”ابھی تو بیڈ کے دراز میں ہزار روپے رکھ گئی تھی میں۔ کیا بیڈ کا دراز کھا گیا انھیں۔ ضرور تمھاری بیٹی نے اٹھائے ہیں سکینہ! پوچھو اس سے، نہیں تو پھر میں اچھی طرح پوچھتی ہوں اسے۔“

سلطانہ بیگم ہزار روپے گم ہونے پر شدید غصے میں تھیں۔ بات ہزار کی نہیں ان کے گھر سے چوری کرنے کی جرت کی تھی۔ آخر وہ کیسے برداشت کر سکتی تھیں، وہ اس گاؤں کے نمبردار کی بیوی تھیں جو دوسروں کی چوریاں واپس دلاتا تھا اور دوسروں کی زندگیوں کے فیصلے کرتا تھا۔

”نمبر دارنی جی! میری بیٹی چوری نہیں کرتی۔ میں نے اسے ہر برائی سے دور رکھا ہے۔ میں نے اپنی بیٹی کی اچھی پرورش کی ہے۔“ سانولے سے رنگ کی سکینہ ہاتھ میں جھاڑو پکڑے نہایت عاجزی سے بولی۔

”تو جتنی اچھی تربیت کر لے سکینہ یہ خون تو شیدے نشئی کا ہی ہے جو نشے کی لت میں اندھا ہو کر کسی کی بھی چیز اٹھا کر بیچ دیتا ہے۔ تو پرے ہٹ میں خود پوچھتی ہوں اسے۔“

وہ سیکنہ کو ایک طرف دھکیلتی ہوئی وہ اس کی بارہ سالہ بیٹی کی طرف بڑھی۔

”ہاں اری نامراد! کہاں چھپائے ہیں پیسے بتا مجھے؟ بتا دے نہیں تو نمبردار صاحب ٹوکہ مشین میں لگا کر چورا کر دیں گے تیرا۔“

بچی اعتماد سے کھڑی تھی اس کے چہرے پر ذرا بھی خوف نہیں تھا۔

”میں نے چوری نہیں کی۔ مجھے پتا ہے چوری کرنے والے کو اللہ تعالیٰ سخت ناپسند کرتا ہے۔ میں جب آپ کے کمرے میں فرنیچر صاف کرنے آئی تو حمزہ صاحب آپ کے کمرے سے نکل رہے تھے۔ شاید انھوں نے لیے۔۔۔۔۔۔۔۔“

وہ ابھی فقرا مکمل نہیں کر پائی تھی کہ سلطانہ نے اس کے منہ پر زور دار تھپڑ جڑ دیا۔ تھپڑ اتنا کڑاکے دار تھا کہ سکینہ کا کلیجہ منہ کو آ گیا اور بچی کے دانتوں سے خون آنے لگا اور اوندھے منہ زمین پر گر گئی۔ سکینہ نے بھاگ کر اپنی بیٹی کو اٹھایا۔

”اس کی یہ مجال کہ یہ میرے حمزہ پر الزام لگائے میں کہتی ہوں دفع ہو جاؤ اسے یہاں لے کر۔ اس سے پہلے کے میں اس کا خون کر دوں۔“

وہ تکبر اور غصے میں اندھی ہو رہی تھی سکینہ کانپتی ہوئی، معافیاں مانگنے لگی مگر سلطانہ اس وقت ان کی شکل دیکھنے کی روادار نہیں تھی۔

”میں کہتی ہوں چلی جا یہاں سے۔ اس منحوس کو لے کر۔ اس سے پہلے کہ میں۔۔۔۔۔“

ابھی وہ جملہ پورا نہیں ہوا تھا کہ سکینہ بیٹی کا بازو پکڑ کر تیز تیز حویلی سے باہر کی طرف بھاگی۔ بچی کے منہ سے ابھی بھی خون آ رہا تھا۔ سکینہ نے راہ میں لگا نلکا چلایا اور بچی کو کلی کروا کر اس کا منہ دھلوایا اور اپنی قسمت کو روتی ہوئی گھر طرف چل دی۔

