جاڑے کا سورج اُس روز بھی اپنی زرد مگر ٹھنڈی دھوپ لیے طلوع ہوا۔ “ماں جی” نے اپنے لختِ جگر کو خاکی وردی پہنتے دیکھا تو آنکھوں کے سامنے ماضی کے بیتے دن ایک فلم کی مانِند چلنے لگے۔ جب ساری رات درد زہ سہنے کے بعد ایک ننھا منّا سا گُڈا ان کی گود میں ڈال دیا گیا۔ ماں کے ساتھ بندھی ڈور تو پیدائش کے وقت کاٹ دی جاتی ہے مگر اُسی کٹی ہوئی ڈوری سے ماں مسقبل کے تانے بانے بُننے لگ جاتی ہے۔ ایک ماں کی اپنی ساری تکلیفیں ہوا ہو جاتی ہیں، جب وہ اپنے وجود کے حصے کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھتی ہے۔ جب وہ وجود مسکراتا ہے تو ماں کے سارے دکھ درد کو اپنی مسکان میں سمیٹ لیتا ہے۔
بیٹے نے جاتے ہوئے اپنی جنت کی قدم بوسی کی تو یک دم ماضی کے سب حسین مناظر ایک بلبلے کی مانند ہوا میں تحلیل ہو گئے۔ ماں نے ڈھیروں دعاؤں کے ساتھ روانہ کیا۔
بوڑھی آنکھیں، کپکپاتا وجود، ماتھے پر زندگی بھر کی محنتوں و صعبوتوں کی شکنیں، مگر دل اب بھی اُمنگوں سے روشن تھا۔ اب انکا وہ ننھا بیج ایک ثمر آور درخت بن چکا تھا۔ جس کی ٹھنڈی چھاؤں میں وہ اپنی زیست کی تھکن اتارنے بیٹھی تھیں۔
کِسے خبر تھی کہ یہ راحت وقتی تھی۔ زندگی کی دھوپ سے آبلہ پا ہو کر جس گھنی چھاؤں میں وہ آن بیٹھی تھی اُن کا وہ پیڑ ہی زمین بوس ہو جائے گا۔ وہ انہونی ہو گئی جسکا ایک ماں تصور بھی اپنے اوپر حرام کر لیتی ہے۔
وطن کی حفاظت کرتے ہوئے جان کا نذرانہ پیش کرنے والے سپوت کی آخری نشانی اسکے جوتے، خاک میں لتھڑے ہوئے، خون میں نہلائے ہوئے، اپنے سینے کے ساتھ لگائے نوحہ کناں ماں۔
اس تصویر میں دِکھتے ہوئے غم کی ترجمانی کا حق میرے یہ الفاظ قطعاً ادا نہیں کر سکتے۔
اولاد کے فراق میں جب ایک باپ(حضرت یعقوب علیہ السّلام) اپنی آنکھیں سفید (بے نور) کر لیتے ہیں تو میرا ربّ وہ داستان قرآن کی آیات کی زینت بنا دیتا ہے۔ اولاد کی جدائی میں پھر انکی چیزوں سے ہی انکی خوشبو آتی ہے اور ان کے ہونے کا احساس دلاتی ہے۔
اپنی کوکھ سے نکال کر زمین کی کوکھ میں اپنا دل رکھ دینا کس قدر حوصلے کا کام ہے بیان سے باہر ہے۔ لکھنے والے بہت خوب لکھ کر گئے ہیں، میرا خیال ہے اس سے بہتر کوئی غم کی ترجمانی نہیں کر سکتا۔
ہجر تیرا جے پانی منگے
تے میں کُھو نیناں دے گھیڑاں
جی کردا اے تینوں سامنے بٹھا کے
وے میں درد پرانے چھیڑاں
(کلام میاں محمد بخش)
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.