نگہت فرمان
کیا انسان کا دل سمندر کی طرح وسیع ہوسکتا ہے سمندر جو اپنے اندر اتنی وسعت و گہرائی رکھے ہوۓ ہے جس کا کوئی شمار نہیں؟ سمندر کے کنارے چلتی وہ سوچوں میں گم تھی ٹھنڈی ٹھنڈی پرسکون لہریں اس کے پاٶں سے ٹکرا کر واپس سمندر سے جا ملتیں ۔کوئی بہت خواہش رکھنے کے باوجود اس کی لامحدود وسعت کا شمار نہیں کر سکتا۔ کبھی کبھی دل چاہتا ہے کہ واقعی دل سمندر کی طرح وسیع نہیں بل کہ سمندر ہوتا۔ جہاں دکھ ٹھہرتے نہیں بہہ جاتے لہریں اپنے ساتھ ان کی پرچھائیاں بھی لے جاتیں ۔اس نے پیروں سے ٹکراتی لہروں کو واپس پلٹ کر جاتے دیکھتے ہوئے سوچا! لیکن کیا ایسا ممکن ہے ؟کاش کہ ایسا ممکن ہوتا تو زندگی کچھ سہل ہوجاتی. ۔چلتے چلتے اسے تھکن کا احساس ہوا تو وہ کنارے پر بنی بینچ پر جا بیٹھی ۔اور ایک گہرا سانس لیا ۔ زندگی کا ایک چہرہ ہم لڑکیوں کے لیے وہ ہوتا ہےجو بابل کے آنگن میں گزارتے ہیں دوسرا وہ جو پیا گھر میں کٹتا ہے ۔ اس نے سمندر کے اوپر نیلگوں آسمان پر اڑتے ہوۓ پرندوں پر نظر ڈالی۔
کسی کی قسمت اتنی مہربان ہوتی ہے کہ کوئی گُر ہونا صورت لیکن وہ پیا دیس میں موجیں و مزے کرتی ہیں۔ دکھوں سے دور پریشانیوں سے نا آشنا اور کچھ کی قسمت ایسی نا مہرباں کہ سب کچھ ہوتے ہوۓ بھی اپنے قدم جمانے کے لیے ساری زندگی تپتے توے پر گزار دیتی ہیں۔ اس کی نظریں دور ایک ہنستے مسکراتے جوڑے پر پڑی ” اللّٰہ سدا شاد رکھنا انہیں!” دل میں دعا کے ساتھ ایک ٹیس سی اٹھی اور پھر سوچوں کا سلسلہ وہیں سے جڑ گیا جہاں سے منقطع ہوا تھا۔ کیا کسی کو اندازہ ہوسکتا ہے اس تپتے توے کی تپش کا جو جسم نہیں روح جلارہی ہوتی ہے؟
کہتے ہیں زباں کے گھاٶ نہیں بھرتے جسم کے زخم مندمل ہوجاتے ہیں۔اس کی نظریں ایک بار پھر اس کھلکھلاتے جوڑے پر پڑیں جو ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے کسی بات پر قہقہہ لگارہےتھے۔ اس نے ہتھیلی سے نم آنکھیں رگڑیں کیا رویوں کے دئیے ہوئے غم و دکھ کا کوئی نعم البدل ہے ؟ یہ رویے ہی تو ہوتے ہیں جو سونے کو پیتل اور پیتل کو کندن بنا دیتے ہیں۔ابھی کل ہی کی تو بات ہے جب سب نے مل کر ہنسی مذاق میں کھانا مکمل بھی کرلیا اور اسے آواز تک نہ دی گئی اور سب کوتو رہنے دو اپنے شریک حیات کو ہی احساس نہیں کہ جس عورت نے سارا دن گرمی میں رہ کر وضع وضع کے کھانے بناۓ اس کی غیر موجودگی کا اسے احساس تک نہیں۔ آبگینے سے زیادہ نازک لڑکیوں کو لوہے جیسا مضبوط کیوں سمجھ لیا جاتا ہے ؟ اس کے ساتھ ہی اس کی آنکھوں سے بہتے اشک نے اس کی ہتھیلیاں بھگو ہی دیں۔ بیٹیاں بڑی من موہنی ہوتی ہیں لیکن بس اپنی لیکن پرائی بیٹی بہو کے روپ میں نظریہ ضرورت کی بھینٹ چڑھادی جاتی ہیں جہاں سانس لینا بھی دشوار لگنے لگتا ہے۔ وہ گھر کاٹنے لگتا ہے۔ جہاں زندگی بتانی ہے ہر پل اس کا اذیت بن جاتا ہے آہ۔۔۔۔ اسے اچانک احساس ہوا کہ اس کے پیر پر کسی نے کاٹا ہے وہ گھبرا کر کھڑے ہوجاتی ہے۔
