ ذہنی طور پر اسی طرح دور تھا جس طرح مروجہ تعلیمی نظام تعلیم کے اصل مقصد سے دور ہے۔ وہ اکثر سوچتا ‘ تعلیمی ادارے کیا ہیں ؟ جیل ہیں جہاں سلاخوں کی پیچھے کئی خواب سسکیاں بھرتے ہیں؛ طلباء بے قصور قیدیوں کی مانند خلاؤں کو گھورتے درحقیقت صرف تالا کھلنے کا انتظار کرتے ہیں؛ خاکی وردی والی سوچ کے اساتذہ ہاتھوں میں ڈگریاں اٹھائے زبان سے ڈنڈے چلاتے ہیں، بالخصوص سوال اٹھانے والے قیدیوں پہ ان کا پہرہ مزید سخت ہوتا ہے۔’ وہ خود بھی سخت پہروں میں رہا تھا، لیکن اسکی سوچ سب پہروں کو روندتے ہوئے پرواز کرتی چلی گئی تھی۔ وہ آذادی پسند تھا، سو بےخوف تھا۔ ڈنڈا اسے سوال اٹھانے سے نہیں روک پایا۔ بس یہ تھا کہ اسے بہت جلد ہی ادراک ہو گیا تھا کہ وہ اپنے زمانے کا لاڈلا نہیں تھا، کہ زمانہ کبھی بھی سوال اٹھانے والے کو ل لاڈلا نہیں رکھتا۔۔۔۔۔ وہ تو کٹھکتا ہے، چبھتا ہے، حلق تک کڑوا کر دیتا ہے۔ سو سعد کے لیے یہی بہت تھا کہ وہ سر اٹھا کے اپنے قدموں پہ چلنا جانتا تھا۔
وہ خود کو بےحد خوش قسمت تصور کرتا تھا جس نے ایک باشعور ماں کی گود میں پرورش پائی تھی۔ یہ ماں ہی تھی جس نے اسے سوال کرنا اور سوچنا سکھایا تھا۔ وہ سعد کو جواب سکھانے کی بجائے جواب ڈھونڈے پہ لگایا کرتی تھی۔ نہ کبھی اسکی ماں نے اس سے اول آنے کی فرمائش کی تھی، نہ وہ اسے ہر وقت کتابوں میں گھسے رہنے کی تلقین کرتی تھی۔ اسکی سادہ سی خواہش تھی کہ اسکا سعد سمجھے، غور کرے، سوال پوچھے، جواب تلاش کرے۔
سعد نے جس سوچ کے ساتھ ذندگی گزاری تھی، وہ وہی سوچ اپنے بچوں میں بھی منتقل کرنا چاہتا تھا ۔ ریان ابھی چھوٹا تھا۔ اسکی تعلیم سے متعلق تمام ذمےداری صنم پر ہی تھی۔ صنم اگرچہ جان چھڑکنے والی ماں تھی لیکن وہ ذندگی کے سارے معاملات عموماً روایتی انداز میں ہی نمٹایا کرتی تھی۔ رہ گیا سعد تو اسے جاب اور باہر کے معاملات سے فرصت ہی نہیں ملتی تھی کہ وہ کبھی ریان کی تعلیم و تربیت پہ غور کر پاتا۔ ویسے بھی اسکا تعلق ایسے معاشرے سے تھا جہاں مرد گھروں میں عموماً صرف کھانا کھانے یا سونے آیا کرتے تھے۔ آج اتفاقاّ ہی اس نے ریان کو پڑھتے ہوئے دیکھا تو چونک گیا۔ یہ وہ طریقہ تو ہرگز نہیں تھا جس سے وہ خود پڑھ کر یہاں تک پہنچا تھا۔ آج پہلی مرتبہ اُسے احساس ہوا تھا کہ وہ اپنے بچے کے ان معاملات سے قطع تعلقی اختیار کرکے اسے بہت سی چیزوں سے محروم رکھے ہوئے تھا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں تھی کہ جو سوچ و فکر،  تجربات اور مشاہدات اس کے پاس تھے وہ ریان کی ماں کے پاس نہیں تھے، یہ الگ بات تھی کہ  سب ماؤں کی طرح وہ بھی محبت اور فرض نبھانے میں کبھی غفلت نہیں برتتی تھی۔
صنم یہ ریان ہمیشہ اسی طرح اپنا سبق یاد کرتا ہے؟
سعد نے اپنے خیال سے چونکتے ہوئے اپنی بیوی کو مخاطب کیا۔
ہاں ! ماشاءاللہ بہت لائق ہے ریان، کچھ نہیں بھولتا۔
صنم شاید سعد کے لہجے میں چھپی پریشانی نہیں بھانپ سکی تبھی فخر سے کہنے لگی۔
سعد صنم کو دیکھ کر رہ گیا۔ پھر اس نے آواز دے کر ریان کو اپنے پاس بلایا۔ ریان بھاگتا ہوا خوشی خوشی باپ کی گود میں چڑھ گیا اور یاد کیے ہوئے جواب سنانے لگا۔
 بابا مجھے سب آتا ہے۔ وہ معصومیت سے بولا۔
سعد نے اسے پیار کیا اور ساتھ ساتھ سمجھانے لگا، ‘ریان بیٹا یہ ضروری تو نہیں کہ آپ وہی جواب لکھیں جو آپکو ٹیچر نے لکھوائے ہیں، آپ خود سے بھی تو لکھ سکتے ہیں۔

