آرسی رؤف،اسلام آباد
آج چھٹی کا دن تھا۔بچوں نے خوب غل غپاڑہ مچایا ہوا تھا۔
مسز درانی کو اس علاقے میں وارد ہوئے چند روز ہی ہوئے تھے۔وہ ایک این جی او چلا رہی تھیں اور خود کو عورتوں کے حقوق کی علم بردار کہلوانے پر فخر محسوس کرتی تھیں۔عائشہ انہی سے مل کر آرہی تھی۔اپنی چادر تہہ کر کے رکھتے ہوئے کچن میں پڑے ان دھلے برتنوں کے ڈھیر کی جانب دیکھ کر وہ تاسف سے بولی:
” عورتیں جو امتحان میں نوے فی صد نمبر لیتی ہیں وہ بھی آخر برتن ہی تو مانجھتی ہیں۔عورت کو بھی کن بیڑیوں میں جکڑ دیا گیا ہے۔“
عزیر جو قریب ہی اخبار پڑھنے میں مگن تھا۔عینک نیچی کرتے ہوئے بولا:
” تو اس میں کیا حرج ہے؟“
عائشہ جھٹ بولی:
” حرج کیوں نہیں۔ جھاڑو پوچے میں پھنس کر عورت اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو زنگ لگا بیٹھتی ہے یا پھر اسے اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتیں آزمانے کا موقع ہی نہیں ملتا۔“
عزیر نے اخبار ایک طرف رکھا اور بولا:
” حیرت ہے کہ تم بھی ایسا ہی سوچتی ہو؟“
اب عائشہ باقاعدہ چڑ کر بولی:
” کیا مطلب میں بھی ایسا سوچتی ہوں۔آپ مردوں کو تو عورت کو نیچا دکھانا ہوتا ہے۔سچ ہی تو ہے مرد سوٹڈ بوٹڈ دفتر جا پہنچتا ہے اور عورت دن بھر جھاڑو پوچے اور بچے سنبھالنے میں خود کو ضائع کرتی رہتی ہے۔“
عزیر کو آج عائشہ جیسی سلجھی ہوئی اور سمجھدار خاتون کے منہ سے یہ سن کر بہت عجیب سا لگ رہا
تھا۔ یہ کیسا زہر ہمارے ذہنوں میں انڈیلا جا رہا تھا۔اس نے دکھ کے ساتھ سوچا۔
” کیا ہو گیا ہے عائشہ! “
وہ رسان سے بولا۔
” کیا ننھے علی کو ہاتھوں میں لیتے ہی تمہارا دل اس کی محبت سے لبریز نہیں تھا؟کیا اس کو نہلانا دھلانا، اس کے لئے نرم غذائیں تیار کرنے کے لئے تم ہلکان ہوئی نہیں پھرتی تھی؟ اس کا ایک قدم زمین پر پڑتے ہی تم اس کے پیچھے دوڑ نہیں پڑتی تھی مبادا گر کر چوٹ لگا لے۔یہ سب کیا تھا؟ “
” یہ سب تو میری مامتا تھی عزیر ! جس پر مجھے فخر ہے کہ خدا نے میرے اندر یہ جذبہ رکھا۔ورنہ آپ تو ناک ہی سکیڑتے رہتے تھے۔“
اس نے پھر سے عزیر پر طنز کیا۔
” بالکل یہی بات ہے عائشہ کہ تمہارے اندر فطرت نے یہ سب رکھا ہے کہ تم اپنے بچوں کی پرورش اپنے ہاتھوں سے کرو۔مرد کے اندر یہ وصف ہے ہی نہیں۔ یہی چیز تو ایک عورت کو عورت کے درجے پر فائز کرتی ہے۔خدا نے مرد پر عورت کی حفاظت کی زمہ داری عائد کی ہے اور عورت پر کسی مالی کی طرح جیسے وہ پودوں کو سینچ کر بڑا کرتا ہے اپنے گھر آنگن کے مکینوں ، خاص طور پر اپنے بچوں کی تربیت کی ذمہ داری عائد کی ہے۔مادہ اور نر دیکھنے میں ایک جیسے بھی ہوں ان کی جسمانی ساخت کے لحاظ سے ان کی ذمہ داریاں جدا جدا ہیں۔ تمہیں یاد ہے کیسے ہماری مرغی انڈوں کی حفاظت کے لئے پورے اکیس دن انھی پر براجمان رہی۔ مجال ہے اس کی ٹوکری کے قریب بھی کوئی جاتا کاٹ کھانے کو دوڑتی تھی۔
” یہ تو سچ ہے مادہ کے لمس کی حدت سے زندگی کشید ہوتی ہے۔“
” یہی تو،عورت اللہ تعالی کی سب سے خوب صورت تخلیق ہے۔جس میں خدا نے محبت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھر دیا ہے۔ماں ہے تو مجسم محبت،بیوی ہے تو مجسم محبت،بیٹی ہے تو مجسم محبت،بہن ہے تو مجسم محبت۔“
عائشہ پوری طرح اس کے کہے گئے الفاظ کے حصار میں مقید خود کو ہر روپ میں محسوس کر کے ہواؤں میں اڑتی چلی جا رہی تھی۔اسے اپنا آپ بہت حسین لگ رہا تھا۔اچانک ہی جیسے وہ اس حصار سے نکل آئی ہو تڑپ کر بولی:
