“آہا…. میرا نیا دوست۔۔۔ آؤ میں تمہیں اپنے باقی ساتھیوں سے ملواؤں۔ وہ سب تمہیں خوش آمدید کہیں گے۔” میں نے یہ کہہ کر جونہی اس بوسیدہ جلد پہ پیار سے ہاتھ پھیرا تو وہ چمک اٹھی۔ شاید “نیا” کے لفظ نے اسے خوشی سے جگمگانے پر مجبور کر دیا تھا۔ میرے لبوں پہ بھی مسکراہٹ پھیل گئی۔ میں اسے لیے قدیم مسودہ جات کے لیے مخصوص الماریوں کی طرف بڑھ گیا۔

کہتے ہیں تنہائی میں کتابوں سے بہتر کوئی دوست نہیں۔ سچ ہے کیونکہ مجھے تو تنہائی سے زیادہ عزیز یہی دوست ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں میں بوڑھا سنکی ہوں جس نے اپنی زندگی کے 70 سال اس کتب خانے میں قید ہو کر ضائع کر دیے ہیں۔ بھلا وہ کیا جانیں “مقید” کون ہے اور “آزاد” کون۔۔۔۔

ارے میں تو چھوٹا سا تھا جب یہاں آیا تھا اپنے بابا کی انگلی تھامے۔۔۔۔ مصر کا یہ قدیم قومی کتب خانہ دنیا میں علم و فن کے ایک بڑے ذخیرے کو اپنے اندر سموئے ہوئے تھا۔ اس وقت مجھے صرف یہی بتایا گیا کہ بڑے لوگ یہاں آکر علم سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ میں نے کتب خانے کے مہتمم سے پوچھا “اور چھوٹے کیا کرتے ہیں؟” وہ مسکرایا اور بولا “جو چھوٹے ہوتے ہیں وہ ان کتابوں سے دوستی کرتے ہیں اور بہت بڑے بن جاتے ہیں”۔ “میرے بابا سے بھی بڑے” میں نے استعجاب بھرے لہجے میں پوچھا۔
مہتمم نے بابا کی طرف دیکھا تو وہ بھی مسکرا رہے تھے اور پھر انہوں نے مجھے اٹھا لیا “ہاں بیٹا۔ مجھ سے بھی بڑے۔ بلکہ میں تو بہت چھوٹا ہوں۔ یہاں مجھ سے بھی بڑے بڑے لوگ آتے ہیں۔ جو جتنا علم سمیٹے گا اتنا ہی بڑا ہوتا جائے گا۔”
میرا ذہن تو صرف ایک ہی سوئی پہ ٹک گیا تھا کہ بابا سے بڑے لوگ بھی ہوتے ہیں۔ میرے بابا بہت دراز قد انسان تھے لیکن لائبریری کا دروازہ بھی بہت اونچا تھا۔ مجھے یقین آ گیا کہ واقعی بڑے لوگ اس سے آسانی سے گزر جاتے ہوں گے۔ بابا مجھے روز ہی دو تین گھنٹوں کے لیے یہاں لے آتے تھے۔ خود تو وہ جانے کن کن کتابوں میں سر دیے بیٹھے رہتے، ایسے میں انہیں بھول جاتا کہ وہ مجھے ساتھ لائے ہیں۔ اب ایسی بھی کیا بے خودی کہ انہیں واپس جانے کا احساس ہی نہ رہتا۔۔۔۔ یہ تو مہتمم کا بھلا ہو جو آ کر انہیں احساس دلاتا کہ ان کی واپسی کا وقت ہو گیا ہے۔۔۔۔

کتب خانے میں مجھے ساتھ لانے کی وجہ یہ تھی کہ میرے کوئی دوست نہیں تھے، جہاں ہماری رہائش تھی وہاں کوئی ہم عمر بچہ موجود نہ ہونے کی وجہ سے میرا سارا دن ماں کے ساتھ گزرتا اور اسی لیے شام کو بابا اپنے ساتھ یہاں لے آتے۔ مجھے یہاں داخل ہوتے ہی ایک اپنائیت کا احساس ہوتا جیسے یہاں موجود ہر شے بے ضرر ہی تھی۔ کتب خانے کے طویل دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی کتابوں کا ایک نیا جہان آباد تھا۔ ہر طرف دیوقامت مضبوط لکڑی کی الماریاں جو اتنی بڑی تھیں کہ چھت سے بس کچھ انچ ہی نیچے محسوس ہوتی تھیں۔ ان میں رکھی کتابیں اٹھانے کے لیے لکڑی کی سیڑھی استعمال کی جاتی۔ کتب خانے کے عین وسط میں بہت سی میزیں اور ان کے گرد کرسیاں رکھی ہوئی تھیں۔ دن میں کھڑکیوں کے ذریعے باہر کی روشنی ہی یہاں کافی ہوتی جبکہ شام ہوتے ہی میزوں پر موجود لیمپوں کی روشنی ماحول کو خوابناک سا تاثر بخش دیتی۔

