افسانہ
انعام الحسن کاشمیری
”جوتے پالش نہ کروں، تو بہتر ہو گا ورنہ یہی لگے گا کہ میں امیر آدمی ہوں۔ کپڑے بھی یہی مناسب ہیں، اچھے کپڑے پہن کر آدمی سیٹھ لگنے لگتا ہے خواہ جیب میں پھوٹی کوڑی بھی نہ ہو لیکن… لیکن میرے پاس تو خاصی رقم ہے!!!“ یہ خیال آتے ہی وہ لوہے کی مضبوط الماری کی طرف مڑا جو دوسرے کمرے میں کاٹھ کباڑ کے ساتھ یوں رکھی تھی جیسے اسی کا حصہ ہو۔ پہلے اس نے اپنے فلیٹ کے داخلی دروازے کو غور سے دیکھا، جب اطمینان ہو گیا کہ وہ مقفل ہے، تو جا کر الماری کھولی۔
سب سے نچلے خانے کے اندر ایک اور خانہ تھا، اس میں چھوٹے سے ڈبے کے اندر رقم رکھی تھی۔ وہ بڑی احتیاط سے ڈبابا ہر نکال کر نوٹ گننے لگا۔ تین لاکھ روپے پانچ بار گن کر انہیں دوبارہ سیاہ لفافے میں رکھا۔ لفافہ بند کرنے کے بعد اسے دستی بیگ کا خیال آیا جو دوسرے کمرے میں تھا۔
لفافہ قریب دھری میز پر رکھ کر وہ دستی بیگ لینے اٹھا۔ جو نہی مڑا، تو دیکھا کہ بالکونی کی کھڑکی کھلی ہوئی ہے، وہ تیزی سے لپکا اور کھڑکی بند کر کے کنڈیاں چڑھا دیں۔
”اف میرے خدایا! اگر کوئی اس کھڑکی میں سے کود کر اندر آجاتا تو؟“ اس نے دستی بیگ ہاتھوں میں زور سے دبا لیا۔ ”میں بھی کتنا بے وقوف ہوں، مجھے پہلے ہی کھڑکیاں اچھی طرح بند کر لینی چاہئیں تھیں، وگرنہ چور ڈاکو تو کتوں کی طرح روپوں کی بو سونگھتے پھرتے ہیں۔ ہو سکتا تھا کہ میری رقم کی بوبھی کھڑکی کے راستے باہر جاتی اور نیچے بازار میں تاک میں بیٹھے کسی چور کے نتھنوں میں گھستی، تو وہ اپنی چھٹی حس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میرے فلیٹ میں آدھمکتا اور پھر میری رقم…“ اس نے بیگ مضبوطی سے تھام لیا جس میں چیک بک، ضروری دستاویزات اور دیگر کاغذات رکھے تھے۔
قریب رکھی کرسی پر بیٹھ کر اس نے لمبے لمبے سانس لیے اور آئینے میں اپنا چہرہ دیکھا جس پر خوف کے تاثرات چھائے ہوئے تھے۔ اچانک اسے محسوس ہواکہ اس کادایا ں ہاتھ کانپ رہا ہے۔ اس نے ہاتھ کو غور سے دیکھا اور بیگ دوسرے ہاتھ میں لے لیا جس سے کپکپاہٹ ختم ہو گئی۔ سینے پر ہاتھ رکھ کر دل کی دھڑکن معلوم کی، تو اس کی رفتار خاصی تیز تھی۔ پانی کے دوتین گلاس پی اور لمبے لمبے سانس لے کر وہ اسے معمول پر لایا۔
بالآخر نصف گھنٹے کی جدوجہد کے بعد وہ خود کو شانت کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اب اس نے احتیاط سے دروازہ کھولا اور باہر نکل کر یوں بے پروائی سے بند کیا جیسے فلیٹ خالی ہے اور اس میں کوئی قیمتی شے موجود نہیں۔ بیگ بھی ہاتھ میں ایسے تھام رکھا تھا جیسے اس میں کپڑے بھرے ہیں۔ اگر کوئی چور اسے اچک لے، تو اسے پرانے کپڑوں کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔
خود کو بے پروا دکھانے کے باوجود بیگ پر اس کی گرفت مضبوط تھی اور وہ کن انکھیوں سے اطراف کا جائزہ لے رہا تھا۔ سیڑھیوں سے اترتے اورر اہداری میں چلتے ہوئے اس نے خود کو پر سکون رکھنے کی کامیاب کوشش کی۔ جب وہ بیرونی سڑک پر پہنچا، تو اس کی حالت دوبارہ متغیر ہونے لگی۔ دل تیزی سے دھڑکنے کے باعث بیگ والا ہاتھ پھر کانپنے لگا۔ پیشانی عرق آلود ہو گئی اور قدم من من بھرکے۔
چنانچہ قریبی ریستوران سے اس نے پانی کے دو گلاس پئے اور پھر سستانے لگا۔ اسی وقت اسے علاقے کا بدنام غنڈہ ریستوران میں داخل ہوتا نظر آیا۔ اسے دیکھتے ہی اس کی ریڑھ کی ہڈی میں سردلہر سرایت کر گئی۔ ندیم بڑا خطرناک شخص تھا، وہ دیکھتے ہی یہ اندازہ لگا لیتا تھا کہ کس کی جیب میں کتنی رقم ہے اور اس کا خیال عموماً صحیح نکلتا۔ پھر وہ رقم اڑانے کے لیے ایسا حربہ استعمال کرتا کہ پولیس کو تمام تر تفتیش کے باوجود زرہ بھر ثبوت نہ ملتا۔
ندیم کی بدمعاشی سے علاقے بھر کے لوگ آگاہ تھے لیکن عدالت کو ثبوت درکار ہوتا ہے، اس کے بغیر خطرناک مجرم بھی شریف آدمی متصور ہے جسے عدالت باعزت بری کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ ”اف میرے خدا! اب کیا ہو گا؟ اگر وہ جان گیا کہ میرے پاس کثیر رقم موجود ہے، تو وہ اسے اڑانے میں ایک پل نہیں لگائے گا۔ اب کیا، کیا جائے؟ کیا یہیں بیٹھ کر اس کے کہیں جانے کا انتظار کروں، بیگ چھپالوں یا پھر لمبے لمبے ڈگ بھرتا یہاں سے نکل جاؤں لیکن کوئی فائدہ نہیں، وہ کمبخت میرے اٹھنے سے اندازہ لگالے گا کہ میرے پاس بھاری رقم ہے۔
یوں وہ میرے پیچھے لگ جائے گا اور موقع پا کر وار کردے گا۔ اف خدایا! اب کیا کیا جائے۔“ خوش قسمتی سے ندیم اسے دیکھے بغیر جلد ہی چلا گیا، یہ دیکھ کر اس نے اطمینان کا سانس لیا مگر کچھ دیر بعد اسے یوں محسوس ہوا کہ سامنے بیٹھے دو آدمی اس کے متعلق سرگوشیاں کرتے ہوئے منصوبہ بنا رہے ہیں کہ اس کا بیگ کس طرح اڑایا جائے۔ اس نے ان کے چہروں کو غور سے دیکھا، تو ایسا لگا جیسے وہ پیشہ ور اور انتہائی تجربے کار چوروں کے چہرے ہیں۔
ایک آدمی کے دائیں رخسار پر لگے زخم کے نشان سے لگتا تھا کہ وہ پولیس تشدد کا نتیجہ ہے۔ ”اگر یہ بات ہے تو مجھے فوراً یہاں سے چلے جانا چاہیے۔“ چنانچہ اس نے بیگ پر گرفت مضبوط کی، اٹھا اور تیزی سے چلتا ہوا باہر نکل آیا۔ چلتے چلتے اسے احساس ہوا کہ وہ آدمی اس کا تعاقب کر رہے ہیں۔ ”کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ بھی بیگ اڑانے کے چکر میں ہوں۔“ یہ خیال آتے ہی اسے یوں لگا جیسے اس کے پاؤں وزنی ہو گئے ہیں اور اس کے لیے ایک قدم چلنا بھی دشوار ہے۔