” لیکن وہ مسز درانی(اسے پھر سے کل کی کا خواتین کے اجتماع سے کیا گیا خطاب یاد آگیا)وہ تو کہہ رہی تھیں مشرق میں عورت پسا ہوا طبقہ ہے۔مشرقی دنیا مردوں کی دنیا ہے۔“
” تم خود سوچو ناں!کیا ایسا ہے؟کیا تم جہاں جاتی ہو، کوئی بھی مرد ،بڑھ کر تمہاری لئے نشست خالی نہیں کر دیتا۔خواتین کو ان کی کمزوری یا پسا ہوا متصور کر کے یہ سب نہیں کیا جاتا بلکہ اس کو عزت دینے کی خاطر اس کے وقار کو بڑھانے کے لئے ایسا کیا جاتا ہے۔مرد خود آگے چلتا ہے اس لئے نہیں کہ وہ عورت کو کم تر سمجھتا ہے بلکہ اس لئے کہ سامنے آنے والے کسی بھی خطرے، پریشانی سے وہ خود نمٹ لے اور اس کے پیچھے آنے والی خاتون کا محافظ بنا رہے۔ “
عائشہ آہستہ آواز میں بولی:
” صحیح کہہ رہے ہیں آپ۔“
مسز درانی کئی دنوں سے اس علاقے کی خواتین کی ذہن سازی میں مصروف تھیں۔بہانے بہانے سے میٹنگز کا سلسلہ جاری تھا۔اہل علاقہ کی خواتین کو ان کے بچوں کی تربیت کے اولین فریضے اور گھر گھرداری چھوڑ کر میٹنگز میں شمولیت کے لئے اکسایا جا رہا تھا۔
“مسز درانی جیسی خواتین،ہمارے معاشرے کا وہ ناسور ہیں جو اپنی ان ذمہ داریوں سے فرار کی راہ اختیار کرنا چاہتی ہیں جو ایک عورت کا خاصہ ہیں۔۔ ”
عزیر پھر بول اٹھا:
” میری پیاری زوجہ!تو یہ سب کچھ مسز درانی نے آپ سے کہا کہ گھر کی صفائی ستھرائی،یا صاف ستھرے برتنوں میں اپنےہاتھوں سے اپنے بچوں اورشوہر کو کھانا کھلانا عورت کے وقار کو کم کرتا ہے؟
اگر ایسا ہوتا تو غور کرو دنیا کی معزز ترین خاتون جگر گوشہء رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم،زیرا بتول حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے زیادہ عزت دار کون سی خاتون ہو گی؟ وہ اپنے ہاتھوں سے چکی پیستیں،اور گھر کے تمام کام اپنے ہاتھوں سے سر انجام دیتیں یہاں تک کہ ان کے ہاتھوں پر چھالے بن جاتے۔تسبیحات فاطمہ کا ورد کرتے ہوئے کام میں مشغول بی بی فاطمہ کی اولاد حسن اور حسین کہلائی جنہیں خدا نے تمام دنیا کے نوجوانوں کا سردار قرار دیا۔ عبدالقادر جیلانی رحمت اللہ علیہ کی والدہ نے اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹے کے کپڑوں میں نقدی سی اور ساتھ ہی سچ کی تلقین بھی پلے باندھ دی۔کیا نوکروں کے ہاتھوں میں پلنے والے بچوں کو یہ نصیحتیں میسر آتی ہیں۔جن کو تم بیڑیاں سمجھتی ہو وہ دراصل بیڑہاں نہیں ایک خاندان کی بنیاد ہیں اور مضبوط بنیادیں مضبوط قوموں کی تعمیر کرتی ہیں۔
اور عورت کی کسی بھی صلاحیت کو زنگ نہیں لگتا عورت کے اندر اللہ نے یہ صلاحیت رکھی ہے کہ وہ اپنی اولادکی تربیت کے علاوہ ہر طرح کے کام سرانجام دے رہی ہے۔بشرطیکہ وہ وقت کی تقسیم کا ہنر استعمال کرے۔یہ ہنر بھی عورت میں مرد سے زیادہ ہے۔مرد یکسوئی کے ساتھ ایک وقت میں ایک ہی کام کر سکتا ہے،جبکہ عورت کئی کئی کام ایک ساتھ کر رہی ہوتی ہے۔“
عائشہ کے روح و قلب پر عجب سی رقت طاری ہوئی وہ تصور میں ان عظیم ہاتھوں کے بارے میں سوچنے لگی اور اس کی آنکھوں کے کنارے نمناک ہونے گے۔ پاؤں کی سب بیڑیاں جیسے کھل چکی تھیں۔
اس نے اپنے ہاتھ کی پشت سے آنکھوں کو رگڑتے ہوئے دروازے کی طرف قدم بڑھا دیا تو عزیر بول اٹھا:
” کہاں چل دیں؟“
کچن سمیٹنے اس نے پلٹ کر مسکراتے ہوئے کہا۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.