——-++++++++++++++++

”اے بےغیرت عورت! آ گئی تو؟  کس یار سے مل کر آئی ہے؟ تو جو گلی گلی آوارہ کتیا کی طرح گھومتی ہے سب پتا ہے مجھے۔ میں نشئی ہوں، اندھا نہیں ہوں۔“

 رشید نے گھر کی دہلیز پر پیر رکھتے ہی ہمیشہ کی طرح سکینہ پر گالیوں اور الزامات کی بارش کر دی۔

”تیری قبر کھودنے گئی تھی۔ تیرے کفن کے لیے پیسے جمع کرنے گئی تھی، جب تو نشے سے مرے گا تو اس گھر میں تو اتنے پیسے بھی نہیں کہ تیری میت قبرستان تک لے جا سکیں ہم۔ اس لیے لوگوں کے جھوٹے برتن مانجنے، میلے کپڑے دھونے اور ان کے گھروں کا گند صاف کرنے گئی تھی۔“

یہ کہہ کر سکینہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ وہ تھک گئی تھی صبر کرتے کرتے۔ خود پر آنے والی ہر مصیبت کو اس نے بڑے حوصلے سے برداشت کیا تھا مگر اپنی بچی کی ذرا سی تکلیف اس سے برداشت نہیں ہوتی تھی۔ ساری زندگی اس نشئی کے ساتھ یہی سوچ کر کاٹ دی کہ کل کو دنیا اس کی بیٹی کو طلاق یافتہ ماں کی بیٹی کا طعنہ نہ دے۔ وہ کوہلو کے بیل کی طرح لوگوں کے گھروں میں کام کرتی تھی تاکہ اس کی زینب پڑھ لکھ کر اپنے پیروں پر کھڑی ہو جائے۔ آج وہ قسمت ماری چھٹی کی وجہ سے ماں کا ہاتھ بٹانے ساتھ چلی گئی۔

—-+-+++++++++)))!!؟؟

سکینہ نے کئی دن بڑی حویلی کی طرف منہ نہ کیا اور وہ دوسرے گھروں میں کام کرتی رہی۔ کچھ دن بعد مالکن کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا اور اس نے ملازمہ کے ہاتھ پیغام بھیج کر سکینہ کو بلا لیا کیونکہ حویلی میں بڑی دعوت کا اہتمام کرنا تھا اور یہ ڈھیر سارا کام سکینہ جیسی سخت جان ہی ذمے داری سے نمٹا سکتی تھی۔ وہ چپ چاپ پھر حویلی میں کام کرنے لگی کیونکہ نمبرداروں  کی حکم عدولی کر کے وہ اپنی مشکل زندگی کو مزید مشکل نہیں بنا سکتی تھی۔  وقت تیزی سے گزر رہا تھا، سکینہ کی زینب ہر کلاس میں پوزیشن لیتی اور اس بار تو میٹرک کے امتحانات میں اس نے بورڈ میں پہلی پوزیشن لی تھی۔ سکینہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھی۔ وہ اپنی اوقات کے مطابق میٹھی روٹی بنا کر پورے محلے میں بانٹ رہی تھی۔ دو روٹیاں اس نے سلطانہ کے لیے بھی رکھ لیں اور لے کر حویلی چلی آئی۔

”مالکن میری زینب  بورڈ میں پہلے نمبر پر آئی ہے۔ اس خوشی میں میں نے میٹھی روٹی بانٹی ہے، آپ چکھ لیں نا! مجھے خوشی ہو گی۔“

سکینہ نے روٹی سلطانہ کی طرف بڑھائی اور اس نے وہ روٹی والا تھال اٹھا کر دیوار میں دے مارا۔

”کمبخت ماری میں تیری بیٹی کی خوشی مناؤں کہ اپنے بیٹے کے فیل ہونے کا دکھ۔ تیری ہمت کیسے ہوئی میرے گھر یہ روٹی لے کر آنے کی۔ پورے گاؤں کو پتا ہے حمزہ فیل ہو گیا تو چڑانے کے لیے لائی ہے یہ روٹی۔ دفع ہو جا یہ اپنا گند اٹھا کر، شکر کر تیرے سر پر نہیں دے مارا یہ تھال میں نے۔ “