اس نے پیدل راہ سے اتر کر ایک رکشے والے کو رکنے کا اشارہ کیا اور اس میں بیٹھ گیا۔ کچھ دور جانے کے بعد رکشا ایک گلی میں مڑا، تو اسے پھر خطرے کا احساس ہوا۔ گاڑیوں میں آئے دن ہونے والی وارداتوں کی خبریں فلم کے مانند اس کے دماغ میں چلنے لگیں۔ چوراہے پر رکشے والے نے ایک شخص کو ہاتھ سے اشارہ کیا، تو وہ چونک گیا۔ اسے یقین ہو گیا کہ رکشے والے نے آدمی کو اشارے سے بتایا ہے کہ رکشے میں بیٹھی سواری کے پاس بھاری رقم موجود ہے اور وہ اب اسے راستے میں چکما دے کر رقم اڑا لے جائے گا۔
اس کی پیشانی پر پسینے کے قطرے چمکنے لگے۔ اس نے انہیں رومال سے صاف کیا لیکن بے سود… پسینہ سر کے کھچڑی نما بالوں سے نکل کر اس کی کنپٹیوں پر بہنے لگا۔ کچھ ہی دیر میں اس کے ہاتھ پسینے سے شرابور ہو گئے۔ لگتا تھا بیگ خود بخود ہاتھوں سے پھسل کر رکشے کے فرش پر گر جائے گا۔ اسے رکشا قید خانے کے مانند معلوم ہوا جس کے گھٹن زدہ ماحول میں اس کا سانس رکنے لگا تھا۔
ایک جگہ اسے دکانوں کے باہر چند لوگ کھڑے نظر آئے، تو اس نے موقع غنیمت جانا اور فوراً رکشا روکنے کو کہا۔ ”بس بس … مجھے یہیں اتار دو!“ آواز اس کے حلق سے بمشکل نکل سکی۔ ”لیکن جناب آپ نے تو آگے جانا تھا“۔ ”نہیں … مجھے ایک ضروری کام یاد آگیا۔ کتنے روپے بنے، یہ لو۔“ رکشے سے اتر کر وہ سامنے والی دکان پر پہنچا اور سگریٹ کی ایک ڈبیہ خریدی۔
پھر ایک سگریٹ سلگا کر دوسری گلی میں مڑ گیا۔ وہ یہ تاثر دینا چاہتا تھا کہ اسے اسی گلی میں جانا ہے۔ خوش قسمتی سے اس نے جس گلی کا انتخاب کیا وہ سڑک پر کھلتی تھی اور وہاں سے بینک نزدیک ہی تھا۔ چند منٹ بعد وہ بینک کے قریب پہنچ گیا لیکن پھر اچانک ایک اور خیال نے اس پر کپکپی طاری کر دی…”اگر ابھی بینک میں ڈاکا پڑ گیا تو؟“ اسے اپنی جان کانٹوں بھری جھاڑی میں ا لجھتی ہوئی محسوس ہوئی۔
یہ سوچ کرا س کا دوران خون تیز ہو گیا کہ اس کی رقم خواہ مخواہ دوسرں کے قبضے میں چلی جائے گی۔ ”بہتر یہی ہے کہ اپنی رقم گھر ہی میں رکھوں، وہاں کم از کم محفوظ تو رہے گی۔“ یہ سوچ کر وہ بینک میں داخل ہونے کے بجائے یوں آگے بڑھ گیا گویا اس کا بینک سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی اس کے پاس رقم یا سونے کے زیورات ہیں جنہیں محفوظ کرنے لوگ، بینک جاتے ہیں۔
وہ ناک کی سیدھ میں چلتا ایک پر رونق چوراہے پر پہنچ گیا جہاں سے اسے بس پکڑنی تھی۔ ایک بس کنڈکٹر اسے دیکھتے ہی اس کی جانب لپکا اور بیگ ہاتھ میں لیتے ہوئے پوچھنے لگا ”آیئے جناب…! آپ کو کہاں جانا ہے؟ ”اف میرا خدا!“ اس کی ٹانگیں کانپنے لگیں ”کیا کنڈکٹر کی تیز نظریں یہ اندازہ لگا چکی ہیں کہ میرے بیگ میں بھاری رقم موجود ہے؟ اگر یہ بات ہے تو پھر مجھے ہر گز اس بس میں نہیں بیٹھنا چاہیے“۔
