جس دن چوہدری الیاس کا بیل چوری ہوا پورے گاوں میں بے چینی کی لہر دوڑ گٸی۔کمیرے  گاوں کی خاک چھانتے پھرتے کہ کہیں بیل کا کوٸی سراغ ملے مگر بیل ناپید تھا۔کمیروں کی اضطرابی کیفیت فلک بوس تھی۔وہ کبھی طویلے کی طرف دوڑتے اور کبھی حویلی میں ہاتھ باندھے حاضر ہو جاتے۔چوہدری الیاس تھوک سے مونچھوں کو تاو دیتا برآمدے کے چکر کاٹ رہا تھا۔اس کی آنکھوں میں موجود سرخ ڈوروں نے اس کی شخصیت کو مزید وحشت ناک کر دیا تھا۔

وہ برآمدے سے سیڑھیاں اترتا صحن میں وارد ہوا۔ایک طرف تھوک پھینکتے ہی وہ غضب ناک ہوا۔

“حرام خوروں, اگر شام تک بیل نہ ملا تو تمہاری کھال اتار کر تمہیں یہی گاڑھ دوں گا”۔

یہ سن کر کمیروں کے جسموں پر کپکپی طاری ہوگٸی جو تھمنے کا نام نہ لیتی تھی۔

وہ ہاتھ باندھ کر اجازت طلب ہوۓ اور گاوں میں ایک دفعہ پھر بیل کی تلاش کو نکل کھڑے ہوۓ۔انہوں نے آبادی کی ہر گلی اور آبادی سے باہر تمام ڈیرہ جات چھان مارے مگر سب تلاش ندارد۔کچھ کمیرے اطراف کے گاوں نکل کھڑے ہوۓ۔

ماجو کو گاما ایک آنکھ نہ بھاتا تھا۔ایک وقت تھا جب دونوں کی خوب جمتی تھی۔بچپن سے ان کا یارانہ تھا۔بچپن کی اٹھکیلیوں سے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے تک دونوں ایک دوسرے کے ہم زلف رہے۔گامے کو پہلوانی کا شوق ہوا تو قریبی گاوں کے اکھاڑے میں جا پہنچا اور صدیق قصاٸی جو اس اکھاڑے کا استاد تھا،اس کے پاوں داب لیے۔

ماجو کو خبر ہوٸی تو اس نے بھی صدیق قصاٸی کی شاگردی اختیار کر لی۔دونوں دوست صبح سویرے اکھاڑے کی راہ لیتے اور خوب کسرت کرتے۔خوب رو جواں تو وہ تھے ہی لیکن استاد کے داو سیکھنے اور خوراک اچھی کرنے کے بعد وہ کسی سلطنت کے شہزادے معلوم ہوتے۔شام کو جب وہ چہل قدمی کی نیت سے گھر سے نکلتے تو کٸی عورتوں کے دلوں پر غضب ڈھاتے تھے۔

کچھ مہینے گزرے تھے کہ گاوں میں ایک عورت کا چلن ہوا۔عورت کافی خوبرو تھی اور دوردراز کے کسی گاوں سے آ وارد ہوٸی۔اس کا نام شبانہ تھا۔یہاں وہ اپنے ماموں کے ہاں رہاٸش پزیر تھی۔گاوں کے سبھی جوان اس پر قسمت آزماٸی کرنا چاہتے تھے۔وہ جب گلیوں میں سبزی کا ٹوکرا سر پر رکھے چلتی تو ایک سکوت کی کیفیت طاری ہو جاتی ۔گاوں کے کیا بوڑھے کیا جوان سبھی اس کو ایک ہی نظر میں سر تا پا گھورتے تھے۔

ماجو اور گاما کو بھی شبانہ کی خبر ہوٸی۔اب اگر شبانہ ان دو کے علاوہ گاوں کے کسی اور چھورے سے پٹ جاتی تو ان کی  آن اور شان سب خاک ہو جاتی۔دونوں نے کمر کس لی کہ شبانہ ان دونوں میں سے کسی ایک کی بانہوں میں ہی جچے گی۔

