حرا کالج کے لیے تیار ہو کر جانے لگی۔ تو انور صاحب بولے” تم پیدل کیوں جا رہی ہو میں تمہیں چھوڑ آتا ہوں”۔ یہ بات سن کر بلقیس  کی آواز آئی “پاس ہی تو کالج ہے چھوڑنے کی کیا ضرورت ہے چلی جائے گی “۔ انور صاحب نے بہت پیار سے حرا کی طرف دیکھا اور  جواب دیا ۔”نہیں میری بیٹی پیدل کیوں جائے میں اسے خود چھوڑ کے آؤں گا “۔انور صاحب کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔ جس کا نام حرا تھا ۔انور صاحب اس سے بہت پیار کرتے اس کی ہر خواہش پوری کرتے ۔اور ہر وقت کہتے رہتے “میری بیٹی بہت پیاری ہے میں اس کی ہر خواہش پوری کروں گا” ۔”یہ جتنا پڑھنا چاہتی ہے

 میں اس کو پڑھاؤں گا میری بیٹی کی آنکھوں میں کبھی آنسوں نہ آئیں ۔اس کی کوئی خواہش نہ رہ جائے اللہ اس کا نصیب اچھے کرے”۔ بیٹوں سے زیادہ وہ حرا سے پیار کرتے اس کی ہر بات مانتے ہر خواہش پوری کرتے جو کہ یہ بات بلقیس کو اچھی نہ لگتی۔

اور وہ کہتی رہتی مت کیا کرو ایسے تھوڑا سا اسے روکا کرو ڈانٹا کرو اس طرح ہر خواہش پوری کرنا اچھی بات نہیں۔ لیکن انور صاحب بلقیس کی ایک نہ مانتے الٹا اس کو ہی ڈانٹ دیتے۔ میٹرک کے بعد پڑھنے والی بات بھی انور صاحب نے حرا کی مانی ۔اور اس کا کالج میں داخلہ کروا دیا۔

 جبکہ انور صاحب کے بھائی اور اس کے گھر والے روکتے رہے مت پڑھاؤ اور  بس کر دو۔ لیکن ان کو شوق تھا انہوں نے کسی کی نہ مانی۔” وہ کہتے تھے میں اپنی بیٹی کو بہت پڑھانا چاہتا ہوں یہ کچھ پڑھ لکھ کر بن جائےاور میرا نام روشن کرے گی میں اس کو گھر میں بٹھانا نہیں چاہتا میں چاہتا ہوں کہ یہ کسی منزل تک پہنچ جائے”۔  “میرے اور میری بیٹی کے بارے میں کوئی نہ سوچے ہمارے درمیان کوئی نہ آئے میں جو بھی کروں گا اس کی اور اپنی مرضی سے کروں گا”۔

” کسی کو کوئی حق نہیں بولنے کا آج میں نے کہ دیا ہے مجھے بار بار نہ کہنا پڑے”۔یو ں حرا کو کالج جاتے ایک سال ہو گیا۔  سردیوں  کی رات تھی ہر طرف سناٹا  چھایا تھا اور دھن  اتنی تھی کہ پاس ٹھہرا ہوا شخص بھی پہچانا نہیں جاتا تھا ۔بلقیس کی کمرے میں پڑے ہوئے اچانک آنکھ کھلی اس کا دل گھبرا رہا تھا۔ پتا نہیں اس کو کیا ہو رہا تھا فورا اٹھ کر بیٹھ گئی۔ رات کا پچھلا  پہر تھا جب اس  کی آنکھ کھلی۔ تو اپنے آپ سے ہی مخاطب ہوئی “مجھے باہر جا کر دیکھنا چاہیے پتہ نہیں کیوں ایسے لگتا ہے جیسے باہر کا دروازہ کھلا ہے”۔ فورا اٹھی اور باہر کے دروازے کی جانب بڑ ھی جا کر کیا دیکھتی ہے دروازہ تو کھلا ہے۔