اسے کنڈکٹر ایسا آدمی معلوم ہوا جو بظاہرمسافروں سے کرایہ لیتا اور انہیں مطلوبہ جگہ اتارتا ہے لیکن پس پردہ وہ مسافروں کی جیبیں صاف کرتا ہے۔ ”نہیں … نہیں مجھے کہیں نہیں جانا، میں تو یہیں قریب ہی رہتا ہوں۔“ اس کے حلق سے گھٹی گھٹی آواز نکلی۔ ”کوئی بات نہیں جناب! آپ کو جہاں جانا ہے وہیں اتار دیں گے۔ آپ بیٹھئے تو سہی۔ صرف دو سواریوں کی کمی ہے، جیسے ہی پوری ہوئیں، فوراً چل دوں گا۔
“ کنڈکٹر اسے اپنی بس پر بٹھانے پر بضد تھا لیکن اس کی کوشش تھی کہ وہ آگے نکل جائے، چنانچہ وہ سڑک کی دوسری سمت ہو لیا۔ گھبراہٹ میں اس کا رخ اس جانب ہو گیا جس طرف بینک تھا۔ اسے تب پتا چلا جب اس کی نظر بینک پر پڑی چنانچہ وہ پھر واپس ہو لیا۔ جب وہ سڑک پار کرنے لگا، تو اسے احساس ہوا کہ جو آدمی پیچھے آ رہا تھا، اس نے اس کے ساتھ ہی سڑک پار کی ہے۔
”اوہ… مجھے تو اس بات کا دھیان ہی نہیں رہا۔ لگتا ہے وہ آدمی سمجھ رہا ہے کہ میں بینک سے رقم نکلوا کر لایا ہوں۔ میرے پاس بیگ ہے، تو ظاہر ہے رقم بھی خاصی ہو گی۔“ یہ سوچتے ہی اس نے گردن گھما کر آدمی کی جانب دیکھا۔ اسے لگا جیسے وہ بیگ ہی کو دیکھ رہا تھا، جو نہی اس نے اسے دیکھا، وہ دوسری طرف دیکھنے لگا۔ ”اب کیا کیا جائے؟“ اس نے ڈوبتے دل اور کانپتے ہاتھوں سے بیگ پر گرفت مضبوط کر لی اور تیز تیز چلتا ہوا کچھ فاصلے پر کھڑی بس میں سوا ر ہو گیا۔
جب وہ آدمی آگے گزر گیا، تو اس نے اطمینان کا سانس لیا۔ فلیٹوں کی عمارت تک پہنچ کر وہ مرکزی دروازے پر کھڑا ہو گیا۔ دراصل اسے ڈر تھا کہ اگر وہ تنہا اوپر گیا، تو ممکن ہے کوئی شاطر اور عیار دشمن اس سے بیگ چھین کر فرار ہو جائے۔ کچھ دیر بعد جب دو آدمی اوپر جانے لگے، تو وہ بھی ان کے ساتھ ہو لیا۔ فلیٹ کے سامنے پہنچ کر جب اس نے تالا کھولنا چاہا، تو وہ کھل کر نہ سکا۔
اس نے سوچا کہ شاید گھبراہٹ کی وجہ سے چابی صحیح طرح نہیں لگی لیکن کئی بار کوشش کے باوجود خودکار تالے نے کھلنے سے انکار کر دیا۔ اچانک اس کا ہاتھ ہینڈل پر لگا، دباؤ سے جب وہ نیچے ہوا تو دروازہ جھٹ کھل گیا۔ دراصل خود کار تالا بند ہی نہیں ہوا تھا، اسی لیے چابی سوراخ میں گھوم نہیں رہی تھی۔ وہ جلدی سے اندر داخل ہوا اور فوراً دروازے کی کنڈی چڑھا دی۔ مکمل اطمینان کر لینے کے بعد وہ لوہے کی الماری کی طرف گیا اور رقم والا بیگ رکھ کرتالا لگا دیا۔ بیگ محفوظ کرنے کے بعد جب وہ دوسرے کمرے میں داخل ہوا، تو اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ اسے ایسا محسوس ہوا جیسے ابھی اس کا دل رک جائے گا اور وہ راہی ملک عدم ہو جائے گا۔ تین لاکھ روپے والا لفافہ سامنے میز پر دھرا تھا۔