ماجو اور گاما فرصت پاتے ہی شبانہ کی گلی کے چکر کاٹتے۔وہ سفید شلوار قمیض زیب تن کیے،مونچھوں کو تاو دیتے اور شبانہ کی ایک جھلک کا انتظار کرتےتھے۔شبانہ جب کبھی کام کی غرض سے گھر سے نکلتی ،دونوں اس کا تعاقب کرتے۔شبانہ کھیتوں سے سبزیاں لینے جاتی تو دونوں انگڑاٸیاں لیتے ہوۓ اس کے پیچھے ہو لیتے۔شبانہ کو ان کی موگی کا احساس ہو چکا تھا۔ماجو کی نسبت شبانہ کو گاما کی جوانی نے متاثر کیا۔

ایک دن یوں ہوا کہ ماجو معمول کے مطابق گاما کے ہاں پہنچا اور گاما کو آوارگی پر ماٸل کیا مگر گاما نے طبعیت بوجھل ہونے کا بہانہ کیا اور گھر پر ہی رہا۔اب ہوتا یوں کہ ماجو تن تنہا ہی شبانہ کے گھر کے چکر کاٹتا اور کھیتوں تک اس کا پیچھا کرتا۔وہ ہولے سے شبانہ کا نام پکارتا مگر شبانہ اس کا کوٸی داو کارگر نہ ہونے دیتی۔

دن یوں ہی گزرتے رہے۔ایک شام فاروق کی دکان سے سگریٹ خریدنے کی غرض سے پہنچا۔سگریٹ کے کش لگانے کے بعد طبیعت کو شبانہ کی طرف ماٸل پایا۔اس نے ایک اور سگریٹ سلگایا اور شبانہ کے گھر کی جانب چل دیا۔گھنٹہ بھر شبانہ کے گھر کے باہر کھڑا رہا مگر رخ یار نصیب نہ ہوا۔وہ دامن جھاڑتا رشید عرف شیدا کے ڈیرے کی جانب چل دیا۔شیدا کے ڈیرے کے رستے میں کچھ مچھلی کے  قطار در قطار فارمز تھے۔ان فارمز کے عقب میں ایک بوسیدہ سا ایک کمرہ تھا جس کی تین دیواریں زمین بوس ہو چکی تھیں۔اب فقط ایک ہی دیوار کھڑی تھی۔

وہ اس جانب اس سے قبل کبھی نہ گیا تھا چنانچہ اس نے دیوار کی جانب رخ کیا۔جوں جوں وہ قریب ہوتا گیا اس کو ہنسنے اور کھلکھلانے کی آوازیں سناٸی دیتیں۔وہ آوازیں کچھ جانی پہچانی تھیں۔بالکل قریب جانے پر اس کو کچھ دھچکا سا محسوس ہوا۔وہ شبانہ اور گاما تھے جو مستقبل کے عہدو پیماں باندھ رہے تھے۔ماجو جل کر راکھ ہو چکا تھا۔اس نے واپسی کی راہ لی اور گھر لوٹ آیا۔وہ پوری رات سو نہ سکا تھا۔گاما جو کبھی اس کا دوست تھا،اس کا بدتر دشمن بن چکا تھا۔وہ کسی طور شبانہ کو پانا چاہتا تھا اس کے لیے وہ کسی حد تک بھی جانے کو تیار تھا۔دن گزرتے گٸے اور ماجو اور گاما کی دوستی آہستہ آہستہ اپنے انجام کو پہنچتی گٸی۔ماجو نے کبھی اس کو باآور نہ کرایا کہ وہ شبانہ اور گاما کے معاشقے سے پوری طرح باخبر ہے اور اندر ہی اندر حسد کی آگ میں جل رہاہے۔ماجو نے اکھاڑے جانا بھی بند کر دیا ۔وہ گھر سے کم نکلتا تھا اور ہر وقت شبانہ کو حاصل کرنے کی سکیمیں سوچتا رہتا تھا۔اور پھر وہ دن آ پہنچا جب چوہدری الیاس کا بیل چوری ہوا۔ماجو نے یہی لمحہ عافیت خیال کیا اور چپکے سے ایک کمیرے کے کان بھر دیے۔پھر کیا تھا خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گٸی۔کمیرے گاما کو اٹھا کر  چوہدری الیاس کے پاس لے گٸے۔الیاس گاما کو دیکھ کر دہشت ناک ہوا اور بیل کے بارے بازگشت کرنے لگا۔