خود سے کیسے بابا، اسکا جواب تو یہی ہے۔ ٹیچر نے کہا تھا یہی جواب لکھنے ہیں۔
ہاں جواب تو یہی ہیں پر آپ انھیں اپنے الفاظ میں بھی لکھ سکتے ہیں۔ خود اپنی مرضی سے بھی جواب دے سکتے ہیں، جیسے کہ اگر آپکو تین پرندوں کے نام لکھنے ہیں تو آپ اپنی پسند کے پرندے لکھ دیں۔
سعد نے اسے مختلف مثالوں سے اپنی بات سمجھانے کی کوشش کی۔ صنم نے بیچ میں بولنے کے لیے لب کھولے تو سعد نے اسے ٹوک دیا۔ جبکہ ریان غور سے سنتا رہا۔ وہ تھا تو ذہین، اس لیے جلدی ہی سعد کی بات سمجھ گیا۔ پھر کچھ سوچتے ہوئے کہنے لگا۔
 پر بابا۔۔۔ اگر میں خود سے سوچ کے لکھوں تو ٹیچر میرے مارکس تو نہیں کاٹ دیں گی؟
بلکل نہیں بیٹا، ایسا نہیں ہوگا۔۔۔ بس آپکا کونسیپٹ صحیح ہونا چاہیے۔ سعد نے اسے ہر طرح سے مطمئن کردیا تھا۔
اگلے دن جب وہ شام کو دفتر سے گھر آیا تو ریان منہ بھسورے بیٹھا تھا۔ وہ بار بار سعد کو انگلی دکھا کے کٹی کا اشارہ کر رہا تھا۔ سعد اسے ریان کی معصومیت سمجھ کے ہنستا رہا۔ وہ تو صنم نے وہاں آکر وضاحت کی کہ ریان سچ مچ سعد سے ناراض تھا۔ سعد کے پوچھنے کی دیر تھی کہ ریان نے جھٹ سے پاس پڑے اسکول بیگ سے اپنی نوٹ بک نکالی اور دکھانے کو سعد کے پاس آگیا۔
یہ دیکھیں بابا ۔۔۔۔۔۔ آپکی وجہ سے میرے مارکس کٹ گئے. ریان نے افسردگی سے کہا اور صفحے پلٹنے لگا۔
کیوں کیا ہوا، مجھے دکھایں ذرا…
 سعد نے نوٹ بک اپنے ہاتھ میں لی۔ ریان کا آج کی تاریخ میں ہوا ٹیسٹ اسکے سامنے تھا۔ اس سے پہلے کے وہ سعد کے نمبر کٹنے کی وجہ جانتا، اسکی نظر ٹیچر کے لکھے ہوئے نوٹ پر پڑی کہ بچے کو ٹیسٹ اچھی طرح یاد کروا کر بھیجیں۔ ساتھ ہی نمبرز بھی درج تھے۔ سعد نے ریان کی غلطی دیکھنے کے لیے نظر دوڑائی تو ایک مضائقہ خیز صورتِ حال سامنے آئی:
سوال: ہم کون ہیں ؟
جواب: ہم سب انسان ہیں۔  ×
ریان کے جواب ہم سب انسان ہیں کو ٹیچر نے کراس لگا کر غلط قرار دے دیا تھا۔ شاید اسکی وجہ یہ تھی کہ ٹیچر کا لکھوایا ہوا جواب اس جواب سے کچھ مختلف تھا۔ جانے کیا سوچ کر سعد کے لبوں پہ مسکراہٹ آگئی تھی۔
 آپ ہنس رہے ہیں بابا، مجھے اتنا برا فیل ہو رہا ہے. ریان باپ کو مسکراتا دیکھ کر کچھ برہم ہوا تھا۔
میرا بچہ ! میں آپکا کام دیکھ کر بہت خوش ہوں، جانتے ہو کیوں؟ ۔۔۔۔۔ اس لیے کہ آج آپ نے خود سے سوچا اور بہت اچھا سوچا۔۔۔۔ اس سے بڑی کامیابی اور کیا ہو سکتی ہے۔۔۔ ویل ڈن مائی سن ! سعد نے ریان کو بلکل اسی طرح بہلایا تھا جیسے سعد کی اپنی ماں اسکو بہلایا کرتی تھی۔
باپ کے منہ سے تعریف سن کے وہ سنھبل ہی گیا تھا۔ ذہن کچھ کام کرنے لگا تو اس نے سوال داغ دیا، بابا کیا ہم انسان نہیں ہیں؟
سعد نے جان بوجھ کر ریان کے سوال کو اگنور کیا۔ وہ جواب دے کر اسکی سوچ کا راستہ نہیں روکنا چاہتا تھا۔ اور ریان جواب نہ پاکر اسی سوال پہ اٹکا رہا کہ ہم کون ہیں، اور یہی سوچتا رہا کہ کیا ہم انسان نہیں؟
                                اختتام


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

One Response

  1. This afsana is truly remarkable and thought-provoking. I am deeply impressed by my teacher’s skillful storytelling and the way she have portrayed the complexities of family relationships and the challenges of education. The dialogues between Saad, Sanam, and Ryan are deeply capturing the nuances of parental concerns and the desire for individual growth in education. This attempt to evoke empathy and reflection in the reader is commendable, making this afsana a truly enriching experience. I am grateful for having such a talented teacher who can create such compelling narratives that question the system and resonate with readers on so many levels.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact
Skip to content