سردی حد سے زیادہ تھی جلدی کنڈی لگائی اور بغیر کچھ سوچے واپس آ کر سو گئی۔ جیسے ہی صبح کا سورج طلوع ہوا سب گھر والے جاگ گئے ۔ہر کوئی اپنے اپنے کام میں لگ گیا اچانک انور صاحب کی آواز آئی” خیر تو ہے آج حرا اٹھی نہیں جاؤ بلقیس اس کو جا کر دیکھو  اس کی طبیعت تو ٹھیک ہے نا”۔ بلقیس جو روٹی پکا رہی تھی ۔

” اکتائی ہوئی بولی خود ہی اٹھ جائے گی جو ابھی تک نہیں اٹھی ہوگا بخار میں اب روٹیاں پکا کر ہی یہاں سے اٹھوں گی “۔انور صاحب جواب سن کر چپ ہو گئے۔ سب ناشتہ کر کے اپنے اپنے کام کرنے لگے ۔انور صاحب بھی باہر زمینوں کی طرف چل دیے ۔بلقیس جو چارپائی پر کام سے فارغ ہو کر بیٹھی تھی ۔حرا کو آوازیں دینے لگی ۔لیکن حرا کی کوئی آواز نہ آئی ۔ پریشان ہوگئی اور جلدی جلدی اٹھ کر حرا کے کمرے میں گئی جا کر کیا دیکھتی ہے حرا تو اپنے کمرے میں ہے ہی نہیں۔ یہ خبر انور صاحب تک پہنچی تو بھاگے بھاگے گھر آئے ہر طرف شور مچ گیا حرا کہاں ہے کہاں گئی ۔

انور صاحب کے بھائی آواز سن کر ان کے گھر آن پہنچے  اور پوچھنے لگے” کیا ہوا حرا کو”۔ حرا کا چھوٹا بھائی زاہد فورا بولا” پتہ نہیں حرا کہاں چلی گئی  گھر میں نہیں ہے” ۔یہ الفاظ اس کے منہ سے سنتے ہی لڑنے  لگے ۔

“میں نے  بھابھی  کو کئی بار کہا تھا اس لڑکی پر  نظر رکھیں اس طرح اس کو ٹیوشن نہ بھیجو پر کسی نے میری نہ سنی اب دیکھ لیا نتیجہ “۔  اپنی بیٹی کے بارے اس طرح کی باتی سن  کر انور سے برداشت نہ ہوا چلائے اکبر “کیا بول رہے ہو تم سوچ سمجھ کر بولو بیٹی ہے وہ میری مجھے اپنی اولاد پر بھروسہ ہے”۔ ہر طرف شور مچ گیا اس بات کو تین دن گزر گئے ۔چوتھے دن حرا  کو جیسے بھی  کر کے تلاش  کر لیا گیا۔اور  یہ بات عدالت تک پہنچ گئی۔

 حرا اب ایک کمرے میں قید تھی اس کو بس اندر ہی کھانا دیا جاتا اور اس پر نظر رکھی جاتی۔ حرا کی پھپھو  تک جب یہ بات پہنچی تو انہوں نے آتے ہی گھر میں ہنگامہ برپا کر دیا۔ “ایک بولی سب  کچھ ہماری بھابی میں ہے انہوں نے اولاد کی پرورش اچھی نہیں کی اور دیکھ لو آج میرا بھائی ذلیل ہو رہا ہے”۔

دوسری طرف زاہدہ  کے منہ سے زہر نکلنے لگا۔”میں تو کہتی ہوں اس کو ختم کر دو تم لوگوں میں ہمت نہیں ہے تو مجھے بتاؤ میں یہ کام کر دیتی ہوں گند ختم ہو جائے گا “۔ گھر میں اس کو اپنی طرف کرنے کی بہت کوشش کی گئی مارا پیٹا گیا ۔پیار محبت سے بھی سمجھایا گیا پر اس کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا۔

کچھ دن بعد عدالت میں حرا کے حق میں  فیصلہ ہو گیا۔ اور وہ اپنے شوہر کے ساتھ اس کے گھر چل دی ۔ماں باپ بوجھل قدموں کے ساتھ سر جھکائے  اپنے گھر آگئے ۔گھر کی دہلیز پار کرتے ہی انور صاحب نے بلقیس کی طرف دیکھ کر کہا “آج کے بعد میں تجھے اس کو یاد کرتا ہوا نہ دیکھوں ۔تمہاری زبان سے اس کا نام نہ سنو وہ ہمارے لیے مر گئی ہے اگر کبھی بھی تیرے منہ سے اس کا نام سنا تو پھر تو بھی  یہاں سے چلتی بنے گی”۔