وہ غیض و غضب سے چلائی۔

—++++))((((//——-+–++++++++

دن گزرتے گئے، سکینہ کی بیٹی تعلیمی میدان میں جھنڈے گاڑتی گئی۔ اب وہ سی ایس ایس کے امتحان کی تیاری کرنے کے لیے شہر جا رہی تھی۔ کمرے کے کرایے اور باقی اخراجات کے لیے بھاری رقم کی ضرورت تھی۔ سکینہ نے اپنی پرانی پیٹی کھولی اور اس میں سے اپنا دو تولے کا سیٹ نکالا جو شادی وقت اس کی ماں نے دیا تھا۔ یہ سیٹ بیٹی کے پیدا ہونے کے بعد سکینہ نے کبھی نہیں پہنا اور رشید کو یہی کہا کہ سیٹ چوری ہو گیا ہے تاکہ رشید اسے اٹھا کر بیچ نہ سکے۔  سکینہ اسے بیچنے کے لیے شہر جانا چاہتی تھی مگر وہ مالکن کو بغیر بتائے چھٹی بھی نہیں کر سکتی تھی۔ اس لیے وہ سیٹ پرانے کپڑے میں لپیٹ کر اپنے ساتھ حویلی لے گئی اور مالکن سے چھٹی کی درخواست کرنے لگی۔

”یہ برتنوں کا ڈھیر تیرا باپ دھوئے گا کیا؟ یہ برتن، کپڑے دھو دے پھر جہاں مرضی دفع ہو۔

مالکن نے غصے سے کہا اور سیکنہ چپ چاپ کام میں جت گئی۔

وہ کام نمٹا کر شہر جیولر کی دکان پر پہنچی۔ اس نے جیسے ہی سیٹ کی ڈبیا کھولی۔ وہ بالکل خالی تھی۔ سکینہ کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ وہ خود حویلی لانے سے پہلے ڈبیا کھول کر، پوری تسلی کر کے آئی تھی۔ اس کا زیور حویلی سے چوری ہوا تھا۔ وہ روتی پیٹتی حویلی پہنچی۔ سلطانہ کے سامنے جا کر فریاد کرنے لگی مگر وہ ہمیشہ کی طرح غصے آ گئی۔

”اری او دو ٹکے کی نوکرانی! اس حویلی میں کروڑوں کے زیورات موجود ہیں۔ تمھارا یہ ہلکا سیٹ ہماری نیت خراب کرے گا۔ شکر کر میں نے نمبردار کو نہیں بتایا، وہ تو تجھے گاؤں سے ہی نکال باہر کرتے۔  چل دفع ہو جا یہاں۔ تو پاگل ہو گئی یا آج شیدے کے ساتھ بیٹھ کر تو بھی نشہ کر آئی ہے۔“

مالکن نے یہ کہہ کر اسے نکال دیا اور وہ مردہ قدموں سے چلتی ہوئی گاؤں میں موجود پیر سائیں کے دربار پر آ گئی۔ وہ خوب روئی۔ کل داخلے کی آخری تاریخ تھی۔ اس کی بیٹی تیاری کے باوجود امتحان نہیں دے سکے گی۔ اس کے سارے خواب ٹوٹ گئے۔ وہ روتے روتے غنودگی میں چلی گئی۔ اتنے میں دربار فائرنگ کی آواز سے گونج پڑا۔ دربار میں ڈاکو گھس آئے تھے اور ان کے تعاقب میں پولیس نے ریٹ کر دی تھی۔ شدید فائرنگ کے بعد ڈاکوؤں کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ سکینہ ہوش میں آ چکی تھی۔ اب مردہ قدموں سے گھر کی طرف بڑھنے لگی۔ دربار سے نکلتے وقت اس کی نگاہ قریب ہی موجود جھاڑیوں پر پڑی۔ وہاں کالے رنگ کا شاپر آدھا پھٹا ہوا پڑا تھا۔ جس کی وجہ سے پانچ ہزار والے نوٹوں کی گتھیاں شاپر سے باہر جھانک رہی تھیں۔ سکینہ نے ادھر ادھر کا جائزہ لیتے ہوئے، وہ پیسے اپنے پرانے کپڑے میں لپیٹے اور گھر کی جانب تیز تیز چلنے لگی۔ ابھی وہ گھر کے دروازے کے پاس پہنچی تھی کہ اس کے دل سے آواز آئی۔

