بقلم: مریم محمددین
کھڑکی کے قریب آمنے سامنے رکھی ہوئی وہ کرسیاں… محبت کی پہلی گواہ تھیں۔ مدھم چاندنی کھڑکی کے شیشے پر اتر رہی تھی، اور ان کرسیوں پر حُرم اور محمد کے درمیان سرگوشیوں کا ایک ایسا سلسلہ جاری تھا جس میں محبت اپنی بنیاد رکھ رہی تھی۔ دونوں کے چہرے مسکراہٹوں سے جگمگا رہے تھے، ان کی آنکھوں میں خواب اور دلوں میں سکون تھا۔
رات کا پہلا پہر بیت چکا تھا، اور چاندنی کا نور دھیرے دھیرے دھندلا رہا تھا۔ محمد نے نرمی سے حُرم کا ہاتھ تھاما اور کہا، “چلو، بہت دیر ہو چکی، آرام کر لیتے ہیں۔” حُرم کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی، اور وہ خاموشی سے اس کے ساتھ چل دی۔
بستر پر پہنچ کر محمد نے حُرم کو آہستہ سے لٹایا۔ پھر جھک کر اس سے اجازت چاہی: “میں کمبل ڈھانپ دوں؟” حُرم نے مسکراتے ہوئے سر ہلایا۔ محمد نے محبت بھرے انداز میں کمبل اس پر ڈال دیا۔ لیکن جیسے ہی محمد پلٹنے لگا، حُرم نے اسے اداسی اور التجا بھری نظروں سے دیکھا، جیسے کہہ رہی ہو: “مجھے چھوڑ کر مت جانا۔”
محمد نے حُرم کی آنکھوں میں چھپی بےبسی کو سمجھ لیا۔ وہ مسکرایا، پاس بیٹھ گیا، اور اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر بولا، “میں یہی ہوں، تم سکون سے سو جاؤ۔” حُرم نے آنکھیں بند کیں، لیکن دل میں یہ دعا دہراتی رہی کہ یہ لمحے کبھی ختم نہ ہوں۔ حُرم کے دل میں موجودگی کا احساس اور جدائی کا خوف دونوں تھے۔
محبت کے یہ لمحے امر ہو سکتے تھے، لیکن وقت کی تلوار محبت کے ریشمی دھاگوں کو بھی کاٹنے سے باز نہیں آتی۔ محمد کی مصروفیات بڑھ گئیں، اور حُرم کی شدتِ محبت محمد کو اعتدال میں رکھنا پڑتی۔ وہ حُرم کی محبت کو سمجھتا تھا لیکن حُرم کے دل کی بےچینی اور اس کی ضدی محبت کبھی کبھار محمد کے لیے آزمائش بن جاتی۔ حُرم محمد سے ضدی بچے کی طرح محبت کرتی تھی—بےحد، بے حساب اور بےپرواہ۔
ایک دن محمد اپنی نئی منزل کی جانب روانہ ہو گیا، اور حُرم کو تنہا چھوڑ گیا۔ اس نے دعاؤں کے ساتھ محمد کو رخصت کیا، لیکن دل کے کسی کونے میں امید کا دیا جلائے رکھا کہ شاید وہ پلٹ آئے۔
رات کی تنہائی میں حُرم اسی کرسی پر جا بیٹھی جہاں کبھی محمد اس کے ساتھ تھا۔ وہ رات کے اندھیرے میں اللہ سے محمد کی خوشیوں، برکتوں، اور آخرت میں کامیابی کے لیے دعائیں کرتی رہی۔ محبت کی شکست نہیں ہوئی تھی، حُرم کی دعاوں نے کبھی محمد کا دامن نہیں چھوڑا۔ لیکن حُرم کا دل محبت کے بوجھ تلے چُور ہو چکا تھا۔
“وصل کی شب ہو کہ ہجر کا پہر
وہ لمحے خوشبو کی طرح امر ہو گئے۔”
حُرم نے اپنی زندگی انتظار میں گزاری۔ دنیا کے ہنگاموں میں وہ ایک خاموش چراغ کی مانند جلتی رہی، لیکن محمد نے کبھی پلٹ کر اس کی جانب نہیں دیکھا۔ اس کے دل کی گہرائیوں میں چھپی ہوئی یادوں نے اسے بےچین رکھا، مگر وہ اپنی بےچینی کو مصروفیات کے پردوں میں چھپانے کی کوشش کرتی رہی۔
حُرم نے اپنے دل کو ہر طرح سے مشغول کیا، کاموں میں خود کو جھونک دیا، لیکن یہ مصروفیت بھی محمد کی یاد کے گہرے زخموں کو مندمل نہ کر سکی۔ ہر رات، ہر دعا میں وہ محمد کے لیے خیر مانگتی، لیکن اپنے دل کی آرزو کبھی زبان پر نہ لائی۔
وقت گزرتا گیا۔ روتے، مسکراتے، اور صبر کے ساتھ اس اذیت کے دنوں نے برسوں کا سفر طے کر لیا۔ آخر کار وہ لمحہ آیا جب حُرم کو ابدی سکون نصیب ہوا۔ دنیا کی اذیتوں سے نجات پا کر وہ اس رب کے حضور پہنچی، جس کی رضا ہمیشہ اس کے دل کی سب سے بڑی تمنا تھی۔
جنت کے حسین مناظر میں، جب ہر شخص کو اس کا محبوب جوڑا دیا جا رہا تھا، حُرم نے خاموشی سے اپنے رب کی جانب دیکھا۔ وہ جس کی برسوں سے منتظر تھی، آخر کار پل بھر کے لیے اس کے سامنے آیا۔ حُرم نے اشک بھری آنکھوں سے اسے دیکھا، دل میں خوشی کا ایک سیلاب امنڈ آیا، لیکن غم کی کوئی گنجائش نہ تھی کیونکہ جنت میں غم کا تصور ہی نہیں ہوتا۔
محمد ایک لمحے کے لیے اس کے قریب آیا، لیکن پھر ہجوم میں کھو گیا۔ حُرم کی آنکھوں میں سکون اور مسکراہٹ کا امتزاج تھا۔ وہ جانتی تھی کہ اللہ کا فیصلہ بہترین ہے، اور اس نے اپنے دل کو رب کی رضا کے حوالے کر دیا۔
حُرم وہاں بھی اکیلی تھی، لیکن اب اس کا دل مطمئن تھا۔ جنت کی فضا میں، وہ انتظار اور وفا کے صبر کا انعام پا چکی تھی، اور اس کے دل میں شکوے کی کوئی جگہ نہ رہی۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.