اذیت بھی کیا شے ہے؟ جسمانی ہو تو سہہ لی جاتی ہے! مرہم لگا کر تکلیف میں کمی ہوجاتی ہے۔ وہ ایک بار پھر بیٹھ کر بلیو بگ کےکاٹے پر پیاز ملتے ہوۓ سوچنے لگ “جسم کے زخم نظر آتے ہیں تو علاج ممکن بھی ہوجاتا ہے لیکن یہی اذیت ذہنی ہو تو پل پل انسان کو مارتی ہے” سوچیں اور وہ بھی تکلیف دہ سوچیں فرد کو اندر سے کھوکھلا کردیتی ہیں۔ پھر اس بے بسی کی حد کا اختتام کبھی نفسیاتی مرض کی شکل میں یا کبھی موت پر ہوتا ہے۔ اسے زندگی کا یہ تلخ روپ اس شدت سے محسوس ہوتا تھا کہ اس کے لیے ہر سانس دشوار اور ہر لمحہ اذیت بنتا جارہا ہے فرار کی راہیں تلاش کرنے پر بھی نہیں ملتیں اور زندگی کی قید سے آزاد ہونا اپنے اختیار میں نہیں ۔وہ اپنی ہی سوچوں سے گھبرا کر کھڑے ہوکر ایک بار پھر ٹہلنے لگی اور سمندر کی ٹھنڈی لہروں سے اپنے اندر کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کی سعی لاحاصل میں لگی رہی۔ کوٸی ہم نفس و غم آشنا نہ ہو تو درد دل کہیں کس سے؟ جب بھی اپنے دوست کو اپنا غم خوار سمجھتے ہوۓ دل کھولا ایک ہی جواب پایا ظرف کا مظاہرہ کرو ظرف! یہ ظرف ہی کا تو کھیل ہے کوئی اتنا اعلیٰ ظرف ہوتا ہے؟ کہ لوگ اس کے ظرف کا ساری زندگی امتحان لیتے رہتے ہیں اور وہ اپنی عاجزی میں سوال تک نہیں کرتا اور کوٸی اتنا کم ظرف کہ انسانیت کے معیار سے نیچے آکر بھی اسے اپنی غلطیوں کا ادراک نہیں ہوتا۔اس کی نگاہ تاحد دور تک گئی جہاں سمندر کا کنارہ آسمان سے ملتا دکھاٸی دے رہا تھا نگاہیں آس پاس کے مناظر کا طواف کررہی تھیں لیکن سوچیں تھیں کہ رکنے کا نام نہ لے رہی تھیں۔ ہاں غلطی کا ادراک ہو بھی جاۓ تو اتنا ظرف بھی کہاں سے لایا جاۓ کہ اعتراف کرلیا جاۓ ۔غلطی کا اعتراف اور اس پر ندامت ہی میں تو نجات ممکن ہے اپنی بھی اور اس کی بھی جس کے ساتھ زیادتیاں کی گئیں اور جسے اس کے جائز حقوق سے بھی محروم کیا گیا ۔اس نے آسمان کی سمت دیکھتے ہوۓ ایک بڑی سی سانس لی کتنا سکون ہے اس فضا میں! لیکن اسے ایسا لگتا تھا کہ وہ جس فضا میں سانس لے رہی ہے وہاں ہر فرد صرف اپنے لیے جی رہا ہے! اس کی ساری حساسیت اپنی ذات سے وابستہ ہیں اور دوسرے تمام انسانوں کو حقارت سے دیکھتا اور ایسا ہی برتاٶ کرتا ہے ۔یہ سب سہنا اس کے لیے کتنا دشوار و اذیت ناک ہے اس کا اندازہ کیوں کر کسی کو ہوسکتا ہے؟ اسے لگتا تھا کہ اس کے پاس وہ الفاظ ہی نہیں جس سے اپنا درد بیان کرسکے! نہ اس کی آواز کا کرب اپنے اندر اتارنے والا فرد! اس کی آنکھوں کی نمی اور حلق میں پھنسے الفاظ بھی اس کے درد کا پتا نہیں دیتے بل کہ اسے اس کی جسمانی کمزوریوں سے تعبیر کیا جاتا ہے انہیں خبر نہیں روح گھائل ہو تو جسم خود بہ خود کمزور پڑنے لگتا ہے۔
شام کےساۓ گہرے ہورہے تھے ۔نیلے پیلے و نارنجی رنگ کا امتزاج آنکھوں کو بھلا لگ رہا تھا۔ وہ جب بے پناہ تھکن محسوس کرتی تو بس آنکھیں موند کہ کرسی پر ٹیک لگا کر سوچتی ہی چلے جاتی ہے۔ جس کا بچپن ہی نہیں لڑکپن بھی کھیلتے کودتے بے فکری میں گزرا کب بابل کے آنگن سے پیا دیس وہ ہزاروں خواب تتلیوں اور جگنوٶں کے سمیٹے آگ معلوم ہی نہیں ہوا! اور پھر جب حقیقت آشنا ہوئی ہر خواب کی کرچی سمیٹتے لہولہان ہوگئی ۔
ہر شوق ہر خواب ہر خواہش کہ آگے تلخ رویوں اور مسکراہٹ بھرے زہر کے تیر کے پہرے باندھنے کے بعد کیا من مانی کی جاسکتی ہے ؟ ابھی کل ہی کی تو بات ہے جب ضبط کا یارا نہ رہا تو اس نے فون پر اپنے غم خوار دوست سے من کا بوجھ لفظوں میں اتار دیا تو اس کا وہی جواب تھا۔
” ماہین ملک آس کا دیا بجھنے نہ دو! تم زندگی کا تلخ پہلو ہی کیوں دیکھتی ہو ؟ تمہارے بچے تمہارا روشن کل ہیں۔ ان کے ساتھ زندگی جیو یہ تمہاری متاع حیات تمہاری پونجی ہیں ان کے ہمراہ خوش رہو باقی سب افسانہ ہے بس یہی حقیقت ہے! اور یہ بھی افسانہ نکلا تو ؟ “
وہ یہ کہتے کہتے رک گئی کہ کہیں پھر اس کا یہ غم خوار و رازداں بھی تنگ آکر اس سے منہ نہ پھیرلے ۔