”جس بیٹی کو ساری عمر حلال کھلا کر پالا، تو کیا ان حرام پیسوں سے اس کا مستقبل خریدنے چلی ہے۔ قسمت دولت نہیں اوپر والا لکھتا ہے۔ تجھے آج اوپر والے پر بھروسہ نہیں رہا اور یہ نوٹوں کی بےجان گتھیاں تجھے سہارا نظر آ رہی ہیں۔“

وہ گھر کے دروازے سے ہی واپس پلٹ گئی۔ وہ یہ رقم لے کر سیدھی پولیس اسٹیشن پہنچی۔

وہاں وہ سیٹھ بھی موجود تھا، جس کے گھر ڈاکہ ڈال کر یہ رقم لوٹی گئی تھی۔ وہ سکینہ کی ایمانداری سے بہت متاثر ہوا اور اس نے انعام کے طور پر سکینہ کو دو لاکھ دے دیئے۔ سکینہ اللہ کا شکر ادا کرتی ہوئی گھر لوٹ آئی۔

—-++++))(((((((((((((//////////

دو سال بعد

سکینہ کی بیٹی شہر میں اے سی لگ گئی تھی۔ وہ اپنے نشئی باپ کا  علاج کروا چکی تھی۔ آج اس نے پہلی بار مجرموں کے خلاف ریٹ کی تھی اور بینک میں ڈاکے کی کوشش کو ناکام بناتے ہوئے مجرموں کو گرفتار کیا تھا۔ ان مجرموں میں حمزہ بھی شامل تھا جو گھر سے چھوٹی چھوٹی چوریاں کرتے کرتے بڑا ڈکیٹ بن چکا تھا۔

آج سلطانہ اور اس کا شوہر بیٹے کو ملنے تھانے آئے تھے۔  افسر کی سیٹ پر سکینہ کی بیٹی کو دیکھ کر ان کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے تھے۔ سلطانہ نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کہا۔

”آپ خواہ مخواہ پریشان ہو رہے تھے نمبر دار جی! افسر ہماری اپنی ہی تو ہے۔ پرانی ملازمہ سکینہ کی بیٹی۔“

زینب اس کی بات سن کر مسکرائی اور پورے اعتماد سے بولی۔

”آپ نے بالکل ٹھیک کہا کہ میں آپ کی پرانی ملازمہ کی بیٹی ہوں مگر آپ کو یہ بھی یاد ہو گا۔ برسوں پہلے میری ماں نے آپ کو بتایا تھا کہ میں نے میری بیٹی کی بہت اچھی تربیت کی ہے، اسے گناہوں سے دور رکھا ہے تو سوچیں مالکن جی! میری بہترین تربیت مجھے مجرم کا ساتھ دینے کی اجازت دے گی۔ کبھی نہیں، کاش آپ بھی میری ماں طرح اپنے بیٹے کو سیدھا راستہ دکھاتیں تو آج آپ بیٹا بھی عزت کی زندگی گزارتا اور آپ آج کسی ملازمہ کی بیٹی کے سامنے بےبس نہ کھڑیں ہوتیں۔  سچائی کا راستہ وقتی طور پر کٹھن ضرور ہوتا ہے مگر یہ راستہ منزل کی طرف ضرور لے جاتا ہے اور جھوٹ کا رستہ جتنا ہی دلفریب اور  رنگین کیوں نہ ہو اس کا انجام گہری کھائی ہی ہوتی ہے۔ بدقسمتی آپ کا بیٹا گہری کھائی میں گر چکا ہے مالکن صاحبہ! میرے خیال سے اب آپ لوگوں کو گھر جانا چاہیے۔“

زینب نے نہایت اعتماد سے کہا اور سلطانہ اور اس کا شوہر دل میں پچھتاوے لیے مردہ قدموں سے تھانے سے باہر چل دیئے۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

Skip to content