مجھے ہمیشہ اپنے دوست (کتب خانے کے مہتمم) کے ساتھ بٹھا کر بابا مطالعہ میں مصروف ہوجاتے۔
وقت اسی طرح گزرتا رہا۔ پھر مجھے ایک مدرسے میں داخل کروا دیا گیا۔ آخرکار میں بھی پڑھنا لکھنا سیکھ گیا۔ چند سالوں میں عربی اور فارسی پہ عبور حاصل ہوا تو میں بھی کتب خانے سے استفادہ کرنے لگا لیکن اب بابا اس دنیا میں نہیں رہے تھے۔ میں تنہا ہی یہاں چلا آتا کیونکہ
بقول عربی شاعر متنبی۔۔۔

وخیر جلیس فی الزمان کتاب۔۔۔۔۔۔ (زمانے میں بہترین ہمنشین کتاب ہے)

میں کتابوں کی خوشبو سے محظوظ ہونے لگا۔ لفظ مجھے مسحور کرنے لگے۔پڑھنا میرا اوڑھنا بچھونا بن گیا۔ کتابوں کا لمس میرے لیے روح پرور تھا۔ میری آنکھیں کتب کی چکا چوند سے خیرہ ہو جاتیں، دل میں علم کا سمندر سمیٹنے کا جذبہ ٹھاٹھیں مارتا اور دماغ اپنی محدود جسامت کے برعکس علم کا لامحدود خزانہ اپنے اندر سمیٹے وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا۔ سفید صفحات پہ کالے حروف تاریکیوں سے نکال کے روشنیوں کے سفر پہ میرے ہمرکاب بنے رہے۔

علمی سرچشموں سے فیضیاب ہوتے ہوتے زندگی کا سفر جاری رہا۔ میرے شب و روز کا بیشتر حصہ کتب خانے کی آغوش میں صرف ہوتا تھا۔ میں اسے ہی اپنا مستقل مسکن بنانا چاہتا تھا۔ لہٰذا میں نے ببلیو گرافی (علم کتابداری) کو بطور پیشہ اپنانے کی ٹھان لی۔ میں نے فرانس جا کر اس کی تربیت تین حصوں میں حاصل کی۔ پہلے حصے میں مجھے اطلاعاتی اور تحقیقی کتب کی درجہ بندی کرنا اور فہرستوں کی توسیع کے حوالے سے تعلیم دی گئی۔ دوسرے حصے میں کتابوں کی نمایاں خوبیوں کو پرکھنا اور تیسرے حصے میں مختلف نئی فہرستوں کو ترتیب دینا سکھایا گیا۔ اس علم و فن میں ماہر ہونے کے بعد جب میں واپس آیا تو میں نے اسی مہرباں مہتمم کی جگہ لے لی جو اب بہت ہی عمر رسیدہ اور دیکھنے سے تقریباً قاصر ہو چکے تھے۔

گزرتا وقت بہت سی تبدیلیاں اپنے ہمراہ لایا تھا۔ لیمپوں کی جگہ برقی بلب لے چکے تھے۔ کتب خانے کے نظم و نسق اور دیکھ بھال کا فریضہ سرانجام دینے کے لیے میرے ساتھ تربیت یافتہ معاونین موجود تھے۔

دوسری طرف زندگی کے دیگر معاملات بھی چلتے رہے۔ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوا تو وقت کی تقسیم کے باوجود کتابوں سے والہانہ عشق اور کتب خانے سے حد درجہ عقیدت میں ذرا بھی کمی نہ آئی کہ میں اسے بطور کل وقتی ملازمت اختیار کر چکا تھا۔ میرا دل علمی ذوق کے حامل افراد کی صحبت میں مسرور تھا۔ سفر و حضر میں یہی کتب میری ہمراز و دمساز ہوتیں۔

