( حصارِ نور میں ہوں )
جب میں نے اس کتاب کا نام سنا تو اُسی وقت ارادہ کر لیا تھا کہ اس کتاب کو جب دیکھوں گی ، پڑھوں گی تو اس کے بارے میں ضرور لکھوں گی کیونکہ یہ نام سنتے ہی سیدھا میرے دل میں اتر گیا تھا ۔ اس نام کو میں نے دل ہی دل میں کئی بار دہرایا اور ہر بار یہ نام لیتے میں نے دل میں اِک سکون سا محسوس کیا ۔
شروع میں تو مجھے اس کے لکھنے والے کا نام تک بھی نہیں پتہ تھا یا شاید میں نے کتاب کے نام کی سرشاری میں اور کچھ دیکھا ہی نہیں تھا ۔
میں کسی کتاب کے بارے میں بہت کم کم لکھتی ہوں ۔ اس سلسلے میں آپ مجھے سست اور کاہل کہہ سکتے ہیں یا دوسری صورت میں اگر آپ میری اس عادت کو مثبت طور پر لیں تو یہ سمجھیں کہ مجھے لگتا ہے کہ شاید میرے لکھے چند الفاظ اس کتاب اور مصنف کا حق ادا نہیں کر سکیں گے ۔ ہو سکتا ہے وہ کتاب میرے لکھے الفاظ سے کہیں زیادہ سراہے جانے کے قابل ہو ۔ بس یہی سوچ کر میں اکثر لکھتے لکھتے رک جاتی ہوں ۔
لیکن اس کتاب کا نام سن کر بے اختیار دل کیا کہ اس کے بارے میں کچھ لکھوں اور لکھوں بھی ایسا جو پڑھنے والے کے دل میں بالکل اُسی طرح اترے جس طرح اِس کتاب کا عنوان میرے دل میں اتر کر ہمیشہ کےلئے نقش ہو گیا ۔
چونکہ مجھے والدِ محترم پروفیسر خالد بزمی کی وفات کے بعد ان کے دو نعتیہ مجموعے شائع کروانے کی سعادت نصیب ہو چکی تھی جس کے لیے میں اپنے رب کی شکرگذار ہوں کہ اُس نے مجھے اس قابل سمجھا کہ میں اپنے والد صاحب کا خوبصورت کلام سمیٹنے کا وسیلہ بن سکوں ۔
میں نے والد صاحب کی اُن دونوں کتابوں کا حرف حرف پڑھا اور بار بار پڑھا۔
میں نے ان کیفیات کو محسوس کیا جو وہ نعتیہ کلام لکھتے ہوئے میرے والد صاحب کی ہوئی ہوں گی بالکل اٌسی طرح میں کافی حد تک اُن کیفیات کا بھی اندازہ کر سکتی ہوں ( جو حصارِ نور میں ہوں ) جیسی خوبصورت کتاب لکھنے والی پیاری ہستی ڈاکٹر ثروت رضوی صاحبہ پر گذری ہوں گی ۔
میں اندازہ کر سکتی ہوں کہ اس کتاب کا حرف حرف کس جذبے سے کتنی عقیدت و احترام اور خلوص کے ساتھ لکھا گیا ہو گا ۔
میں محسوس کر سکتی ہوں کہ یہ نعتیہ کلام لکھتے ہوئے شاعرہ نے اپنے آپ کو اللہ اور اس کے نبی پاک ﷺ کے کتنا قریب محسوس کیا ہوگا ۔
مجھے نعت پڑھتے اور سنتے ہوۓ ہمیشہ اپنے اِرد گِرد گلابوں کی سی خوشبو محسوس ہوتی ہے ۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے اُس وقت میری اپنی ذات مہکتے ہوۓ پھولوں کے حصار میں ہے ۔
جب نعت پڑھنے والے کی ذہنی و قلبی حالت ایسی ہو جاتی ہے تو نعت کہنے والے کے دل و دماغ کِن وسعتوں کو چھوتے ہوں گے , اللہ نے ان کی سوچوں کو نور کی کہکشاؤں سے کس طرح منور کیا ہو گا ۔ یہ تصور ہی میری روح تک کو سرشار کر رہا ہے کہ ڈاکٹر ثروت رضوی کو اللہ نے کتنے پیارے الفاظ میں نبی پاک ﷺ
کی تعریف کے لیے الفاظ کے موتیوں کو ایک لڑی میں پرونے کے لیےچنا ہے ۔
نعت کہنا بہت بڑی سعادت ہے ۔ یہ ایک مسلمان کے اپنے اللہ کے دنیا میں بھیجے گۓ اُس آخری نبی ﷺ
کے ساتھ خلوص و عقیدت کے جذبات کا اظہار ہے ۔اور یہ سعادت اللہ اپنے پیارے اور بہت ہی پیارے بندوں کے نصیب میں لکھتا ہے ۔
