تحریر: طارق محمود شامل

موسم خوشگوار تھا۔ ہلکی ہوا درختوں کی شاخوں سے سرگوشیاں کر رہی تھی۔ پارک میں بچے جھولے لے رہے تھے، کچھ جوڑے خاموش بینچوں پر بیٹھے وقت کو بانٹ رہے تھے۔ ایسے میں وہ آئی۔ سفید دوپٹہ ہوا میں ہلکورے کھاتا ہوا اُس کے عقب میں لہرا رہا تھا۔ اُس کی چال میں ایک ٹھہراؤ تھا، جیسے وہ وقت کو قابو میں رکھتی ہو۔

میں ہمیشہ کی طرح اپنی ڈائری لے کر اسی بینچ پر بیٹھا تھا جہاں کئی مہینے پہلے اُسے پہلی بار دیکھا تھا۔ وہ اکثر صبح کی ہوا لینے آتی، کبھی کسی سے بات نہ کرتی، بس چہل قدمی کرتی، کبھی کبھار کسی کتاب کے چند اوراق الٹتی، اور واپس چلی جاتی۔

آج پہلی بار اُس نے میری طرف دیکھا۔ ہلکی سی مسکراہٹ اس کے لبوں پر تھی۔ میں چونک گیا، قلم رک گیا۔ اُس نے قدم بڑھائے اور آہستہ سے کہا،

“آپ کچھ لکھتے ہیں؟”

“جی، کچھ کہانیاں… کبھی کبھار شاعری۔”

میں نے ڈائری بند کرتے ہوئے جواب دیا۔

“کبھی میرے بارے میں لکھیے گا؟”

میں ہکا بکا رہ گیا۔ وہ تو برسوں سے میرے افسانوں کی خاموش کردار تھی، مگر یہ وہ کیسے جان گئی؟

“آپ کو کیسے پتا چلا؟”

“جیسے خوشبو اپنے ہونے کا پتا دے دیتی ہے، ویسے ہی لفظوں میں کچھ جھلکیں ملتی ہیں…”

وہ بولی اور نظریں چرا لیں۔

ہم روز ملنے لگے۔ موسم کے ساتھ ساتھ باتوں میں بھی خوشگواری آنے لگی۔ اُس کی آنکھوں میں چھپے راز آہستہ آہستہ کاغذ پر اترنے لگے۔ اُس کا نام زینیرا تھا، ایک سادہ مگر پیچیدہ کہانی کی لڑکی، جس کی زندگی میں کچھ ایسے واقعات ہوئے تھے جن سے وہ بھاگ رہی تھی۔

ایک دن اُس نے کہا،

“اگر میں چلی گئی تو میری کہانی مکمل لکھ دینا۔”

میں ہنسا، “کہانی تو تم ہو، تم نہ رہو تو قلم سونا ہو جائے۔”

وہ کچھ دیر خاموش رہی، پھر کہا،

“محبتیں بعض اوقات قلم سے زیادہ وفادار ہوتی ہیں، پر قلم آخری سانس تک لکھتا ہے… یاد رکھنا۔”

اُس کے بعد وہ نہیں آئی۔ نہ اگلے دن، نہ اگلے ہفتے۔ پارک ویسا ہی تھا، مگر اب خوشگوار موسم میں بھی اداسی کا ایک جھونکا ہوتا۔ میں نے زینیرا کو بہت ڈھونڈا، اسپتالوں، لائبریریوں، سوشل میڈیا پر… کہیں نہیں ملی۔

آج برسوں بعد اُس بینچ پر بیٹھا ہوں۔ ڈائری کھولی ہے، قلم ہاتھ میں ہے، اور صفحے پر پہلا جملہ لکھ دیا ہے:

“زینیرا، تم افسانہ نہیں، لمحوں کا قرض ہو… جو ہر لفظ سے چکایا جا رہا ہے۔”

ختم شد۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

Skip to content