میں قوموں کے عروج و زوال کے سفر کا امین ٹھہرا، تاریخ کی برگزیدہ ہستیوں سے ملاقات کا شرف حاصل کرتا، وہ بولتے تو میں سنتا، میں ان کی خوشی پہ کھل اٹھتا اور دکھ پہ افسردہ ہو جاتا۔ میں ان کتب ہی کی بدولت جنگ و امن کے زمانوں کا گواہ ٹھہرا۔ یہیں مجھے ماضی کی تہذیب و ثقافت سے آشنائی ملی۔ میں شہر علم (کتب خانے) میں کھڑا ہوکر تاریخ کے ہر دور کے علماء و فضلاء اور اہل علم و ادب کی روحوں سے سرگوشیاں کرتا۔ دور قدیم سے دور جدید کے علماء کی حکمت و فراست کو نچوڑ کر اپنے اندر اتار لیتا۔ کائنات و روح کی گھتیاں سلجھانے میں حروف میرے معاون بنتے۔ اور سب سے مزے کی بات یہ ہوتی کہ میں اس دوران تھکن یا بے چینی جیسی کیفیت سے کوسوں دور رہتا۔

لوگوں کی ایک بڑی تعداد یہاں اپنی علمی و فکری پیاس بجھانے آتی ہے۔ ایک اچھے منتظم کی حیثیت سے میں نے ہمیشہ تمام قارئین کو بروقت صحیح مواد فراہم کرنے کی بھرپور سعی کی ہے۔ میں آج بھی خود کو چاک و چوبند پاتا ہوں۔ زندگی کب تلک اپنے سانس گھسیٹے ،نہیں جانتا۔ بے سمجھ لوگ مجھے سنکی بوڑھا کہیں، مجنوں پکاریں یا کتابوں کے قیدی کا نام دیں، میرے کان گردوپیش کے تمام تر تبصروں سے بے پروا ہیں۔ میں ان کی بات سے متفق ہوں تو صرف اتنا کہ ہاں میں قیدی ہوں لیکن کتابوں کا نہیں۔۔۔۔

میں علم کا اسیر ہوں جو میری ذہنی وسعت و آزادی کا باعث ہے۔ میری واحد دعا یہی ہے کہ اسی اسیری کے عالم میں میری روح اس عالم فانی سے پرواز کرے۔۔۔۔۔

اعمش ڈائری پڑھ کر ایک مسمریزم کی سی کیفیت میں بیٹھا رہ گیا۔
وہ جدید دور کا نوجوان تھا جسے کبھی کسی کتب خانے جانے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی تھی کیونکہ وہ اپنی لائبریری اسمارٹ فون کی صورت اپنے ساتھ لیے پھرتا تھا۔ انٹرنیٹ پر موجود لاکھوں کروڑوں کتب محض ایک کلک پر اس کی دسترس میں آن موجود ہوتیں لیکن وہ شاذونادر ہی ایسی زحمت کیا کرتا تھا۔ تعلیمی میدان میں وہ کامیاب تو تھا لیکن وسعت مطالعہ نہ ہونے کے برابر تھی۔
پچھلے دنوں نئے مکان میں منتقلی کے دوران اسے اپنے والد کے سامان سے یہ ڈائری ملی تھی جس پر اس کے دادا کا نام درج تھا۔ اس نے اسے کسی قیمتی متاع کی طرح اپنے پاس محفوظ کر لیا اور آج فرصت کے لمحات میں اس کی ورق گردانی کرنے لگا۔ ڈائری کو چھوتے ہی اسے انوکھی سی اپنائیت کا احساس ہوا تھا۔ اسے مکمل پڑھنے کے بعد دل کا گداز آنسوؤں کی صورت آنکھوں سے بہہ نکلا۔

اسے علم تھا کہ اس کے دادا اپنے وقت کے ایک بہترین جید عالم اور محقق تھے کیونکہ پہلے زمانے میں کتب خانوں کے نگران کوئی عام علمی معیار کے حامل نہیں ہوا کرتے تھے۔ علم و فن کا جو سمندر انہوں نے اپنے اندر سمویا، اسے اپنی تحقیق کی صورت میں قلمبند بھی کیا۔ اعمش علم کا قدردان تو تھا لیکن آج اپنے دادا کی آپ بیتی پڑھ کر ایک عجیب سے احساس میں مبتلا ہو گیا۔ اسے لگا جیسے الفاظ کی تاثیر نظروں کے رستے اس کے دل میں اتر گئی ہے۔ علم کی قدر افزائی کی داستان اس کے لیے قندیل کا روپ اختیار کر چکی تھی۔ اس کی روح کتابوں کے سمندر میں غوطہ زن ہونے اور ان کا لمس محسوس کرنے کو بے قرار سی ہوگئی۔ اسے ڈائری سے خوشبو آنے لگی اور اب وہ بھی علم کا اسیر ہونے جا رہا تھا.


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

Skip to content