حمد و نعت کہنے کو ، شاعری کا نگینہ کہا جاتا ہے ۔ یہ کوئی أسان کام نہیں ہوتا ۔ اس فن میں کمال اسی کو حاصل ہوتا ہے جو دل میں اس حوالے سے سچے جذبات رکھتا ہے ۔
ادب کے کچھ ناقدین تو اس کو ادب کی مشکل ترین صنفِ سخن قرار دیتے ہیں کیونکہ یہاں پر بات پیدا کرنے والے رب اور اس کے محبوب کی ہوتی ہے جس کو خود رب نے رحمت اللعالمین بنا کر بھیجا ہے اور دوسری طرف زبان ، الفاظ اور شاعری کے جمالیاتی تقاضے ہوتے ہیں ۔
اس لیے حمد و نعت کا حق وہی ادا کر سکتا ہے جو جذبہ عشق الہیٰ اور عشقِ رسول ﷺ
سے سرشار بھی ہو اور فن کی باریکیوں سے بھی واقف ہو ۔
(حصارِ نور میں ہوں ) میں ڈاکٹر ثروت ان تمام معیاروں پر پورا اترتی ہیں کیونکہ ان کے دل میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ
کے لیے جذبات بھی سچے ہیں اور وہ شاعری کے فن کی باریکیوں سے بھی بخوبی واقف ہیں ۔
حمد و نعت کا رشتہ بہت نازک اور عقیدت و احترام والا ہوتا ہے اور یہ واقفیت ہر شاعر کے بس کی بات نہیں ہوتی ۔ ذرا سی لغزش سے نیکی برباد اور گناہ لازم ہو جاتا ہے ۔
( حصارِ نور میں ہوں ) میں شاعرہ ایک الہامی کیفیت سے گذرتے ہوئے جن خوبصورت لفظوں کے نگینے جڑتی نظر آتی ہیں وہ قاری کو بھی اس کیفیت سے دوچار کرتی ہیں جن سے ثروت رضوی صاحبہ ان نعتیہ کلام کو لکھتے ہوۓ بارہا گذری ہوں ۔
پریس فار پیس پبلی کیشنز سے شائع ہونے والے اس خوبصورت نعتیہ مجموعے کے سر ورق کو سبز گنبد کی دل کو موہ لینے والی تصویر سے سجایا گیا ہے ۔ سرورق اتنا دلکش اور دیدہ زیب ہے کہ درجنوں کتابوں میں سے آپ بے اختیار اسی کتاب کو اٹھاتے ہیں اور عقیدت سے آنکھوں سے لگا لیتے ہیں ۔ جیسے جیسے آپ ورق گردانی کرتے چلے جاتے ہیں آپ اس کیفیت سے گذرتے جاتے ہیں جو ثروت رضوی صاحبہ نے اپنے قلم سے موتی پرو کر بیان کی ہے ۔
جیسے کہ کہتی ہیں
رہنے نہیں دیتی ہے مجھے میری زمیں پر
لے جاتی ہے یہ نعت مجھے عرشِ بریں پر
سبحان اللہ ۔ سچے عاشقِ رسول ہونے کا ثبوت دیتی 59 نعتوں سے سجی ( حصارِ نور میں ہوں ) کا لفظ لفظ عشقِ محمدی ﷺ
سے لبریز ہے ۔
اس خوبصورت کتاب کا دیباچہ ڈاکٹر صفدر ہمدانی نے لکھا ہے .
اس کے بعد نصرت نسیم صاحبہ کے عقیدت بھرے الفاظ اس کتاب کو چار چاند لگائے ہوئے ہیں ۔
حصارِ نور میں ہوں
کی اشاعت یقینًا پریس فار پیس پبلیکیشز کے لیے ایک شاندار اعزاز ہے ۔
نعت گوئی اس روحانی کیفیت کے نتیجے میں تخلیق ہوتی ہے جو اللہ اپنے پیارے اور محبوب بندوں کے نصیب میں لکھتا ہے اور روزِ قیامت یہ جنت میں بڑی شان سے داخل ہونے والے وہ لوگ ہوں گے جو باقی سب لوگوں کے لۓ قابلِ رشک ہوں گے ۔ ان شاء اللہ
بیشک ( حصارِ نور میں ہوں ) نعتیہ کتابوں میں وہ خوبصورت اضافہ ہے جو رہتی دنیا تک شاعرہ کے لۓ فخر کا باعث اور آخرت میں وجۀ نجات ہو گا اور نعتیہ کتابوں میں ( حصارِ نور میں ہوں ) ایک گلاب کی طرح اپنی خوشبو سے پڑھنے والوں کی سوچ اور نبی پاک ﷺ
کے ساتھ عقیدت کے جذبات کو مہکاتا رہے گا ۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.