گاما نے چونکہ چوری نہ کی تھی سو اس نے جرم سے صاف انکار کردیا۔چوہدری الیاس نے حکم دیا کہ گاما کو خوب پھینٹی چڑھاٸی جاۓ۔گاما بھی پہلوان تھا سو خوب ہاتھا پاٸی ہوٸی ۔گاما نے بہت سے کمیروں کو زخمی کر دیا تھا ۔کمیروں کو اپنی جان کی بن آٸی تھی سو ایک کمیرے نے ڈنڈا اٹھایا اور گاما کے سر پر دے مارا۔ضرب کاری تھی سو گاما کے پیر ڈگماگٸے۔اب کیا تھا گاما پر خوب ڈنڈوں کی برسات ہوٸی۔کمیروں کی آنکھوں میں خون اتر چکا تھا اور اوپر سے چوہدری کا آشیر باد حاصل تھا۔پھر کیا ہوا کہ مچھلی کی طرح تڑپتا گاما ٹھنڈا پڑ گیا۔جب گاما کی جانب سے کوٸی جنبش نہ ہوٸی تو کمیروں کی آگ بھی ٹھنڈی ہوٸی۔گاما مر چکا تھا۔چوہدری الیاس نے مونچھوں کو تاو دیا اور بولا

“ارے حرامی, خود تو مر گیا اب بیل کہاں سے ملے گا”۔

گاوں میں کہرام مچ چکا تھا۔گاما کی موت کی خبر ہر سو  پھیل چکی تھی۔ماجو یہ خبر سن کر بہت خوش ہوا۔اس نے اپنے رقیب کو ٹھکانے لگا دیا۔گھر والے زارو قطار بین کرتے رہے۔قیامت صغری کا منظر تھا۔دوسری طرف چودھری الیاس تھا ۔کسی میں ہمت نہ تھی کہ وہ الیاس سے جاکر بازپرس کرے۔چوہدری الیاس کی دہشت  کے آگے سب کی بولتی بند ہو جاتی تھی۔

دن ایسے ہی گزر گٸے۔ماجو نے شبانہ کی ہمدردی حاصل کر لی تھی۔وہ ہر روز کھیتوں تک اس کے ساتھ جاتا تھا۔اب ہر شام اس کا یہی معمول تھا۔ وہ اس کے جسم تک رساٸی حاصل کرنا چاہتا تھا تاکہ اپنے تن میں لگی آگ بجھا سکے۔پھر ایسی ہی ایک شام وہ اپنی خواہش کو پورا کرنے میں کامیاب ہوگیا۔اگلی صبح جب چوہدری الیاس اپنی مونچھوں کو تھوک سے نرم کر رہا تھا ۔شنید ہوٸی کہ بیل مل گیا ہے ۔بیل قریبی گاوں میں تھا اور کمیروں کی غلطی کی وجہ سے طویلے سے کھل گیا تھا۔چوہدری الیاس نے مونچھوں کو تاو دیا۔اور ہنس دیا۔ہنسے سے اس کے کھٹے دانت واضح ہوگٸے تھے۔اس نے کمیروں کو گالی بکی اور کہا

“حرامزادو، کوٸی کام ڈھنگ سے بھی کر لیا کرو”


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

Skip to content