رومی… ایک شوخ، ہنستی کھیلتی، ذرا لاپرواہ سی لڑکی، جس کی زندگی انسٹاگرام کے ریلز، فلٹرز، اور کمنٹس کے گرد گھومتی تھی۔ دن کا آغاز موبائل کے ساتھ، اور اختتام “لائکس” کے گنتی پر ہوتا۔ خواب بڑے تھے، مگر ترجیح سوشل میڈیا۔

ایک دن، ریلز دیکھتے ہوئے، ایک ویڈیو پر دل رک سا گیا… ایک پٹھان ڈاکٹر، جو مریض کو پرسکون انداز میں سمجھا رہا تھا۔

ڈاکٹر ابراہیم خان

تجسس بڑھا، پروفائل وزٹ کیا، اور دل نے کچھ لمحے کو دم لیا — ماہر امراض قلب، ایم بی بی ایس، پی ایم ایس، ایک روایتی، سنجیدہ چہرہ… اور آنکھوں میں عجیب سا سکون۔

رومی نے دل میں سوچا: “بس یہی بندہ ہے… جس سے بحث کر کے مزہ آئے گا!”

اور بحث… چیٹ سے شروع ہوئی، روز کی بات چیت، میمز، ریلز… اور دل کا ایک کونا… خاموشی سے آباد ہونے لگا۔

اب بات صرف میمز تک محدود نہ تھی۔

ابرہیم نے بھی دل سے مان لیا تھا کہ رومی کی بے پرواہی، اس کی دنیا کے شور کو کم کر دیتی ہے۔

مگر ایک دن… معمولی بات سے بڑی بحث ہو گئی۔

“تم صرف وقت ضائع کرتی ہو!”

“اور تم خود کو بہت سنجیدہ سمجھتے ہو!”

بس، وہ آخری بات تھی۔

رابطہ ختم۔

نہ کوئی میسج، نہ اسٹوری ویو۔

سناٹا، جیسے کچھ کبھی تھا ہی نہیں۔

اسلام آباد کی رات پرسکون تھی، لیکن رومی کے دل میں ایک انجانی سی بے چینی تھی۔ وہ اپنے سکول کے ٹرپ پر آئی تھی، لیکن صبح سے طبیعت عجیب سی تھی۔ یہ شہر اس کا دل جیسے مٹھی میں لے رہا تھا۔ گھبراہٹ، کمزوری اور پھر اچانک آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔

جب اسے ہوش آیا، تو سب کچھ دھندلا سا تھا۔ دھیمی روشنی، اینٹی سیپٹک کی مہک، اور سر میں ہلکی سی تھکن۔ آنکھیں کھولنے کی کوشش کی تو کسی نے نرمی سے کہا:

“پلیز… آرام کرو، تم ابھی بہت کمزور ہو۔”

یہ آواز کچھ جانی پہچانی سی تھی، لیکن ذہن پر دھند چھائی ہوئی تھی۔ وہ پھر بے ہوش ہوگئی۔

کمرے کے باہر اُس کی بیسٹ فرینڈ عروش، فکر سے بیٹھی تھی۔ ابرہیم، جو کہ اس رات ایمرجنسی میں واحد سینئر ڈاکٹر تھا، فائل ہاتھ میں لیے کئی لمحے دروازے پر کھڑا اسے دیکھتا رہا۔ وہ ایک لمحہ جس کا وہ برسوں سے انتظار کر رہا تھا، آج تقدیر نے اس کے قدموں میں لا ڈالا تھا۔

جب سب سستا چکے، اور نرس آخری بار چیک کرکے جا چکی، تو وہ آہستہ سے کمرے میں داخل ہوا۔ عروش، رومی کے برابر کرسی پر سو گئی تھی۔

ابرہیم، رومی کے بیڈ کے قریب آیا۔ وہ نیم بے ہوش تھی، لیکن چہرے پر وہی معصومیت، وہی لاابالی سی مسکراہٹ کا عکس اب بھی تھا۔

“رومی…” وہ سرگوشی میں بولا، “پتا ہے، جب تم گئی تھی… تو جیسے میری سانسیں ہی ساتھ لے گئی تھی۔”

اس نے ایک لمحہ توقف کیا، آنکھوں میں نمی آگئی۔

“تمہیں لگا ہوگا کہ میں روٹھ گیا… شاید تم نے بھی روٹھنے کی اداکاری کی، پر دل نے کبھی چھوڑا نہیں تمہیں۔ ہر کال، ہر میسج کے بعد دل بس تمہیں ڈھونڈتا رہا۔”

رومی نے ہلکی سی جنبش لی۔

ابرہیم نے آہستہ سے اس کا ہاتھ تھاما۔

“میں نے تمہیں انسٹاگرام پر نہیں، قسمت میں پایا تھا۔ اور آج جب تم سامنے ہو، تو میں کچھ نہیں چھپاؤں گا۔ میں تم سے محبت کرتا ہوں، رومی۔ برسوں سے، ہر دن، ہر لمحہ۔”

رومی کی پلکوں میں ہلکی سی جنبش ہوئی۔

ابرہیم کا دل دھڑکا، کیا وہ سن رہی تھی؟

“اگر تم جاگ رہی ہو… تو کم از کم ہاتھ دبا دو، میں سمجھ جاؤں گا…”

چند لمحے خاموشی رہی، پھر بہت مدھم سی گرفت ابرہیم کی انگلیوں پر محسوس ہوئی۔

ابرہیم کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے، مگر چہرے پر ایک سکون تھا۔

وہ لمحہ، جب سب کچھ کہہ دینے کے بعد، دل ہلکا بھی تھا، اور پھر سے بوجھل بھی — لیکن امید کا ایک چراغ جل چکا تھا۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

Skip to content