” میں یہی سمجھوں گا میری بیٹی تھی ہی نہیں وہ پیدا ہوتے ہی مر گئی تھی۔ اور تو بھی بات اپنے دماغ میں رکھ لے” ۔بلقیس   چپ چاپ باتیں سنتی گئی۔ اس بات کو دو سال بیت گئے وقت کا کام ہے گزر جانا فوراً گزر گیا۔ ایک دن کپاس چنتے ہوئے ان کی ہمسائی مائی جندہ اس کے پاس آئی  کچھ دیر بعد باتیں کرنے لگی۔ “تیری بیٹی بہت روتی ہے تجھے یاد کر کے اس کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی اس کا ایک بیٹا ہوا جو کہ مر گیا ہے”۔

” گھر والے اچھا سلوک نہیں کر رہے مارتے ہیں۔ بیچاری بہت دکھ میں ہے مجھے اس کو دیکھ کر ترس آتا ہے۔ بس کر دو صلح کر لو معافیاں بھی تو ہوتی ہیں غلطی ہو گئی اس سے اس کو معاف کر دو”۔ “ایسا نہ ہو کہ کہیں دیر ہو جائے اور تم ہمیشہ کے لیے اس سے  دور ہو جاؤ” ۔بلقیس  اس کی باتیں سنی رہی ۔ جیسے ہی اس نے سر اونچا کیا سامنے سے اسے انور  آتے دکھائی دیا ۔اس کو آتے ہوئے دیکھ کر فورا مائی جندہ کو چپ کرنے کا کہا۔ مائی جندہ چپ ہو گئی۔ شام ہو گئی سب اپنے گھروں میں آگئے ۔بلقیس رات کو جندہ کی باتیں سوچتی رہی۔ کبھی حرا  کا سوچ کر  اس سے باتیں کرتی کبھی اپنے آپ سے کرتی۔ “حرا تو نے کیا کر دیا میں بہت مجبور ہوں تیری شکل دیکھ نہیں سکتی تجھ سے مل نہیں سکتی۔

 میری بچی تجھے کیسے  سمجھاتی کہ زندگی میں سب کچھ نہیں ملتا  بہت کچھ چھوڑنا پڑتا ہے برداشت کرنا پڑتا ہے “۔”اب دیکھ تیرے اٹھا گئے ایک قدم نے  کیا کر دیا ہے میں بہت مجبور ہوں نہ تجھے بھول سکتی ہوں اور نہ تجھ سے مل سکتی ہوں ہر دن اذیت میں گزر رہا ہے”۔  حرا یہ دنیا ہے ہی ایسی بے حس ہے کسی کو کسی کی پرواہ نہیں سب کو اپنی عزت اور شان کی پڑی ہے ۔جب تیرے بارے میں سنتی ہوں تو کچھ سمجھ نہیں  آتا تجھ سے ملنے کو بہت دل کرتا ہے  دل کرتا اڑ کر آجاؤں تیرے پاس گلے سے تجھے لگا لوں۔  لیکن بہت مجبور ہوں ۔میں تو اب یہی دعائیں کرتی ہوں کہ میں ہی مر جاؤں ۔ اب دکھ برداشت نہیں ہوتا”۔ ساری رات سوچوں میں گزر گئی۔ اگلی صبح ناشتے کے وقت بلقیس کا نجانے کیوں دل کیا کہ وہ انور سے حرا سے ملنے کی بات کرے ابھی وہ یہ سوچ ہی رہی تھی کہ ان کے گھر حرا کی فوتگی کی خبر پہنچی ۔ آج صبح دس بجے اس کا جنازہ ہے۔  خبر سن کر انور صاحب کے منہ سے کوئی لفظ نہ نکلا چپ بیٹھے کھانا کھاتے رہے ۔سب اپنے اپنے کام کرتے رہے۔لیکن بلقیس کی آنکھ سے آنسوں  نکل   کر آٹے کے پیڑے پر ضرور گرے۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact
Skip to content